ترقی مگر ذرا سنبھل کے

February 12, 2021

بُرا ہوا مگر ایسا تو ہونا ہی تھا۔ بھارت کے پہاڑی صوبے اُترا کھنڈ میں موسم خراب ہوا اور پہاڑی تودے ٹوٹ کر گرنے لگے۔ وہیں حکومت نے ایک بہت تنگ گھاٹی میں بہنے والی برساتی ندی کی راہ روک کر ڈیم بنایا اور اس کی دھوم مچائی کہ پانی کے زور کو کام میں لاکر یہا ں بجلی بنائیں گے اور اپنی دنیا اور عاقبت کو منوّر کریں گے۔تبت کی سرحد کے قریب یہ دور درازعلاقہ ہے جہاں سینکڑوں محنت کش گہر ی سرنگ میں داخل ہو کر اس میں توسیع کر رہے تھے کہ موسم جھنجلا کر پھٹ پڑا اور اوپر سے پانی نے زور مارا تو ایک بڑا پہاڑی تودا ٹوٹ کرپانی کے ریلے کے ساتھ ندی میں بہہ نکلا ۔پھر اس نے راہ میں کچھ نہ دیکھا یہاں تک کہ بڑی دھوم سے بنائے گئے بجلی گھر کی بنیادیں لرزیں اور پانی کی ٹھوکروں نے راہ میں حائل سب کچھ روند ڈالا۔کتنے ہی لوگ مارے گئے ،کتنے ہی لاپتہ ہیں اور بہت سے پتہ بھی ہیں لیکن ایک بڑی سرنگ کے اندر پھنسے ہوئے ہیں اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ تیزی سے بڑھتے اعداد و شمار کہاں جاکر رکیں گے۔

کوئی کچھ بھی کہے، بہت ہی افسوس ناک واقعہ ہے اور ان کنبوں اور گھرانوں کا رہ رہ کے خیال آتا ہے جن کے روزی روٹی کمانے والے سر براہ نہیں معلوم گھر لوٹ کر آئیں گے یا نہیں۔

اس طرح کی تعمیرات پر نگا ہ رکھنے والے اس شدید صدمے کے باوجود یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ یوں پہاڑی گھاٹیوں میں قدرت کی راہ مسدود کرنا ہرگز بھی دانش مندی نہیں اور اس طرح کی تعمیرات کسی تحقیق اور سائنسی تجزئیے کے بغیربنانا کبھی خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ سب جانتے ہیں کہ ہر قسم کے ڈیم، بیراج اور بند بنانے سے پہلے امکانات کا بڑا ہی مفصل جائزہ لیا جاتا ہے جس کے بعد تعمیر کا مرحلہ آتا ہے۔میں اس دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے والوں کو داد دیتا ہوں جنہوں نے ایک غلط فیصلے پر بے لاگ تبصرہ کیا اور جو حقیقت تھی وہ کھل کر کہہ دی۔

اترا کھنڈ کی طرح ہمالیہ کے دامن میں قدم قدم پر تنگ گھاٹیاں ہیں جنہیں یوں دیکھیں تو خیال ہوتا ہے کہ یہاں کتنے ہی بجلی گھر بن سکتے ہیں مگر یہ بات آسان نہیں۔ ڈیم اور بیراج کو تو جانے دیجئے، کبھی کبھی قدرت بھی دریاؤں کی ٹھوکر کی زد میں آکر بڑی بڑی چٹانیں اور پہاڑی تودے گرا کر پانی کی گزر گاہ میں دیوار چن دیتی ہے اور گہری وادیوں میں بڑی بڑی جھیلیں بن جاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ انہیں کوئی سوچ سمجھ کر نہیں بناتا تو تاریخ نے یہ منظر بارہا دیکھا ہے کہ یوںاس طرح بن جانے والی سمندر جیسی جھیلیں یوں ڈگمگا تی رہتی ہیں کہ لگتا ہے ان کے آگے کھڑا ہوا بند اب ٹوٹا اور اب ٹوٹا۔ ہم نے دریائے سند ھ کی تاریخ پڑھی اور لکھی ہے کہ اس شیر جیسے دھاڑتے دریا میں بننے والی جھیلوں کے آگے کھڑی ہوئی رکاوٹیں بارہا پانی کے ریلے میں بہہ نکلیں اور پھر جو سیلاب امڈا وہ نیچے وادی میں انسانی آبادی کو تنکے کی طرح بہا لے گیا۔ ایک مرتبہ دریائے سندھ میں چٹانیں گرنے سے بہت ہی بڑی جھیل بنی تھی اور ہر شخص کی دعا تھی کہ خدا نیچے واقع بستیوں اور آبادیوں پر کرم کرے۔ ایک بار ایسی ہی ایک جھیل بنانے والی چٹانوں کو ہوائی جہاز سے بمباری کرکے توڑا گیا اور اس سے پہلے نیچے وادی کی ساری آبادی کو محفوظ مقام پر پہنچایا گیا۔ یوں نہ ہوتا تو بڑی تباہی مچتی۔اس وقت بھی پاکستان کے شمالی علاقوں میں ایک جھیل بنی ہوئی ہے لیکن وہ تنگ وادی میں نہیں اس لئے کوئی بڑا خطرہ نہیں بلکہ وہاں ایک دل کش منظر بن گیا ہے۔ کچھ بھی ہو، احتیاط لازم ہے۔ قدرت کی کارروائی کی پہلے سے خبر نہیں ہوتی اور ہمیں یقین ہے کہ اس مصنوعی جھیل پر کڑی نگاہ رکھی جارہی ہوگی۔اس زمانے میں انسانی جانوں کے تلف ہونے پر دل پہلے ہی بہت بوجھل ہے، بس اب کوئی ایسی تدبیر ہو کہ انسان جیتا رہے۔