میاں صاحب کی ”زیرو ٹالرنس“

May 30, 2013

تیسری بار وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے سے قبل ہی میاں نوازشریف کو کسی قسم کا ابہام نہیں کہ ملک کی معاشی حالت کتنی زیادہ خراب ہے اور مسائل کتنے زیادہ اور بڑے ہیں۔ اگر وہ کہہ رہے ہیں کہ خزانہ خالی ہے تو وہ ایک فیشن کے طور پر یہ راگ نہیں الاپ رہے جو ہر آنے والا حکمران کرتا ہے۔ ہر شعبے میں ملک کی حالت قابل افسوس ہے مگر اصلاح کی پھر بھی گنجائش ہے، سوال صرف یہ ہے کہ کتنی سنجیدگی اور کمٹ منٹ سے کام کرنا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ نوازشریف ملک کو اس گرداب سے نکالنا چاہتے ہیں جس میں یہ پچھلے پانچ سال میں پھنسایا گیا ہے۔ اس دور میں مقصد صرف اور صرف پیسہ بنانا تھا، مادر وطن جائے بھاڑ میں۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی ظالم مہمان اس گھر کو ہی بے رحمی سے لوٹ رہا ہے جس نے اسے عزت دی اور اس کے طعام و قیام کا بندوبست کیا۔ نوازشریف کو بے شمار امتحانوں کا سامنا کرنا ہے اور ثابت کرنا ہے کہ ان میں یہ اہلیت موجود ہے کہ ان مشکل ترین حالات میں بھی وہ لوگوں کے مسائل حل کرسکتے ہیں۔
ان کا پہلا امتحان کابینہ کاانتخاب ہے۔ اس میں کوئی ایک بھی وزیر ایسا نہیں ہونا چاہئے جس کے دامن پر کرپشن کا کوئی بھی داغ ہو۔ انہیں اپنے اتحادیوں کے بھی ایسے ہی نمائندے کابینہ میں لینے ہوں گے۔ اگر کوئی اتحادی وزیر کسی قسم کی مالی ہینکی پھینکی میں ملوث پایا گیا تو بھی ذمہ دار وزیر اعظم ہوں گے ۔پہلا دور کسی بھی لحاظ سے واپس نہیں آنا چاہئے جب پیپلزپارٹی کے اتحادی وزراء کو کھلی چھٹی تھی کہ وہ جو چاہے اپنی اپنی وزارتوں میں کریں ان میں کوئی بھی حتیٰ کہ صدر اور وزیراعظم بھی مداخلت نہیں کریں گے۔ اگر کوئی اتحادی اب کوئی مخصوص وزارت جیسے کہ شنید ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس کا مطالبہ کر رہی ہے، لینا چاہتی ہے تو اس سے یہ سوال ضرور کرنا ہوگا کہ صرف یہی وزارت ہی کیوں؟ اس طرح کے مطالبات شکوک و شبہات کو جنم دیتے ہیں کہ اس اتحادی کا کوئی خاص مفاد اسی وزارت سے وابستہ ہے۔
بلاشبہ نوازشریف کے پاس بہترین ٹیم ہے جو تجربہ کار بھی ہے اور جس میں کام کرنے کی لگن بھی موجود ہے۔ اگرچہ سینیٹر اسحاق ڈار نوازشریف کے قریبی رشتہ دار ہیں مگر ان کی ایمانداری پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا ان کو ایک بار پھر خزانے کی کنجی جو کہ یقیناً ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے، دی جا رہی ہے۔ اگر ایمانداری اور مخلصانہ کوششیں کی جائیں تو 6 ماہ کے اندر اندر ایک واضح فرق اور تبدیلی لائی جاسکتی ہے جسے لوگ محسوس کر سکتے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان نون لیگ کے ایک اور سرخیل ہیں جن کی ایمانداری پر ان کے سخت ترین سیاسی ناقد بھی شک نہیں کرتے حالانکہ وہ نوازشریف کے ہر دور میں وزیر بلکہ ان کی کچن کیبنٹ کے بہت اہم رکن رہے۔ ان کے وزیر بننے سے بہت سے کھرب پتیوں کی نیندیں مزید حرام ہوں گی۔ ان مالداروں نے انہیں 11 مئی کے انتخابات میں ہرانے کی سرتوڑ کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ ان کی کابینہ میں شمولیت ایمانداری اور لگن کو انعام دینے کے مترادف ہے۔ ان کے بارے میں کچھ حلقوں نے کئی افواہیں پھیلائی ہیں کہ انہیں ان کی مرضی کی وزارت نہیں مل رہی جن میں کچھ صداقت نہیں۔ خواجہ محمد آصف کو پچھلے دور میں زیادہ اہم وزارت نہیں دی گئی تھی مگر اس بار ان کے کندھوں پر بہت بڑا بوجھ آنے والا ہے۔ اگر وہ حلف لینے کے چند ماہ میں ملک کے اس وقت کے سب سے بڑے بحران’ لوڈ شیڈنگ ‘کا حل نکال لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں یعنی اس میں کوئی واضح کمی کر لیتے ہیں تو ہرکوئی ان کی صلاحیتوں کو سراہے گا۔ خواجہ آصف نہ صرف پُرمغز ہیں جو ٹی وی ٹاک شوز میں اکثر بڑا واضح ہوتا ہے بلکہ انرجی سیکٹر کو سمجھتے بھی ہیں۔ اب انہیں اب یا کبھی نہیں والی صورتحال کا سامنا ہوگا۔ پچھلی حکومت کی 11 مئی کے انتخابات میں ہار کی ایک بڑی وجہ لوڈ شیڈنگ بھی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف کے لیڈر ابرار الحق چاہے جو مرضی کہیں احسن اقبال کی دیانت داری پر بھی سوال نہیں اٹھائے جاسکتے۔ اس سے قبل بھی جب وہ وزیر رہے مگر کبھی کسی نے ان کی ایمانداری پر شک نہیں کیا۔ موصوف پڑھے لکھے اور بہت محنتی ہیں اور جو کام بھی دیا جائے بڑی جانفشانی سے کرنے کے عادی ہیں۔ شاہد خاقان عباسی اور خواجہ سعد رفیق کا ماضی بھی شاندار اور بے داغ ہے ۔ شاہد خاقان نے اپنی نون لیگ سے کمٹ منٹ 1999ء میں اس وقت بھی نبھائی جب وہ نوازشریف کے ساتھ بوگس طیارہ اغوا سازش کیس میں جیل کی کال کوٹھری میں14 ماہ بند رہے۔ پرویز رشید مخلص ،ایماندار اور کمٹ منٹ والے نوازشریف کے سپاہی ہیں۔ اس سے قبل بھی وہ حکومت میں ایک اعلیٰ عہدے پر رہے ہیں مگر ان کے دامن پر کوئی داغ نہیں۔ یہ سب وہ حضرات ہیں جنہیں 1999ء کے مارشل لا کے بعد پرویزمشرف نے سخت اذیتیں دی تھیں، ان پر جسمانی تشدد کیا گیا اور کئی سال تک جیل میں رکھا گیا مگر ان پر کوئی بھی الزام ثابت نہ ہوسکا۔ نوازشریف کابینہ بناتے وقت اپنے ان رہنماؤں کو سامنے رکھ رہے ہیں جن کے پاس نہ صرف وسیع تجربہ ہے بلکہ وہ ایماندار اور محنتی بھی ہیں ۔ہر ٹاسک ایک چیلنج کے طور پر لیتے ہیں اور جنہوں نے نون لیگ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے بڑا رگڑا کھایا ہے۔
نوٹ -: ڈاکٹر عبدالمالک کی بطور وزیر اعلیٰ بلوچستان نامزدگی انتہائی قابل تحسین ہے یقیناً ایک نئی اور اعلیٰ روایت قائم ہوئی ہے۔ نوازشریف کی جماعت اس پوزیشن میں تھی کہ وہ اپنی پارٹی کے کسی لیڈر کو چیف منسٹر بنا لیتی مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ یہ عہدہ ایک نیشنلسٹ پارٹی کے لیڈر کو دیا گیا ہے۔ اس فیصلے سے نون لیگ بلوچستان کے صدر سردار ثناء اللہ زہری وقتی طور پر ناراض ہوئے کیونکہ وہ اس عہدے کے سب سے بڑے امیدوار تھے۔ بلوچستان کے ابتر حالات میں ایک نیشنلسٹ جو صرف فیڈریشن کی بات کرتا ہے کا چناؤ ملک کی بہتری کیلئے ایک اہم سنگ میل ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچستان کے ایک ایسے وزیراعلیٰ ہوں گے جو نہ تو قبائلی سردار ہیں اور نہ ہی نواب بلکہ ان کا تعلق مڈل کلاس سے ہے۔ ان کا تقرر کر کے یقیناً نوازشریف نے ایک بڑی قربانی دی ہے جس کا مقصد صرف اور صرف بلوچستان کے حالات ٹھیک کرنا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک اس ضمن میں اہم کردار ادا کریں گے۔