اکبر بادشاہ اور حجام

March 19, 2021

انس مرزا

بچو! بیربل کے بارے میں ہم نے گزشتہ شمارے میں بتایا تھاکہ وہ مغل بادشاہ، جلال الدین اکبر کا مشیر خاص تھا۔ اکبر بادشاہ اکثر رعایا کے حالات معلوم کرنے کے لیے بیربل کے ساتھ رات کو گشت کیا کرتا تھا۔ ایک دن جب وہ دونوں بھیس بدل کر شہر کا گشت کر رہے تھے۔ ان دونوں کا گزر ایک حجام کی جھونپڑی کے پاس سے ہوا جو گھر کے باہر چار پائی پر بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔

اکبر بادشاہ اس کے قریب گیا اور سلام کرکے پوچھاکہ ’’ بھائی، یہ بتاؤ موجودہ شہنشاہ کے راج میں ملک کی کیا حالت ہے ۔ رعایا کس حال میں زندگی بسر کررہی ہے، انہیں کوئی پریشانی تو نہیں؟۔‘‘ حجام نے فوراً جواب دیا،’’ بھائی کیا بات ہے اس حکومت اور بادشاہ کی‘‘۔’’ اس سے اچھا دور میں نے کبھی نہیں دیکھا‘‘۔ ’’ ہر طرف امن و سکون ہے اور رعایا خوش حال ہے، لوگ عیش و عشرت کی زندگی گزاررہے ہیں‘‘۔

’’عوام کاہر دن عید اور رات، شب برأت ہے‘‘۔ ’’اللہ بادشاہ کو لمبی زندگی عطا کرے اور اس کا اقبال ہمیشہ بلند رہے‘‘اکبر اور بیربل حجام کی باتیں سن کر بہت خوش ہوئے اور اسے سلام کرکے آگے بڑھ گئے۔ بادشاہ نے اپنے مشیر سے فخریہ لہجے میں کہا، ’’ بیربل دیکھا تم نے ،ہماری سلطنت میں رعایا کتنی خوش حال ہے’’؟ بیربل نے جواب دیا، ’’بے شک جہاں پناہ، آپ کا اقبال ہمیشہ بلند رہے گا‘‘۔چند روز بعد پھر دونوں کا گزر اسی مقام سے ہوا۔حجام حسب معمول اپنی جھونپڑی کے باہر حقہ پیتا ہوا ملا۔

بادشاہ پہلے کی طرح اس کے قریب گیا، اسےسلام کیا اور پھر اس کا حال دریافت کیا۔ حجام نے چھوٹتے ہی غصے سے کہا۔’’ اجی حال کیا پوچھتے ہو ، ہر طرف تباہی بربادی ہے، اس بادشاہ کی حکومت میں تو ہر آدمی پریشان ہے، ستیاناس ہو ، اس منحوس بادشاہ کا‘‘۔اکبر یہ باتیں سن کر حیران ہوگیا ، کہ یہی آدمی کچھ دن پہلے میری تعریفیں کررہا تھا، میری زندگی کی دعائیں مانگ رہا تھا، اب اسے کیا ہو گیاہے ؟

اکبر نے اپنے مصاحب کی طرف دیکھا لیکن اس پر حجام کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ پرسکون کھڑا اس کی باتیں سنتا رہا۔ جہاں تک بادشاہ کی معلومات کا تعلق تھا، اس کے مخبروں نے اسے عوام کی بد حالی اور پریشانی کی اطلاع کبھی بھی نہیں دی تھی، اسے سب اچھا کی رپورٹیں دیتے رہتے تھے۔

اس نے حجام سےکئی بار پوچھا کہ کس طرح ملک کی رعایا تباہ و برباد اور بدحال ہے لیکن وہ بادشاہ کے سوالوں کا جواب دینے کی بجائے حکومت کو برا بھلا کہتا رہا۔ اکبر یہ باتیں سن کربہت پریشان ہواور بیربل کو الگ لے جاکر پوچھا “آخر یہ شخص اتنے غصے میں کیوں ہے اور مجھے اور حکومت کو برا بھلا کیوں کہہ رہا ہے؟‘‘۔بیربل نے جیب سے ایک تھیلی نکالی اور بادشاہ سے کہا،’’ اس میں 10 اشرفیاں ہیں جو اسی حجام کی ہیں۔ دراصل میں نے 2 دن پہلے اس کی جھونپڑی سےیہ تھیلی چوری کروا لی تھی‘‘۔’’جب تک اس کی جھونپڑی میں مال تھا، اسے ظل الہـٰی اور ان کا دور حکومت بہت اچھا لگ رہا تھا۔‘‘

اپنی جمع پونجی چوری ہونے کے بعدغم و غصے سے اس کی بری حالت ہے، تمام ملک بدامنی کا شکار اور رعایا بدحال اور تباہ و بربادنظر آرہی ہے۔‘‘ ’’جہاں پناہ ، اس واقعے سے آپ کو یہ گوش گزار کرنا چاہ رہا تھا کہ ایک فرد اپنی خوشحالی کے تناظر میں دوسروں کو خوش دیکھتا ہے۔ لیکن بادشاہوں اور حکمرانوں کو رعایا کا دکھ درد سمجھنے کے لئے اپنی ذات سے باہر نکل کر دور تک دیکھنا اور صورتحال کو سمجھنا چاہئے‘‘۔ بادشاہ بیربل کی دانشمندی سے بہت خوش ہوا۔

دوسرے دن اس نے حجام کو دربار میں بلوایا اور اس کی اشرفیوں کی تھیلی اسے واپس کردی۔ وہ بادشاہ کو دعائیں دیتا ہوا رخصت ہوگیا۔