شیر کی حکومت نہیں چاہئے !

May 27, 2013

شیر کو جنگل کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ اس بادشاہ کو اپنی رعایا کی خوشنودی سے کوئی غرض نہیں ہوتی بلکہ اُس کی رعایا ہی اُس کی غذا بنتی ہے۔ جنگل کا یہ بادشاہ نہ تو کسی کو انصاف دیتا ہے نہ ہی کسی کمزور اور بیمار کی مدد کرتا ہے۔ وہ جنگل کا بادشاہ صرف اس لئے ہے کہ وہ سب سے زیادہ طاقتور اور خونخوار ہے۔ شیر جنگل کے جانوروں کیلئے خوف اور رعب کی علامت ہے۔ اُس کی دھاڑ سن کر کوئی اُسے دعائیں نہیں دیتا بلکہ اُس کی دھاڑ سن کر چرند و پرند بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ جنگل میں رہنے والے شیر سے ڈرتے ہیں اُس کا احترام نہیں کرتے۔ شیر کی طاقت اُسے جنگل کی بادشاہت تو دلوا دیتی ہے لیکن اُسے احترام نہیں دلوا سکتی۔ چیر پھاڑ کی طاقت دلوں میں احترام پیدا نہیں کرتی بلکہ انصاف اور ایثار سے دلوں میں احترام پیدا ہوتا ہے۔ اصل حکومت رعایا کے دماغ پر نہیں بلکہ دلوں پر ہوتی ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کا انتخابی نشان شیر تھا۔ شیر کامیاب ہو چکا ہے لیکن شیر کے نشان پر کامیابی حاصل کر کے وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو شیر بن کر نہیں دکھانا۔ اُنہیں اپنے سے کمزوروں پر گرجنا برسنا نہیں بلکہ ساتھ لے کر چلنا ہے۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد نواز شریف نے اپنے سب سے بلند آہنگ سیاسی حریف عمران خان کے ساتھ ملاقات کی اور انہیں اہم قومی مسائل کے حل کیلئے مل جل کر چلنے کی پیشکش کی جسے عمران خان نے قبول کیا۔ ایک طرف نواز شریف اور عمران خان میں کشیدگی کچھ کم ہوئی تو دوسری طرف عمران خان اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین میں کشیدگی بہت زیادہ بڑھ گئی۔ اس کشیدگی کی وجہ کراچی میں تحریک انصاف کی عہدیدار زہرہ شاہد حسین کا قتل بنا۔ عمران خان نے اس قتل کی ذمہ داری براہِ راست الطاف حسین پر عائد کی۔ کئی مبصرین نے یہ سوال اٹھایا کہ عمران خان نے کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر الطاف حسین پر قتل کا الزام کیوں لگایا؟ عمران خان کے قریبی حلقے جانتے ہیں کہ اس قتل سے کافی پہلے عمران خان کو یہ کہا جا رہا تھا کہ ایم کیو ایم ان کی جان کے درپے ہے۔ عمران خان نے جب بھی انتخابی مہم کے دوران کراچی یا حیدرآباد میں جلسے جلوس کا عزم کیا تو ایک خفیہ ادارے کی طرف سے اُنہیں کہا گیا کہ آپ کراچی سے دور رہیں کیونکہ یہاں آپ کی جان کو خطرہ ہے۔ عمران خان بار بار 25 دسمبر 2011ء کو کراچی میں اپنے عظیم الشان جلسے کا حوالہ دیتے اور کہتے کہ کراچی میں وہ ایک پرامن جلسہ کر چکے ہیں لیکن خفیہ ادارے کی طرف سے عمران خان کو کہا جاتا کہ اگر آپ باز نہ آئے تو ایم کیو ایم آپ کو نہیں چھوڑے گی۔
عمران خان کو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابی مہم چلانے کیلئے مکمل آزادی دی گئی لیکن سندھ اور بلوچستان میں روکا گیا۔ عمران خان کے کچھ ساتھی اس شک کا اظہار کرتے رہے کہ تحریک انصاف کو جان بوجھ کر سندھ اور بلوچستان میں انتخابی مہم چلانے سے روکا گیا تاکہ یہاں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور ان کے دیگر اتحادیوں کو زیادہ نقصان نہ ہو۔ اس شک کو اس وقت تقویت مل گئی جب گیارہ مئی کو کراچی سمیت سندھ کے کئی شہروں میں دھاندلی شروع ہوئی تو اکثر مقامات پر پولیس اور رینجرز نے خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا۔ یہی کچھ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہوا۔ پنجاب میں ملی جلی صورتحال تھی۔ نارووال میں تحریک انصاف کے ابرار الحق نے مقامی انتظامیہ پر مسلم لیگ (ن) کی حمایت کا الزام لگایا اور راولپنڈی میں مسلم لیگ (ن) کے حنیف عباسی نے پولیس افسران پر تحریک انصاف کی حمایت کا الزام لگایا۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ کم از کم سیالکوٹ کی سطح تک تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کے خلاف اعلانیہ اتحاد کر رکھا تھا اور اس اعلانیہ اتحاد میں جماعت اسلامی بھی چوری چھپے شامل رہی۔ کراچی میں تحریک انصاف اور ایم کیو ایم میں کشیدگی شروع ہوئی تو جماعت اسلامی نے اپنا وزن تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈال دیا۔ کراچی کے حلقہ این اے 250 میں تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی کی کامیابی کے بعد اس کشیدگی میں کمی ہونی چاہئے تھی لیکن یہ کشیدگی بدستور جاری ہے۔ این اے 250 میں ایم کیو ایم کی شکست کے بعد اس تنظیم کے اندر بھی کافی شکست و ریخت ہوئی ہے اور نئی رابطہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ امید ہے کہ نئی رابطہ کمیٹی کراچی شہر میں ایم کیو ایم کو نئے چہر ے کے ساتھ روشناس کرائے گی۔ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف سیاست میں ایک دوسرے کا سیاسی انداز میں مقابلہ کریں لیکن زہرہ شاہد حسین کے قتل کی تحقیقات میں پولیس کے ساتھ تعاون کریں۔ قتل کی تحقیقات کرنے والوں کو عمران خان سے یہ ضرور پوچھنا چاہئے کہ انہوں نے الطاف حسین کو زہرہ شاہد حسین کے قتل کا ذمہ دار کیوں قرار دیا؟
یقینا عمران خان کی طرف سے الطاف حسین کی کچھ تقاریر میں موجود دھمکیوں کی طرف اشارہ کیا جائے گا لیکن تحقیقات کرنے والے عمران خان سے یہ ضرور پوچھیں کہ اُنہیں یکم مئی کو کراچی میں جلسے سے کس نے روکا؟ روکنے والوں نے عمران خان کو کس کے بم حملوں سے ڈرایا؟ اگر روکنے والوں کے پاس واقعی کوئی ٹھوس اطلاعات موجود تھیں تو اُنہیں یہ اطلاعات کیسے اور کہاں سے ملیں اور انہوں نے کیا کارروائی کی؟ ان سوالات کے جواب حاصل کرنے سے کئی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکتا ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس شہر میں امن کی بحالی کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ ایک تجویز یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں عمران خان کو اپوزیشن لیڈر بنانے کیلئے ایم کیو ایم کی مدد حاصل کی جائے۔ دونوں جماعتوں کے مابین تعاون کسی عہدے کے حصول کے لئے نہیں بلکہ کسی بڑے مقصد کے حصول کیلئے ہونا چاہئے۔ ہمارے سیاسی قائدین کو چاہئے کہ اپنے کردار میں بلندی پیدا کریں۔ کردار میں بلندی نظر آئے گی تو افکار میں بھی سچائی کی روشنی نظر آئے گی۔ پاکیزگی کردار اور پاکیزگی افکار کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ عمران خان اور الطاف حسین کسی سیاسی عہدے کی بجائے کسی پاکیزہ مقصد کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر کے دیکھیں تو اللہ تعالیٰ ان کے تعاون میں برکت پیدا کرے گا۔ افسوس کہ ہم تضادات کی دنیا میں رہتے ہیں۔ ہمارے کئی رہنما نماز بھی پڑھتے ہیں اور جھوٹ بھی بولتے ہیں۔ اسی لئے ہم دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے بھی بجلی کے بحران پر قابو پانے کی طاقت سے محروم ہیں۔ بجلی کا بحران ہماری چوریوں، بدانتظامیوں اور بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ کیا اس بحران پر قابو پانے کیلئے نواز شریف، عمران خان، آصف زرداری، الطاف حسین، مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی، منور حسن، ڈاکٹر عبدالمالک، محمود خان اچکزئی، پیر پگارو اور دیگر قائدین اکٹھے نہیں ہو سکتے ؟ کیا یہ سب اس طعنے کو غلط ثابت نہیں کر سکتے کہ پاکستان میں قائدین کی بہتات ہے اور قیادت کا فقدان؟ یہ سب مل جل کر بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ انہیں صرف ایک فیصلہ کرنا ہے کہ بجلی چوروں کو معاف نہیں کیا جائے گا اور کرپٹ سرکاری افسران کو فارغ کر دیا جائے گا۔ نواز شریف اگر سب کو ساتھ لے کر چلیں اور جلد از جلد بجلی کا بحران ختم کر دیں تو وہ ہمارے دلوں پر حکومت کریں گے، ہمیں شیر کی حکومت نہیں ایک اچھے انسان کی حکومت چاہیے۔