شمالی کوریا کے جوہری ہتھیار

April 15, 2021

ظ۔میم

شمالی کوریا نے حال ہی میں دو جدید کم فاصلے تک مار کرنے والے کروز میزائلوں کے تجربے کئے ہیں۔ ایسے میں ایک بار پھر امریکی دفاعی اداروں اور امریکی صدر جوبائیڈن نے شمالی کوریا کے اس اقدام کی شدید مذمت کی ہے۔ یہی نہیں بلکہ امریکی ریاست ورجینیا میں امریکی، جاپان اور جنوبی کوریا کے اعلیٰ سفارت کاروں کا اجلاس ہوا، جس میں امریکی سلامتی کے مشیر جیک سلوانا نے اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا کہ شمالی کوریا کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کا پابند بنانے کے لئے امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا مشترکہ طور پر شمالی کوریا پر چیک رکھیں گے۔ اعلامیہ میں دیگر تفصیلات کا ذکر نہیں ہے۔

امریکا کے دفاعی صلاح کاروں کا کہنا ہے کہ جزیرہ نما کوریا کے اطراف ممالک کو سب سے زیادہ خطرہ ہے اس لئے ان کو امریکا سے تعاون کرنا چاہئے۔ امریکا اور دیگر ممالک کو شمالی کوریا سے بہت سے تحفظات ہیں مثلاً جنوری 2020ء سے شمالی کوریا نے ہر طرف سے اپنے ملک کی سرحدیں بند کر رکھی ہیں۔ شمالی کوریا کا موقف ہے کہ ملک میں کورونا کا کوئی مریض ہے نہ ملک میں کہیں کورونا ہے جبکہ شمالی کوریا کے ہیکرز امریکی دوا ساز ادارے فائیزر سے کورونا کی بیماری اور اس کی ویکسین کا ڈیٹا چرانے کی کوشش کرتا رہا۔ فائیزر کی ویکسین دنیا میں سب سے زیادہ موثر ہے جو 96%تک علاج کرسکتی ہے۔ حال ہی میں امریکی دفاعی ادارے نے ہیکرز کی ایک ٹیم کو یہ ٹاسک سونپا ہے کہ شمالی کوریا نے جو فائیزر کمپنی کے کمپیوٹروں سے جو ڈیٹا چوری کیا ہے وہ واپس لایا جائے۔

امریکی فضائیہ کے چیف جنرل گیلن وان نے اپنا تحریری بیان امریکی سینٹ کمیٹی کے سپرد کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ شمالی کوریا اقوام متحدہ کی قراردادوں، اس پر لاگو کی گئی پابندیوں کی مسلسل خلاف ورزیاں کرتے ہوئے اپنے جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں مشغول ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ آئی بی ایم جدید مزائل پروگرام کو بھی فروغ دے رہا۔ شمالی کوریا کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ بیک وقت دو پروگرامز پر کام کررہا ہے ایک طرف وہ دور مار بیلیسٹک مزائل پر کام کررہا ہے دوسرے کم فاصلے کے کروز میزائلوں پر کام کررہا ہے۔ امریکی سلامتی کے صلاح کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن کے منصب سنبھالنے کے بعد میزائلوں کے تجربات کا مطلب امریکا پر اپنا دبائو رکھنا ہے۔

امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنی حالیہ پریس بریفنگ میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ وہ شمالی کوریا کے صدر جونگ ان سے تین بار مذاکرات کئے تھے انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ہم ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوگئے ہیں‘‘۔ صدر بائیڈن نے کہا اس نوعیت کے بیانات دے کر شمالی کوریا کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے مگر صدر ٹرمپ نے سنجیدگی سے اس پہلو پر غور نہیں کیا۔ مگر ہم اور دوسرے کررہے ہیں۔ انہوں نے امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا کے اتحاد ثلاثہ کو علاقے اور وقت کی ضرورت قرار دیا۔

سابق صدر ٹرمپ نے جب شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان سے مذاکرات کئے تھے اس وقت ہی مغربی سفارتکاروں کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا سے مذاکرات کی میز پر صدر بش، صدر کلنٹن اور صدر اوباما نہیں جیت سکے تو صدر ٹرمپ کہاں کھڑے ہیں۔ انہوں نے جو بیانات دئیے وہ سفارتی طور پر یا وقتی طور پر تو بھلے لگتے ہیں مگر صدر ٹرمپ نے سنجیدگی سے نہیں سوچا کہ یہ مسئلہ گمبھیر اور تادیر ہے محض وقتی نہیں ہے۔ شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان کی پالیسی تشویش ناک ہے۔ وہ بار بار امریکا پر میزائل داغنے کی دھمکی دیتے ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران مشرق بعید کے خطے میں جاپان نے بیش تر علاقوں پر قابض ہوچکا تھا۔ خطہ میں امریکی افواج سرگرم ہوچکی تھی ایسے میں سوویت یونین یعنی روس نے بھی خطہ میں اپنی فوجیں اتار دیں کوریا کی جنگ میں ایک طرف سے امریکا تو دوسری جانب سے سوویت یونین کی فوجیں کوریا میں داخل ہوئیں اور دونوں بڑی طاقتیں 38ویں متوازی پر آمنے سامنے آگئیں اس کو کوریا کی تقسیم کی سرحد مان لی گئی اس طرح شمالی کوریا اور جنوبی کوریا تقسیم ہوئے۔

شمال میں انقلابی سوشلسٹ حکومت اور جنوب میں امریکا کی حمایت یافتہ حکومت قائم ہوئی۔ کوریا کی تقسیم کے بعد شمالی کوریا میں پہلے انقلابی رہنما کم ال سنگ برسر اقتدار آئے جن کا 1994ء میں حرکت قلب بند ہوجانے پر انتقال ہوگیا۔ ان کے بیٹے کم جونک ال نے اقتدار سنبھالا اور تین سال تک کم ال سنگ کا سوگ منایا گیا۔ 2011ء میں کم جونگ ال کا بھی حرکت قلب بند ہونے سے انتقال ہوگیا۔ فوراً ان کے بیٹے کم جونگ ان نے اپنی حکومت بنانے کا اعلان کیا اور اپنے والد کے نظریہ ’’ملٹری فرسٹ‘‘ کی پالیسی پر علم کرتے رہنے کا اعلان کیا۔ شمالی کوریا کی انقلابی حکومت ابتدا سے مطلق العنان ہے۔ معیشت، سیاست اور معاشرت پابند ہے۔

شمالی کوریا کی باقاعدہ افواج اور نیم فوجی رضاکاروں کی مجموعی تعداد پچانوے لاکھ کے قریب ہے جو ملک کی کل آبادی کا اڑتیس فیصد ہے۔ مارچ 2006ء میں شمالی کوریا نے پہلا جوہری دھماکہ کیا تب سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا سلسلہ جاری ہے۔ جنوبی کوریا مشرق بعید میں امریکا کا اہم ملک اور حلیف ہے۔ شمالی کوریا کی انقلابی سوشلسٹ کے مقابلے میں جدید سرمایہ داری، جمہوری ریاست تشکیل دی گئی اور جنوبی کوریا نے بہت ترقی کی جبکہ شمالی کوریا میں بتایا جاتا ہے کہ غربت، پسماندگی، بے روزگاری عام ہے، پابند معیشت، سیاست اور معاشرت نے شمالی کوریا کو بند ریاست بنادیا ہے۔

مگر شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان ایسی تمام خبروں کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ سرمایہ دار استحصال پسند قوتیں شمالی کوریا پہ تنقید کرتی اور پروپیگنڈہ کرتی رہتی ہیں۔ شمالی کوریا کی ریاست کا ڈھانچہ اور سیاست سوشلسٹ نظریات کے عین مطابق ہے مگر مغرب کو یہ سب پسند نہیں اس لئے وہ ہمارے خلاف بولتے ہیں۔ امریکا اور اقوام متحدہ کی جانب سے شمالی کوریا پر مختلف اقتصادی اور تجارتی پابندیاں عائد ہیں مگر شمالی کوریا نے ان کی پروا نہیں کی چین سے اس کو امداد ملتی رہی ہے۔

امریکی خارجہ پالیسی اور دفاعی امور کے معاملات میں شمالی کوریا اولین ایجنڈا ہے۔ بحرالکاہل اور جنوبی بحیرہ چین کے خطے میں امریکا اور چین کی افواج کا بڑا اجتماع ہے اس کو دنیا کا سب سے حساس خطہ قراردیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے بھی چین کے نزدیک شمالی کوریا کی بہت اہمیت ہے۔

شمالی کوریا کی جوہری پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے جاپان نے ستر سال بعد اپنے آئین میں ترمیم کی جس کی رو سے جاپان ملکی افواج کو بیرون ملک جاپان سے دور بھی بجھوا سکتا ہے یہ بل جاپانی پارلیمان نے فوری منظور کرلیا۔ اس پر شمالی کوریا نے سخت بیان جاری کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ جاپانی حکومت کا دفاعی بل جاپانی جارحیت اور انارکی ازم کی تجدید ہے اس سے نہ صرف خطے کا امن بلکہ عالمی امن کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

جبکہ جاپانی حکومت میں شامل اراکین پارلیمان کا موقف یہ رہا کہ چونکہ ایک طرف چین اپنی دفاعی قوت میں بے پناہ اضافہ کرتا جارہا ہے اور دوسری طرف شمالی کوریا جوہری بم اور آئی بی ایم مزائلوں کے تجربوں پر تجربے کرتا جارہا ہے جس سے نہ صرف خطے کے امن کو بلکہ عالمی امن کو بھی شدید خطرات لاحق ہورہے ہیں۔

اس کے علاوہ بحیرہ جنوبی چین میں چینی افواج کا اجتماع، مصنوعی جزیروں کی تعمیر اور چینی دفاعی اڈے اطراف کے ممالک کو تشویش میں مبتلا کرتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی امریکا جاپان اور آسیان ممالک نے اپنی گہری تشویش ظاہر کرتے رہے ہیں۔ اب امریکا جاپان اور جنوبی کوریا کے اتحاد ثلاثہ کی تجویز سامنے آئی ہے جس کو امریکا فی الوقت خطے کی سلامتی کے لئے ضروری خیال کرتا ہے اس حوالے سے بات چیت آگے بڑھنے کا امکان ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ایشیا بحرالکاہل میں گزشتہ چند برسوں سے چین اور شمالی کوریا کی فوجی سرگرمیاں تیز ہونے کی وجہ سے امریکا نے بھی جنوبی بحیرہ چین میں اپنی فوجی طاقت بڑھا دی ہے۔

خطے کے ممالک اس کو نیک شگون نہیں تصور کرتے ان کے خیال میں بحرالکاہل کا یہ مغربی حصہ مخدوش تر ہوتا جارہا ہے۔ اگر کوئی حادثہ بھی ہوگیا تو وہ پوری صورت کو تبدیل کرسکتا ہے۔ واضح رہے کہ 2017ء میں سوئیڈن میں یورپی ممالک اور امریکا کے مشترکہ اجلاس میں شمالی کوریا کے مندوب کو بھی بلایا گیا تھا۔ اس کا موقف تھا کہ مذاکرات سے قبل امریکا اور شمالی کوریا کی اعلیٰ قیادت کے مابین ملاقات ضروری ہے پھر مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جائے۔

لیکن اس کے چند ماہ بعد شمالی کوریا نے جوہری دھماکہ کردیا۔ اس حوالے سے یہ اشارہ بھی سامنے آیا کہ امریکا تمام اہم شہر شمالی کوریا کے نشانے پر ہیں۔ مگر چین نے شمالی کوریا پر عائد پابندیاں ختم کرنے پر اصرار کیا۔ اس پر امریکا وزارت خارجہ کی طرف سے بیان آیا کہ چین اور روس کے ساتھ شمالی کوریا کے ہمیشہ اچھے تعلقات رہے ہیں مگر ان دونوں ممالک نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کی ہیں۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی