آہ! ایک جمہوری آواز خاموش ہوگئی

February 19, 2021

اعلیٰ نثر نگاری کا کبھی دعویٰ نہیں رہا، الفاظ ہمیشہ ٹوٹے پھوٹے ہی محسوس ہوئے مگر بالخصوص آج اگر آپ کو الفاظ میں شکستگی محسوس ہو تو خیال کیجئے کہ اس لمحے یہ الفاظ ضبطِ تحریر میں لاتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں، دل کی دھڑکنیں بےربط محسوس ہو رہی ہے، آنکھیں آنسوؤں سے تر ہیں۔ فون اٹھایا، میسج پڑھا اور فون ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ مشاہد ﷲ خان چل بسے، وہاں جا کر بس گئے ہیں جہاں سے ہم بےخبر ہیں۔ یہ مشرف دور کے بالکل ابتدائی دنوں کی بات ہے، میں مشاہد ﷲ خان کے نام سے شناسا تھا مگر ان سے ملاقات نہیں تھی۔ مشاہد ﷲ خان کی جاوید ہاشمی سے بہت قربت تھی اور میری بھی ان سے نیاز مندی، انہی کی بدولت مشاہد ﷲ خان سے پہلا تعارف ہوا جو پھر ان کی زندگی کے آخری لمحے تک قائم رہا۔ مشاہد ﷲ خان مشرف دور کے اولین اسیروں میں سے تھے اور میرا بھی مشرف کی آمریت کے خلاف جدو جہد جوبن پر تھی، یوں دوستی خوب پروان چڑھی۔ ان سے پہلی ملاقات کے بعد آخری دم تک وہ جب بھی لاہور تشریف لائے، ان سے ضرور ملاقات ہوئی اور میں جب بھی اسلام آباد گیا، ان کی زیارت ضرورکی۔ آمریت کے خلاف سینہ سپر رہے، جب میں نے راجہ ظفر الحق اور صدیق الفاروق کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرکے مسلم لیگ نون میں شمولیت کا اعلان کیا تو اس کے فوراً بعد جن کا فون آیا وہ مشاہدﷲ خان ہی تھے۔ زبان و بیان کے جادوگر نے ایسے پُر لطف انداز میں آنے والے خطرات کا تذکرہ کیا کہ ہنسی تھم ہی نہیں رہی تھی کہ جیسے اب اشکِ رواں تھم ہی نہیں رہے۔ پھر جب مشرف دور میں گرفتار ہوا تو بعد میں ملتے ہی بولے میری پیشن گوئی پوری ہو گئی اور قہقہہ بلند ہو گیا۔ 2002کے انتخابات میں کراچی سے انہوں نے حصہ لیا تو ایک دن ان کی کال آئی، انداز بالکل تحکمانہ تھا کہ بس میری انتخابی مہم کے لئے کراچی پہنچ جاؤ۔ میں نے پوچھا کہ میں لاہور کا رہنے والا ہوں، بھلا کراچی آکر کیا کروں گا؟ بولے، بس کہا ہے نا کہ آ جاؤ، میں پہنچ گیا، کراچی کے اس وقت کے حالات مع آمریت، وہی ایک ایسی آواز تھی جو غلط کو غلط کہہ رہی تھی، نتائج چاہے جو مرضی نکلے، اس سے بے پروا۔ یہ واقعہ تو ایسے ذہن پر نقش ہے کہ جیسے ابھی کل کی بات ہو کہ جب 2004میں شہباز شریف نے جبری جلاوطنی کو ختم کرنے کی غرض سے وطن عزیز کے لئے رختِ سفر باندھا اور لاہور پہنچنا چاہا تو اس سے پہلے مشاہد ﷲ خان کا فون آیا کہ مہدی صاحب لاہور میں پولیس اور انٹیلی جنس کی نظروں سے محفوظ رہتے ہوئے شہباز شریف کی وطن واپسی والے دن ایک میڈیا سیل تشکیل دینا ہے، اس کے لئے انتظامات کر دیں۔ ہم نے لاہور میں ایک چھوٹے سے ہوٹل کو منتخب کیا اور اس دن وہاں سے میڈیا کو خبریں مہیا کرتے رہے جب کہ پولیس ہمیں مسلم لیگ کے دفاتر یا گھروں میں تلاش کرنے کی غرض سے چھاپے مارتی رہی۔ جاوید ہاشمی کی کتاب کی برمنگھم میں تقریب رونمائی تھی، میں شہباز شریف کے ہمراہ برمنگھم پہنچا، مشاہد ﷲ خان وہاں پہلے سے موجود تھے، میرا واپسی کا ارادہ تھا مگر اصرار کرنے لگے کہ رک جاؤ، ہم وہاں آزاد کشمیر کے ایم ایل اے راجہ جاوید کے گھر ٹھہرے، کچھ دن کے بعد ساتھ لندن پہنچے اور پیپلزپارٹی کے ریاض خان ہمارے میزبان تھے۔ ان کا یہ خاصا تھا کہ جب کسی سے ان کی دوستی ہو جائے تو سیاسی وابستگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف محبت ہی بکھیرتے تھے۔ انہی دنوں میرے بھائی علی مہدی کے پاس سوئٹزر لینڈ اپنی فیملی کے ساتھ ٹھہرے۔ فون پر علی بھی رو رہا تھا۔ یادوں کا ایک سمندر ہے۔ ہر منظر نظر کے سامنے گھوم رہا ہے۔ 2013کے انتخابات کی بات ہے، لاہور ماڈل ٹاؤن آفس میں انہوں نے میاں نواز شریف سے میرے انتخابات میں حصہ لینے کی بات کی، میاں نواز شریف نے فوراً اپنے حلقہ انتخاب کے نیچے پی پی ایک سو چالیس میں میرے لئے ہامی بھر لی۔ اتنی دیر میں میاں شہباز شریف تشریف لے آئے اور انہوں نے میاں نواز شریف کو کہا کہ مہدی صاحب کا اسٹیٹس اس سے اوپر ہے کہ ہم ان کو صوبائی نشست پر سامنے لے کر آئیں، بہتر ہوگا کہ انتخابات کے بعد ان کو اس سے بہتر پوزیشن پر سامنے لایا جائے۔ وہ پارٹی کارکنوں سے بہت محبت کرتے تھے۔ خود بھی کارکن رہے تھے، ان کو کارکنوں کے جذبات کا احساس تھا۔ چند برس قبل لاہور میں تھے، رات دو بجے ایک اخبارکے ایڈیٹر سے ہم مشترکہ طور پر ملاقات کرنے کے بعد فارغ ہوئے، وہ ہوٹل کی طرف واپس جانے لگے، میں گھر واپس جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ مجھے علم ہوا کہ کرشن نگر میں مسلم لیگی کارکن ندیم کلیم کے بھائی کو گولیاں مار دی گئی ہیں ۔ وہ نیند سے بوجھل ہو رہے تھے مگر میرے ساتھ فوری طور پر اسپتال پہنچ گئے، اسپتال میں موجود افراد کا حوصلہ بہت بڑھ گیا ۔ بعد میں میرے علم میں آیا کہ ان کو ڈاکٹروں نے اسپتال جا کر کسی کی عیادت کرنے سے منع کر رکھا تھا مگر وہ مسلم لیگی کارکن کا سن کر اپنے آپ کو روک نہ سکے۔ مشاہدﷲ خان پی آئی اے کی ایئر لیگ کے کرتا دھرتا رہے نوازشریف کی دوسری حکومت کا حصہ بنے ، وفاقی وزیر تک رہے۔ انتقال کے وقت تک سینیٹر تھے مگر مجھے اپنی آخری ملاقات میں کہہ رہے تھے کہ اگر میں سینیٹر کی تنخواہ لے سکوں تو گھر کا کرایہ بھی ادا نہیں کر سکوں گا۔ وفاقی وزارت تک پہنچنے والے شخص نے منصب کے ساتھ صرف اور صرف عزت کمائی کہ آج بھی کرائے کے گھر میں مقیم تھا۔ کتبہ افسانہ یاد آ رہا ہے کہ جب اپنے نام کی تختی قبر پر لگ جاتی ہے، ان کی زندگی کے بعد ہی ان کے نام کی تختی کہیں مستقل لگ سکی۔