کامیاب زندگی کا سفر

April 15, 2021

یہ اگست 2019کا ایک گرم ترین اور مصروف دن تھا۔ میں جیل روڈ لاہور پر پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے نزدیک ٹریفک جام میں پھنسا ہوا تھا اور ایک ضروری کام کے سلسلے میں مجھے جلد از جلد اچھرہ پہنچنا تھا۔ شدید ٹریفک اور وقت کی کمی کے پیشِ نظر بروقت منزلِ مقصود پر پہنچنے کیلئے میں نے اپنی گاڑی کا رُخ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی سے شادمان کی طرف موڑ دیا تاکہ گلیوں بازاروں سے ہوتا ہوا کسی بھی طرح مقررہ وقت پر اچھرہ پہنچ سکوں، جہاں میرا ایک دوست میرا منتظر تھا۔ جب میں شادمان کی گلیوں اور بازاروں سے ہوتا ہوا سندس فاؤنڈیشن کے سامنے سے گزرا تو ایک کمزور و نحیف سے نوجوان نے لِفٹ لینے کیلئے ہاتھ آگے بڑھایا۔ میں نے اپنی گاڑی اُس نوجوان کے پاس روکی اور اُس سے اُس کی منزلِ مقصود کے بارے میں دریافت کیا۔ خوشگوار پہلو یہ نکلا کہ اُسے بھی اچھرہ ہی جانا تھا سو میں نے اُسے اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا لیا۔ گرمی کی وجہ سے وہ پسینے میں شرابور تھا۔ اُس کے ہاتھ میں دوائیوں کا ایک تھیلا تھا اور بیمار سا لگ رہا تھا۔ میرے پوچھنے پر اُس نے اپنا نام ہارون بتایا۔ جب اُس سے بیماری کے بارے میں دریافت کیا تو اُس نے بتایا کہ میں 2سال کی عمر سے تھیلی سیمیا کے مرض میں مبتلا ہوں، اِس مرض میں مبتلا مریض کو مہینے میں 2سے 3مرتبہ خون لگایا جاتا ہے اورمیںبھی سندس فاؤنڈیشن سے خون لگوا کر اور ادویات لے کر گھر جا رہا ہوں۔ سر پہ باپ کا سایہ نہیں ، والدہ کی کفالت کا ذمہ بھی ہے ۔ اُس کی روداد سننے کے بعد میں نے اپنی جیب سے کچھ روپے نکالے اور ازراہِ ہمدردی اُس کے ہاتھ میں تھما دیے جسے اُس نے رکھنے سے صاف انکار کر دیا اور مجھے بتایا کہ ’’سندس فاؤنڈیشن نہ صرف اُس کا بلکہ اُس جیسے لاکھوں بچوں کا مفت علاج کرتا ہے،میں بیماری کے ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے ہوں تاکہ ایک صحت مندہونے کے علاوہ اپنے ملک کے لئے کارآمد شہری بھی بن سکوں۔ میرا یہ سفر سندس فاؤنڈیشن کی وجہ سے کامیاب ہوا۔ سندس فاؤنڈیشن کی وجہ سے مجھے ہمیشہ بروقت خون کی فراہمی بھی ممکن ہوئی اور دیگر ضروری ادویات بھی مجھے بلاتعطل مہیا کی جاتی ہیں،آپ نے اگر پیسے دینے ہی ہیں تو سندس فاؤنڈیشن کو دیں تاکہ یہ پیسے مجھ جیسے دیگر بچوں کے علاج معالجے پر خرچ ہو سکیں‘‘۔ ہارون کی یہ بات سننے کے بعد میں نے سندس فائونڈیشن کے بارے میں مزید جاننے اور اِس فاؤنڈیشن کو کچھ رقم خیرات کرنے کا اعادہ کیا۔اِس مقصد کیلئے جب میں کچھ روز بعد سندس فاؤنڈیشن پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ 50سے زائد بچوں کو، جن کی عمریں 8سے 10سال کے درمیان ہوں گی، خون لگایاجا رہا تھا۔ مجھے ڈاکٹر نے بتایا کہ یہ سب بچے ہیموفیلیا، تھیلی سیمیا یا بلڈ کینسر کے مریض ہیں۔

ساری مشینری، ڈاکٹروں اور ادویات کا خرچہ بھی سندس فاؤنڈیشن ہی اُٹھاتی ہے۔ میں سندس فاؤنڈیشن میں اپنی آنکھوں سے ننھی کلیوں کو نئی زندگی ملتے دیکھ کر مطمئن ہو گیا، حسبِ توفیق کچھ رقم فاؤنڈیشن کو خیرات کی اور آج کے دن تک کرتا چلا آ رہا ہوں۔سندس فاؤنڈیشن سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ، پنجاب بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی اور پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن سے رجسٹرڈ شدہ ادارہ ہے۔ تھیلی سیمیا انٹرنیشنل فیڈریشن اور ورلڈ ہیمو فیلیا فیڈریشن سے بھی الحاق شدہ ہے۔یہ ایک فلاحی ادارہ ہےجس کا قیام 23سال قبل 1998میں رمضان المبارک کے مہینے میں ہی یاسین خان جو کہ سندس فائونڈیشن کے بانی اور صدر ہیں، کی کاوشوں سے گوجرانوالہ میں عمل میں آیا تھا۔ منو بھائی سندس فائونڈیشن کے قیام کے کچھ عرصہ بعد ہی اِس سے منسلک ہو گئے اور خود کو سندس فائونڈیشن، تھیلی سیمیا اور ہیمو فیلیا کے بچوں کیلئے وقف کر دیا۔ وہ تاحیات سندس فائونڈیشن کے چیئر مین رہے۔ اُنہوں نے اپنی زندگی میں اِس فلاحی ادارے کیلئے گرانقدر خدمات سر انجام دیں۔ اُن کی وفات کے بعد یاسین خان اِس مشن کو آگے بڑھائے ہوئے ہیں۔ جو گزشتہ تین دہائیوں سے فلاحی کاموں میں مصروف ہیں اور جنہوں نے اِس ادارے کو چلانے کیلئے اپنی خاندانی جائیداد تک فروخت کر دی تھی۔ آج اُن کی کاوشوں سے ملک کی کئی مشہور شخصیات اُن کے ساتھ اِس کارِ خیر میں اُن کے ساتھ کھڑی ہیں۔ اِس وقت پاکستان میں سندس فائونڈیشن کے 6سینٹرز پنجاب کے مختلف شہروں میں کام کر رہے ہیں، تین دہائیاں قبل پاکستان میں اِس مرض میں مبتلا بچوں کی اوسط عمر 8سے 12سال ہوا کرتی تھی لیکن سندس فائونڈیشن اوردیگر اداروں کی بدولت بتدریج جدید ٹیکنالوجی، موثر ادویات، صحتمند خون اور معیاری علاج معالجے کی بدولت اِن مریض بچوں کی اوسط عمریں 35سے 40سال ہو چکی ہیں۔ اِن میں اکثر مریض بچے تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کر کے معاشرے کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں اور معاشرے پر بوجھ نہیں ہیں۔ منو بھائی کا خواب تھا کہ سندس فاؤنڈیشن کی ذاتی عمارت اور جدید اسپتال ہو جہاں تھیلی سیمیا سینٹر کے ساتھ ساتھ ایمرجنسی سے لے کر دیگر تمام امراض کے علاج و معالجہ کی سہولیات ایک ہی چھت کے نیچے مفت فراہم کی جاسکیں۔اِس مقصد کیلئے سندس فاؤنڈیشن نے گلبرگ لاہورمیںاراضی حاصل کرلی ہے اور وہاں اسپتال کی تعمیر بھی جاری ہے، جس کی تکمیل کیلئے 50کروڑ روپے درکار ہیں۔ صاحبِ ثروت خواتین و حضرات سے اس خواب کی تعبیر کے لئے بھرپور مالی معاونت کی اپیل کی جاتی ہے۔آخر میں یہ کہتا چلوں کہ محمد یاسین خان اب بے تکلف دوست ہیں، وہ جتنا بڑا یہ کام انجام دے رہے ہیں اگرحکومتِ پاکستان کی سطح پریہ کام کیا جاتا تو ان کی کم از کم 10 لاکھ روپےتنخواہ اور دیگر مراعات ہوتیں جبکہ اگر کسی عالمی ادارہ کی سربراہی میں یہ ادارہ کام ہورہا ہوتا تو ان کی تنخواہ کم از کم 50 لاکھ روپےماہانہ ہوتی۔