ریاستِ مدینہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ

February 08, 2021

ریاستِ مدینہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے بارے میں کچھ تحریر کرنے سے پہلے یہ واضح کردوں کہ یہ سب عرض کرنے کا مقصد حکمرانوں ا و ر سیاست دانوں کو ان کےقول ، فعل میں تضاد کی جانب توجہ دلانا ہے۔

اب اس اعلیٰ کتاب اور اسلام کی اس اعلیٰ شخصیت، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ، کے بارے میں اور ریاستِ مدینہ کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اس کتاب کا نام ’’حضرت سَیّدنا عمر بن عبدالعزیزؒ کی 425 حکایات‘‘ ہے۔ یہ کتاب اسلام کے شیدائیوں کی جانب سے مسلمانوں کے لئے ایک نہایت اعلیٰ پیشکش ہے۔ یہ پوری کتاب فخر اسلام، مثالی منصف حکمراں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی سوانح حیات، ان کے اخلاق، ان کے انصاف، ان کی زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالتی ہے اور یہ اعمال 17صفحات کی ایک فہرست پر مشتمل ہیں۔

امیرالمومنین حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ 61 یا 63 ہجری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم کا نام سیدنا عبدالعزیزؒبن مروانؒ تھا۔آپ بنواُمیہ کی ممتاز شخصیت تھے۔ 20برس سے زیادہ عرصے تک مصر کے گورنر رہے۔ آپ کی والدہ محترمہ اُمِ عاصم، حضرت عاصم بن حضرت عمرؓبن خطاب کی بیٹی یعنی حضرت عمرؓ کی پوتی تھیں۔ اسی خونی رشتہ کی وجہ سے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ میں حضرت عمرؓ کی اعلیٰ شخصی خصوصیات آگئی تھیں۔حضرت عمرؓ بن خطاب نے ایک خواب دیکھا اور بیدار ہونے کے بعد فرمایا کہ میری اولاد میں سے ایک شخص جس کے چہرے پر زخم کا نشان ہوگا، زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا رنگ گورا، چہرہ پتلا، آنکھیں گہری اور چہرے پر خوبصورت ڈاڑھی تھی۔ بچپن میں پیشانی پر چوٹ لگ گئی تھی جس کا نشان پڑ گیا تھا ، جس کا اشارہ حضرت عمر ؓ بن خطاب نے خواب کے بعد کیا تھا۔

آپ ؒنے تعلیم مدینہ میں حاصل کی۔ آپؒ نے بچپن میں ہی قرآن حفظ کرلیا تھا اور اپنے وقت کے جیّد محدثین سے علم حاصل کیا۔ آپ کو بڑا امام، فقیہ، مجتہد، احادیث کا ماہر مانا جاتا تھا۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ بہت صالح اور نیک تھے۔ آپ کے چچا خلیفہ عبدالملک نے ان سے بے حد محبت اور اعلیٰ کردار کی وجہ سے اُنکی شادی اپنی بیٹی فاطمہؒ سے کردی۔ یہ وہی حضرت فاطمہ تھیں جو ایک خلیفہ (یعنی عبدالملک) کی بیٹی، خلیفہ مروان کی پوتی اور خلفاء یعنی ولید بن عبدالملک، سلیمان بن عبدالملک اور یزید بن عبدالملک کی بہن تھیں اور ان کے شوہر نامور امیرالمومنین حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ بھی خلیفہ تھے۔

آپ نے ایک خط میں اپنے بیٹے کو تقریباً وہی اعلیٰ نصیحتیں لکھ کر بھیجیں جو حضرت لقمانؒ نے اپنی وفات سے پہلے اپنے بیٹے کو کی تھیں اور جن کا تفصیلی تذکرہ سورۃ لقمان میں موجود ہے۔ آپ کو 25 برس کی عمر میں پہلے خناصِرہ، پھر مدینہ کا گورنر بنا دیا گیا اور آپ نے اپنے نیک کردار اور عوام کی خدمت کرکے لوگوں کے دل موہ لئے۔ تقریباً چھ سالہ گورنری کے بعد خلیفہ سے اختلاف کی وجہ سے استعفیٰ دیا اور واپس دمشق چلے گئے وہاں خلیفہ نے اپنا مشیر بنالیا مگر آپ کی نصیحتوں سے سخت ناراض تھا، غلط اقدامات پر ان کی رضامندی چاہتا تھا جو ناممکن تھی۔ خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے ایک مرتبہ اعتراف کیا تھا کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ میرے پاس موجود نہ ہوں تو مجھے کوئی ایسا شخص نہیں ملتا جو ان سے زیادہ معاملہ فہم اور صحیح مشورہ دینے والا ہو۔

جب خلیفہ سلمان بن عبدالملک شدید بیمار ہوگئے تو اپنا ولی عہد اپنے بیٹے ایوب کو بنانا چاہا مگر ایک نہایت باعزّت بزرگ سیّد زَجا بن حیوۃ ؒکے مشورےسے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کو خلیفہ بنا دیا اور ساتھ میں یہ بھی لکھ دیا کہ ان کے انتقال کے بعد یزید بن عبدالملک کو بالترتیب خلیفہ بنا دیاجائےتاکہ خاندان میں جھگڑا نہ ہوا اور سب نے ان کے ہاتھوں بیعت کرلی۔ جب خلیفہ بنائے گئے تو رونے لگے کہ مجھے اس ذمّہ داری سے بے حد خوف آتا ہے۔ آپ نے عوام کو مستعفی ہونے کی پیشکش کی مگر عوام نے قبول نہیں کی اور آپ دل و جان سے اللہ کی رضا اور عوام کی بھلائی اور بہبود کے کاموں میں لگ گئے۔

آپ کے دورِ خلافت نے پوری دنیائے اسلام کو حضرت عمرؓ بن خطاب کا دورِ حکومت اور عدل و انصاف کی یاد دلادی۔ آپ کا ہر اقدام عدل و انصاف اور رضائے اِلٰہی پر مبنی تھا۔ پورے ملک میں خوشحالی تھی ۔ ایک مرتبہ آپ نے زکوٰۃ کی رقم غریبوں میں تقسیم کرنے کی ہدایت کی، مملکت میں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیںملا، پھر آپ نے کہا کہ افریقی ممالک کے مسلمانوں میں تقسیم کردو، وہاں بھی کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں ملا، یہ تھی ریاستِ مدینہ کی صحیح شکل و صورت۔ آپ 20 دن بیمار رہنے کے بعد 25 رجب 101 ہجری کو رُحلت فرماگئے۔

وزیر اعظم آپ نے نواز شریف اور زرداری وغیرہ کو پیشکش کی ہے مگر آپ کی باتیں ناقابل قبول ہیں کہ آپ نےکسی وعدے کا پاس نہیں کیا۔ میں سب کو ایک مشورہ دینا چاہتاہوں۔

الفاروق اور حیات عمر بن عبدالعزیزؒ کا مطالعہ کریں، اللہ پاک آپ کے دل میں ہدایت ڈال دے گا اورآپ کے قول اور فعل میں تضاد ختم ہوجائے گا۔ قول و فعل کے تضاد کو اللہ رب العزت نے منافقت کہا ہے اور قرآن میں صاف صاف فرمایا ہے کہ منافق کی بخشش نہیں ہوگی۔ اللہ پاک ہم سب کو سچ بولنے، عہد کو پورا کرنے اور ایمان پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور حکمرانوں کو عوام کی عزّت، زندگی کا امین بنائے (آمین)۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)