میانمار میں فوجی حکومت کے  خلاف احتجاج جاری، مزید 10 افراد ہلاک، جنوبی کوریا کا دفاعی تعاون معطل کرنے کا فیصلہ

March 15, 2021

ینگون/سیئول ( نیوز ڈیسک) میانمار میں فوجی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروںکا سلسلہ جاری ہے جبکہ مظاہروں کے دوران مزید 10 شہری ہلاک ہوگئے۔دوسری جانب جنوبی کوریا نے میانمار کے ساتھ دفاعی شعبے میں تعاون معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خبررساں اداروں کے مطابق گزشتہ روز ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔ مندالے شہر میں 4، ینگون میں 3، باگو میں 2اور ماگاوے کے علاقے میں ایک شہری ہلاک ہوا۔ ینگون کے وسطی قصبے میں 23 سالہ نوجوان احتجاج کے دوران فائرنگ سے زخمی ہوا، تاہم پولیس نے ایمبولینس کو وہاں جانے سے روک دیااور طبی امداد نہ ملنے کے باعث وہ ہلاک ہوگیا۔ دوسری جانب میانمار کی عدالت نے آمریت مخالف مظاہروں کی کوریج پر امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے فوٹو گرافر سمیت 5 صحافیوں پر فرد جرم عائد کردی۔ اس سے قبل میانمار کی فوج نے اے پی کے نیوز روم پر چھاپے مارے تھے اور میڈیا لائسنس منسوخ کردیے تھے۔ گزشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران وڈیو کانفرنس کے ذریعے پانچوں صحافیوں پر الزامات عائد کیےگئے، جب کہ اس دوران امریکی سفارت خانے کے نمائندے عدالت کے باہر انتظار کرتے رہے۔ زیر حراست صحافیوں میں میانمار کی فوٹو ایجنسی 7 ڈے نیوز، زی کیویٹ آن لائن نیوز، اور ایک فری لانسر شامل ہے۔ واضح رہے کہ میانمار کی فوج نے بغاوت کے بعد قانون میں ترمیم کی ہے، جس میں زیادہ سے زیادہ سزا 2سال سے بڑھا کر 3 سال تک کردی گئی ہے۔ جرمن پارلیمان کی انسانی حقوق کی کمیٹی کی چیئرپرسن گائڈے ڑینزن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ میانمار میں گرفتار صحافی رابرٹ بوسیاگا کی رہائی کی کوشش کرے۔ اپنے بیان انہوں نے کہا کہ جرمن حکومت میانمار میں صحافیوں پر ہونے والے ظلم کو برداشت نہیں کرے گی۔ پولش صحافی رابرٹ بوسیاگا ایشیائی ممالک کی رپورٹنگ کے ذمے دار ہیں اور انہیں جمعرات کے روز میانمار کی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ یاد رہے کہ یکم فروری کو میانمار کی فوج نے آن سانگ سوچی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا،جس کے بعد ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔فوجی بغاوت کی عالمی سطح پر بھی سخت مذمت کی گئی اور کئی ممالک میانمر کے ساتھ عسکری روابط ختم کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔علاوازیں جنوبی کوریا نے میانمار کے ساتھ دفاعی شعبے میں تعاون ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خبر رساں اداروں کے مطابق وزارت دفاع کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ سیئول حکومت میانمار کے ساتھ دفاعی شعبے میں تعاون معطل کرنے پر غور کر رہی ہے۔ علاوہ ازیں دیگر شعبوں میں بھی میانمار کے ساتھ تعاون محدود کرنے کا منصوبہ زیر غور ہے۔ یہ پیش رفت میانمار میں فوجی بغاوت اور فوج کی جانب سے جمہوریت کے حامیوں کے خلاف جاری شدید کریک ڈاؤن کے تناظر میں سامنے آئی ہے۔ یاد رہے کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کے بہیمانہ استعمال پر امریکا نے بھی میانمارپر پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب چین نے عالمی برادری سے میانمارمیں کشیدگی جلد سے جلد کم کرنے کے لیے سفارتی کوششوں کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیجنگ حکومت خود اس معاملے میں تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان ژاو لی جیان نے ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز نیوز بریفنگ کے دوران میانمار کی صورتحال پراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک حالیہ بیان سے متعلق سوال کے جواب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ سلامتی کونسل کے پیغام سے صورتحال میں کشیدگی کم کرنے میں مدد ملے گی۔ اُدھر میانمار کی نظربند رہنما آنگ سان سوچی کے وکیل نے اقتدار پر قابض فوج کی طرف سے ان کی موکل پر کرپشن کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔