اقتدار تو مل گیا لیکن اختیار

June 06, 2013

آپ نوازشریف سے لاکھ اختلاف کریں لیکن ان کا تیسری مرتبہ وزیراعظم بننا پاکستان میں تبدیلیوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ دعا کیجئے کہ یہ تبدیلیاں مثبت ہوں منفی نہ ہوں۔ نوازشریف پاکستان کے پہلے حکمران ہیں جنہیں فوج نے اقتدار سے نکالا اور وہ 13 سال 8 ماہ کے بعد پھر سے اقتدار میں آگئے۔ یاد کیجئے 1958ء میں کیا ہوا تھا۔ پاکستان کے آخری گورنر جنرل اسکندر مرزا نے آرمی چیف جنرل ایوب خان کی مدت ملازمت میں دو سال کی توسیع کی اور آرمی چیف کے ساتھ مل کر وزیراعظم فیروز خان نون کو فارغ کردیا۔ کچھ دنوں کے بعد جنرل ایوب خان نے گورنر جنرل اسکندر مرزا کو اقتدار سے نکال کر جلا وطن کردیا۔ اسکندر مرزا پھر کبھی پاکستان واپس نہ آسکے۔ لندن میں ان کا انتقال ہوا۔ ایران میں تدفین ہوئی۔ پھر جنرل ایوب خان کو جنرل یحییٰ خان نے اقتدار سے نکالا۔ جنرل یحییٰ خان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پہلے صدر پاکستان اور پھر وزیراعظم پاکستان بنے۔ بھٹو کو جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سے نکالا اور سپریم کورٹ کے ججوں کے ساتھ مل کر تختہ دار پر لٹکا دیا۔
جس کسی کو بھی فوج نے اقتدار سے نکالا وہ جلاوطن کردیا گیا یا پھانسی پر لٹکا دیا گیا لیکن نوازشریف وہ پہلے پاکستانی ہیں جنہیں 12 اکتوبر 1999ء کو فوجی جرنیلوں نے وزیراعظم ہاؤس سے گرفتار کیا، ہتھکڑیاں لگائیں، جلا وطن کیا لیکن نوازشریف ناصرف پاکستان واپس آئے بلکہ 5 جون 2013ء کو تیسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے۔ تاریخ کا ستم دیکھئے کہ جس شخص نے نوازشریف کو اقتدارسے نکال کر حکومت پر قبضہ کیا تھا وہ شخص آج خود اسلام آباد میں اپنے ہی گھر میں قیدی بنا ہوا ہے۔ بہت کوششیں ہوئیں کہ سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کو نواز شریف کے وزیراعظم بننے سے پہلے پہلے پاکستان سے بھگا دیا جائے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ یہ پہلی دفعہ ہوا کہ مارشل لاء لگانے والا قیدی بن گیا اور مارشل لاء کا قیدی پھر سے وزیراعظم بن چکا ہے۔ نوازشریف کے کئی ناقدین ابھی تک یہ یاد دلاتے ہیں کہ نوازشریف بذات خود مارشل لاء کی پیداوار ہیں۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بریگیڈئر قیوم کی تجویز پر اس وقت کے گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی نے نوازشریف کو صوبائی وزیر خزانہ بنایا۔ یہ بھی درست ہے کہ 1988ء میں انٹر سروسز انٹیلی جنس نے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کیلئے نوازشریف کی مدد کی۔ 1990ء میں نوازشریف کو وزیراعظم بنایا گیا لیکن نوازشریف کی اصل سیاست اس وقت شروع ہوئی جب انہوں نے صدر غلام اسحاق خان اور فوجی جرنیلوں کی سازشوں کے خلاف بغاوت کی۔
ایک دفعہ میں نے نوازشریف سے پوچھا کہ آپ ایک فوجی جرنیل کے ذریعہ سیاست میں آئے لیکن پھر انہی جرنیلوں کیساتھ تعلقات اتنے کشیدہ کیوں ہوگئے؟ نواز شریف نے انتہائی سنجیدگی سے کہا کہ جب وہ وزیراعظم تھے تو ایک دفعہ دو سینئر جرنیل انکے پاس آئے اور کہا کہ ملک کی معاشی حالت سنوارنے کیلئے انہیں ہیروئن اسمگل کرنے کی اجازت دی جائے تو وہ ملک کی تقدیر بدل دینگے۔ نواز شریف نے اس تجویز پر خفگی کا اظہار کیا تو جرنیلوں نے کہا کہ امریکا نے دوسرے ممالک کی دولت لوٹی ہے برطانیہ اور سوئٹزر لینڈ نے بھی بلیک منی سے ترقی کی ہے ہمیں بھی منشیات کی اسمگلنگ سے ترقی کرنے کا حق حاصل ہے۔ نوازشریف نے یہ تجویز مسترد کردی اور پھر ان جرنیلوں کے ساتھ انکے اختلافات شروع ہوگئے۔ نوازشریف نے کہا کہ یہ جرنیل بھی پاکستان سے محبت کے دعویدار تھے۔ وہ بھی پاکستان کو بدلنا چاہتے تھے میں بھی پاکستان کو بدلنا چاہتا تھا لیکن ان کا اپنا انداز تھا میرا اپنا انداز تھا۔ وزیراعظم ہاؤس سے گرفتاری کے بعد نوازشریف کیساتھ جو سلوک ہوا وہ انہیں نہیں بھولا۔ کئی دن تک ان سے اور ان کے اہل خانہ سے بیرون ملک اثاثوں کی تحقیقات کی گئیں۔ حسین نواز کو سخت سردی میں گرم کپڑوں سے محروم رکھا جاتا اور انکے سامنے چیخوں بھرے ٹیپ چلائے جاتے۔ شہباز شریف کیساتھ بدتمیزی کی جاتی۔ اٹک جیل میں نوازشریف کے سیل میں بچھو چھوڑ دیئے جاتے۔ انکے حوالات کے سامنے ایک درخت پر زندہ سانپ لٹکادیئے جاتے۔ اسلام آباد سے کراچی کے ہوائی سفر کے دوران ہتھکڑی لگا کر ہاتھوں کو جہاز کی سیٹ کیساتھ باندھ دیا گیا۔ ان تمام واقعات کے باوجود نوازشریف کسی سے کوئی انتقام نہیں لینا چاہتے۔ 2012ء میں سیاچن کے گیاری سیکٹر میں پاک فوج کے جوان برف کے تودے تلے دب گئے تو نوازشریف اسکردو پہنچے اور متاثرہ خاندانوں کی امداد میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ انکے ساتھ جو بھی ظلم و زیادتی ہوئی وہ اسکا ذمہ دار پوری فوج کو نہیں سمجھتے لیکن وہ فوج کو کسی بھی قسم کا سیاسی کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں دینگے۔
نوازشریف کو اقتدار مل گیا ہے۔ لوگوں کو ان سے بہت توقعات وابستہ ہیں۔ لوگوں کی توقعات پوری کرنے کیلئے انہیں اقتدار کے ساتھ ساتھ اختیار بھی چاہئے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ان کے مرضی کے خلاف ڈرون حملے ہوتے رہیں، پارلیمنٹ کی قراردادوں کا مذاق اڑتا رہے اور نوازشریف آئیں بائیں شائیں کرتے رہیں، یہ بھی نہیں ہوسکتاکہ سپریم کورٹ لاپتہ افراد کی بازیابی کا حکم دیتی رہے اور وفاقی حکومت خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر سپریم کورٹ کو دھوکہ دینے کی کوشش کرے، یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ نواب اکبر بگٹی اور بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو سزا نہ ملے۔ یہ کام اس وقت ہوں گے جب اقتدار کے ساتھ ساتھ نوازشریف کے پاس اختیار بھی آئے گا۔ انہوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے ایک ایسا کام کردیا ہے جس نے پاکستان کے سیاسی اور جمہوری اداروں کو نئی توانائی بخشی ہے۔ نوازشریف نے بلوچستان میں اپنے اتحادیوں کیساتھ مل کر نیشنل پارٹی کے صدرڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو صوبے کا وزیراعلیٰ نامزد کیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) بڑی آسانی کے ساتھ بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام اور ق لیگ کے ساتھ مل کر اپنی حکومت بنا سکتی تھی لیکن نوازشریف نے وزارت اعلیٰ نیشنل پارٹی اور گورنر شپ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کو دیدی ہے۔ ان کی اس قربانی پر ڈاکٹر مالک اور محمود خان اچکزئی پنجاب کا شکریہ ادا کررہے ہیں۔ جنرل ایوب خان اور جنرل پرویز مشرف جیسے فوجی حکمرانوں نے بلوچستان کو جو زخم لگائے اس کے ردعمل میں ہمیشہ پنجاب کو گالی پڑی۔ نوازشریف نے ان فوجی حکمرانوں کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی ہے اور پنجاب کے اہل درد کو ایک ایسے احساس جرم سے نجات دلائی ہے جس جرم میں وہ کبھی شریک نہ تھے۔ نوازشریف جانتے ہیں کہ انہوں نے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیراعلیٰ بنا کر ایک بڑا خطرہ مول لیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی نامزدگی کے فوراً بعد لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کا اعلان کردیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ڈاکٹر مالک کی کامیابی صرف اسی صورت ممکن ہے اگر اسلام آباد سے نوازشریف کی مکمل مدد شامل ہوگی۔ نوازشریف کے پاس اسلام آباد اور لاہور کا اقتدار ہے۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف جبکہ سندھ، کشمیر اور گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ نوازشریف اور ڈاکٹر مالک کے دشمن خیبرپختونخوا اور سندھ کی حکومتوں کے ساتھ مل کر سازشیں کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔ نوازشریف کی اپنی جماعت میں ایسے لوگ شامل ہیں جو ماضی میں جنرل پرویز مشرف کے جرائم میں حصہ دار تھے۔ آستین کے یہ سانپ کبھی نہیں چاہیں گے کہ نوازشریف اور ڈاکٹر مالک کامیاب ہوں لہذا نوازشریف کو بہت احتیاط کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ اتنا بڑا نہیں۔ یہ مسئلہ حل ہو جائیگا۔ اصل مسئلہ آئین و قانون کی حکمرانی ہے اور آئین و قانون کے تحت ان اختیارات کا حصول ہے جن پر اصل حق سیاسی حکومت کا ہے لیکن سیاسی حکومتیں یہ اختیار استعمال نہیں کر پاتیں۔ نوازشریف نے اقتدار حاصل کرلیا اب انہیں اختیار حاصل کرنا ہے۔ اگر وہ یہ اختیار حاصل نہ کرسکے تو پھر خدانخواستہ ان کا دور منفی تبدیلیوں کا دور ہوگا لیکن اختیار مل گیا تو بہت جلد ہم پوری دنیا میں اپنے پاکستانی ہونے پر فخر کیا کریں گے۔