جب چھٹی جماعت کی طالبہ اُستانی بنی

April 16, 2021

مارچ 1987 میں ٹھٹھہ (سندھ) میں محمد بچّل اور زینب بی بی کے گھر جنم لینے والی حمیرا بچّل نے غربت کی گود میں آنکھ کھولی۔ حمیرا کی ماں جنگل میں درختوں کی لکڑیاں کاٹ کر اور گھر میں سلائی کرکے اہلِ خانہ کی بھوک ختم کرنے کی سعی کرتی۔ اس کا شوہر بھی کام کرتا، لیکن غربت منہ پھاڑے اُن کے دروازے پر کھڑی رہتی۔

اس کے باوجود حمیرا کی ماں کے دل و دماغ میں یہ سما گیا تھاکہ اپنی بچّیوں کو ہر قیمت پرتعلیم سے بہرہ مند کرنا ہے۔ زینب کی حمیرا سے چھوٹی ایک اور بیٹی طاہرہ ہے۔ زینب بی بی نے شوہر سمیت پورے خاندان سے لڑائی مول لےکر بچّیوں کو اسکول میں داخل کرایا۔ دو سال تک ٹھٹھہ کے ایک اسکول میں پڑھانے کے بعد یہ خاندان کراچی کی ایک نواحی بستی ’’مواچھ گوٹھ‘‘ منتقل ہوگیا،یہاں زینب بی بی نے بچیّیوں کو اسکول میں داخل کرادیا۔

علی الصباح حمیرا کا اپنی بہن کے ساتھ اسکول جانا سزا سے کم نہیں تھا کیوں کہ محلے کا کوئی بچّہ اسکول نہیں جاتا تھا۔حمیرا چوتھی کلاس میں تھی جب اس نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر محلّے کے بچّے اسکول نہیں جاسکتے تو میں تواُنہیں پڑھاسکتی ہوں۔ دوسرے ہی دن اس نے اپنے گھر کی ایک دیوار پرسیاہ رنگ کرکے بلیک بورڈ بنا دیا اور محلّے کے بچّوں سےکہاکہ میں آپ سب کو پڑھائوں گی۔ حمیرانے اپنی بچی ہوئی کاپی کے اوراق ،پینسل، ربر وغیرہ بچّوں کو دیے اور چٹائی پر بیٹھا کر اپنے گھر سے پہلی درس گاہ کی ابتدا کی۔

ہر روز اسکول سے وہ جو کچھ سیکھ کر آتی، وہ بچّوں میں منتقل کردیتی۔ دیکھتےہی دیکھتےاس کےگھرنے چھوٹے سے تعلیمی ادارےکی شکل اختیار کرلی، جس کی اساتذہ گیارہ سال کی کم عمر بچّیاں تھیں۔ حمیرا نے اسکول میں ہر کلاس کے باہر ایک ڈبّہ رکھ دیا اور طالبات سے درخواست کی کہ اگر آپ کی پینسل چھوٹی ہوجائےیا شاپنر پھینکنے کا ارادہ ہوتو ان ڈبّوں میں بہ طور عطیہ ڈال دیں، نیز سال کے آخر میں کاپیوں کےبچے ہوئے صفحات، کتابیں وغیرہ بھی دے دیں۔

جب حمیرا اپنی ساتھیوں کے ساتھ گھر گھرجاتی توکسی بچّےکی ماں ڈانٹ دیتی،کسی کا باپ یہ کہہ کر دروازہ بندکردیتا کہ ہم اپنے بچّوں کو نہیں پڑھائیں گے۔ یہ ہی نہیں، بلکہ جب حمیرا نے نویں جماعت میں قدم رکھا تو اس کے باپ نے اس کی ماں سے کہا: ’’اب حمیرا کو گھر بٹھائو، بہت پڑھ لیا اس نے‘‘۔ لیکن اس نے ایسا کرنے سے صاف انکارکردیا۔

حمیرانے’’اے‘‘گریڈ میں میٹرک کا امتحان پاس کیا تو اس کی ماں کی خوشی دیدنی تھی۔ حمیرا نے نامساعد حالات کے باوجود بڑی جرأت مندی سے علم کی روشنی پھیلانے کا نہ صرف سپنا دیکھابلکہ اپنی ثابت قدمی سے خواب کو تعبیر پاتےبھی دیکھا۔ اب اس نے’’ روشن پاکستان اکیڈمی ‘‘قائم کی ہے ،جہاں غریب بچّوں کو تعلیم دیتی ہیں ۔

آج حمیرا تین اسکول قائم کرچکی ہے۔ حمیرا کی جدوجہد ایک مثال ہے، اس کی زندگی پر کئی دستاویزی فلمیں بن چکی ہیں ۔حمیرا کی زندگی میں کیسے بدلائوآیا ؟ کیسے اُس نے تعلیم کے چراغ روشن کیے یہ اور بہت کچھ جاننے کے لیے ہم نےحمیرا سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں آپ بھی ہمارے ساتھ شامل ہوجائیں۔ ہمارے سوالا ت کے جواب میں حمیرا نے جو کچھ بتایا وہ نذرِ قارئین ہے:

س: اپنی تعلیم اورخاندان کے بارے میں بتائیں ؟

ج:میرا تعلق سند ھ کے شہر ٹھٹھہ کے ایک گائوں ٹنڈو حافظ شاہ سے ہے ۔ابتدائی تعلیم بھی وہیں سے حاصل کی ،جب میں آٹھ سال کی تھی تو اہل خانہ کے ہمراہ ٹھٹھہ سے مواچھ گوٹھ آگئی ،یہ لیاری سےآگے ہے۔ یہاں آکر میں نے تعلیمی سلسلہ جاری رکھا ،لیکن مواچھ گوٹھ کچی بستی جیسا علاقہ ہے اور یہ رقبے کے لحاظ سے بہت چھوٹا بھی ہے، اسی لیے یہاں پر کوئی سیکنڈری اسکول نہیں تھا اور سب سے اہم بات میرے خاندان میں لڑکیوں کو پڑھنے کی اجازت بھی نہیں تھی ۔ میرے والد کا تعلق اندرونِ سندھ سے اور والدہ کا تعلق بلوچستان کے ایسے گاؤں سے ہے ،جہاں پر لڑکیوں کو تعلیم دلوانا تو دور کی بات وہاں خواتین کا ہسپتال جانا بھی برا سمجھا جاتا ہے۔

اسی وجہ سے میرے خاندان میں لڑکیوں کو تعلیم دلوانے کا کوئی تصور بھی نہیں تھا یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ میرے خاندان میں اگر کوئی لڑکی تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی تو وہ بہت بڑا گناہ سمجھا جاتا تھا ۔یہ کام وہاں کے اصولوں کے خلاف تھا ،جس عمر میں لڑکیاں سیکنڈری اسکول جاتی ہیں، ہمارے گائوں میں اس عمر میں لڑکیوں کی شادی ہو جاتی ہے۔ لیکن میری امی کو ہم بہن ،بھائیوں کو تعلیم دلوانے کا بہت شوق تھا اور انہوںنے ہمیں تعلیم دلوانے کے لیے بہت تگ ودو بھی کی ۔

امی نے بھائی اور ابوسے چھپ کر میرا نویں جماعت میں داخلہ کروایا ، جب بھائی اور ابو کام پر چلے جاتے ،پھر میں اسکول جاتی تھی ،کیوں کہ میں دوپہر کے اسکول میں پڑھتی تھی لیکن یہ بات ابو اور بھائی سے چھپی نہیں رہی جب نویں جماعت کے امتحان ہونے والے تھے تو ابو کو پتا چل گیا کہ میں پڑھ رہی ہوں وہ دن مجھے آج تک یاد ہے ،جس دن ابو نے امی کو اس بات پر بہت مارا کہ مجھے کیوں تعلیم دلا رہی ہیں ،اسی وجہ سے نویں جماعت کے امتحان دینے کے لیے مجھے گھر سے دورجانا پڑا ۔کئی سال تک ابو نے مجھےسے بات نہیں کی، نہ مجھے بیٹا کہہ کر پکارا اور نہ مجھے دستر خوان پر ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کی اجازت تھی ۔

میرے جو رشتے دار ٹھٹھہ میں رہتے ہیں انہوں نے مجھے وہاں آنے سے سختی سے منع کردیا تھا اور کہتے تھے کہ تمہاری وجہ سے ہمیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اگر کسی کو غلط کاموں یا برائی کی مثال دینی ہوتی تو میری مثال دی جاتی تھی۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد میں نے ابو کو اس بات کے لیے قائل کیا کہ آپ مجھے آگے پڑھنے دیں میں ایسا کوئی کام نہیں کروں گی جو آپ کے لیےباعثِ شرمندگی ہوگا۔ کیوں کہ میرے ابو کو یہ ڈرتھا کہ لڑکیاں پڑھ لکھ کر آوارہ ہو جاتی ہیں ۔

اپنی پسند کی شادی کرلیتی ہیں ۔میں نےابو کو اس بات کا یقین دلایا کہ میںشادی آپ کی پسند سے ہی کروں گی ۔یہ کہتےوقت مجھے مکمل یقین تھا کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب ابو مجھے خود یہ اجازت دیں گے کہ تمہیں جو کرنا ہے کرو۔اس طر ح میں نے مزید آگے تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔مجھے اسلامک اسٹڈیز میں بہت دل چسپی تھی تو عالمہ کا کورس بھی کیا لیکن سند ملنے سے چھ مہینے پہلے چند وجوہات کی بناءپر کورس مکمل نہیںکیا ۔اس کے بعد میں نےگورنمنٹ کالج سے بی اے کیا اور اب میں وفاقی اردو یونیورسٹی سے بی ایڈ کررہی ہوں ۔

میں خاندان میں پہلی لڑکی ہوں ،جس نے تعلیم حاصل کی ،اب میری چھوٹی بہن اور کزنز تعلیم حاصل کررہی ہیں ۔جو مجھے سے بڑے بہن ،بھائی ہیں انہوں نے تعلیم حاصل نہیں کی لیکن وہ اپنے بچوں کو پڑھا رہے ہیں ۔اس سب کے بعد ایک دن ابو نے مجھ اپنی پسند سے ہر کام کرنے کی اجازت دے دی ،پھر 2014ء میں نے اپنی پسند سے شادی کی اور اب میری 2 بیٹیاں ہیں ۔دونوں اچھے اسکول میں زیر ِتعلیم ہیں ۔

س:اسکول چلاتے ہوئے کتناعر صہ ہوگیا ہے ؟

ج: تقریباًچھ سال ہوگئے ہیں ۔

س:جب آپ یہ اسکول شروع کررہی تھیں ،تو آپ کے ذہن میں کیا خیالات تھے ؟کس طر ح اسکول کو چلانے کی پلاننگ کی تھی ؟

ج: شروع کرتے وقت ذہن میں سوائے اس کے کچھ نہیں تھا کہ اپنے خاندان اور اردگرد موجود تمام لڑکے اورلڑکیوں کو پڑھنا لکھنا سکھنا ہے ۔

س:اس طرح کے علاقے میں اسکول کھولتے ہوئے کس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ؟

ج: شروعات میں ہر طر ح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کبھی اسکول پر فائرنگ کردی جاتی ،کبھی ہمیں دھمکیاں ملتیں ۔لوگوںکا رویہ بہت خراب ہوگیا تھا کوئی عزت کی نگاہ سے نہ دیکھتا تھا اور نہ ہی بات کرتا تھا ۔ ان سب مشکلا ت سےزیادہ بڑے مشکل 2014سے 2015 میں آئی ۔یہ سال میری زندگی کا تاریکی سال تھا ۔اس سال میں نے دنیا کے بھیانک رنگ دیکھے ۔میری چھوٹی بہن نے 2015 ء میں ڈریم فائونڈیشن انسٹی ٹیوٹ حاصل کرنے کے لیے مجھے زہر دے کر مارنے کی کوشش کی ۔

یہ بات میرے لیے قبول کرنا اتنا آسان نہیںتھا ،اس صدمے سے باہر آنے میں مجھے پورا ایک سال لگا ۔میرا ہر رشتے سے اعتماد اُٹھ چکا تھا ۔مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ میں کیا کروں ۔بیٹی کی پیدائش پر خوش ہوں یا بہن کے مارنے پر ماتم کروں ۔لیکن آپ کی زندگی میں جہاں لوگ دشمن بن جاتےہیں وہیںپر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو آپ کو زندگی میں آگے بڑھنے کی ہمت دلاتے ہیں ۔ میری زندگی میں بھی کچھ لوگ ایسے تھے جو میری ہمت بنے ،انہوں نے مجھے دوبارہ سے جوش و جذبے کے ساتھ آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا ۔ پھر میں نےیہ سوچا کہ میرے اندر وہ طاقت ہے، جس سے میں لوگوں کےذہنوں کو شعور یا فتہ کرسکتی ہوں ۔

یہ میری زندگی کا آخر نہیں ہے مجھے ابھی مزید آگے بڑھنا ،لوگوں کو تعلیم کے زیور سے بہرہ مند کرنے کے لیے اور بھی کام کرنا ہے ۔اسی حوصلے سےآگے بڑھتے ہوئے میں نے 2016ء میں ایک نئی آرگنائزیشن بنائی ،جس کا نام ’’روشن فائونڈیشن پاکستان ‘‘ ہے ۔اس کو کمیونٹی کی چیریٹی سے بنا یا گیا ہے۔ اب ایسا ہے کہ جوبڑے بڑے اخراجات ہیں وہ ہم باہر سے جوامداد ملتی ہے اس سے پورے کرتے ہیں اور روزمرہ کے اخراجات کمیونٹی سے جو پیسہ ملتا ہے ،اس سے کرتے ہیں ۔ابھی میں چیئر پرسن اور بانی کی حیثیت سے یہ ادارہ چلا رہی ہوں ۔ ادارے کے تحت ایک اسکول کھولا ،جس کا نام روشن پاکستان اکیڈمی ہے ،یہ لیا ری سے آگے گلشن مزدور میں ہے جہاں دنیا کی ہر برائی موجود ہے ،یہاں پرمواچھ گوٹھ سے بھی زیادہ ان ِپڑھ لوگ رہتے ہیں ۔

پورے کراچی کا کچرا وہاں آکر جمع ہوتا ہے ۔وہاں چاروں طر ف کچرا ہی کچرا ہے اور وہی کچرا وہاں رہنے والوں کی زندگی ہے ۔اب اس اسکول کے تین کیمپس ہیں ۔ دوسرا 2017ء میں اور تیسرا 2019 ء میں کھولا ۔دوسرا نور محمد گوٹھ میں ہے اور تیسرا عبد اللہ گوٹھ میں ہے۔ یہ تینوں کیمپیسز ایسے علاقوں میں کھولے ہیں جہاں اسکول کھولنے کی اشد ضرورت تھی ۔اب ان تینوں کیمپسز کے طلبا و طالبات کو ملا کر 650 بچے ان اسکول سے تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔

س:اسکول چلانے کے علاوہ اور بھی کوئی خدمات انجام دیتی ہیں ؟

ج: جی ! لاک ڈائون کےدنوں میں، میں نے اور میری ٹیم نے ساڑھے سات ہزار گھروں میں راشن ،ادویات اور ضرورت کا دیگر سامان گھروں میں پہنچایا ۔جب پوری دنیا گھروں میں قید تھی میں ،میری ٹیم گلی گلی لوگوں کو راشن فراہم کررہی تھی۔ اس کے علاوہ ابھی ہم ایک اور منصوبے پر کام کررہے ہیں، جس کا نام ’’سائبان ‘‘ ہے۔ اس منصوبے کا مقصد سنگل مائوں کو گھر تعمیر کروا کر دینا ہے ۔

س: آپ تمام اساتذہ کو ماہانہ تنخواہ دیتی ہیں؟

ج:بالکل بہت زیادہ تو ہم نہیں دسکتے ،کیوں کہ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہے ۔لیکن تھوڑی بہت سب کو تنخواہ دی جاتی ہے ۔

س: ان تینوں کیمپسز میں کتنے اساتذہ ہیں ؟

ج: تقریباً 15 سے 16 اساتذہ موجود ہیں۔

س: اسکو ل کی ماہانہ فیس کتنی ہے ؟

ج:اسکول کی کوئی فیس مقرر نہیں ہے ،جس کی جو حیثیت ہوتی ہے وہ خود سے دے دیتا ہے ،چاہے وہ دس روپے دے یا ہزار روپے ،وہ اس کی اپنی مرضی ہے لیکن دینے سب نے ہوتے ہیں ۔

س:ایک این جی او نے آپ کی ان خدمات کی بنا ء پر ایک دستاویزی فلم بنائی تھی ،اس بارے میںبتائیں ؟ اس کے علاوہ آپ اور بھی دستاویزی فلموں کا حصہ رہی ہیں ؟

ج:جی 2009 ء میں ایک این جی او ہمارے پاس آئی اور ہمارا کام دیکھ کر دگن رہ گئی کہ ہم کس طر ح یہاں لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم دلوانے میں لگے ہوئے ہیں ۔ان کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہے ایک لڑکی جو خود فرسٹ ائیر کی طلبہ ہے ،اس نے اسکول کھولا ہوا ہے اور اس کی جو ٹیم ہے اس میں کوئی چھٹی جماعت کا ہے کوئی ساتویں کا۔ ان کو یہ سب دیکھ کر بہت حیرت ہوئے، بعد ازاں انہوں مجھے سے بات چیت کی اور ہماری اس مشن پر دستاویز ی فلم بنانے کی خواہش ظاہر کی ۔

جس کے لیے میں راضی ہو گئی ۔اس این جی او نے ـ"small dream " کے نام سے ایک دستاویز ی فلم بنائی ،جس کو پوری دنیا کے مختلف ممالک میں دکھا یا گیا ۔مجھے اس کو دکھانے کے لیے لاہور مدعو کیا گیا جب میںنے وہاں پر اس کو بڑے سے آڈیٹوریم میں دیکھا تو ا س وقت مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ صرف تاریخ پڑھنے کا کام نہیں ہے بلکہ یہ بہت بڑی چیزہے جو ہمیں بھوک، پیاس ،غربت اور معاشرے کے دیگر مسائل سے بچائے گی ۔ عورتوں کے لیے چار سو پھیلی جہالت کے بادل کو ختم کرے گی ۔

آہستہ آہستہ میری ٹیم میں لوگوں کا اضافہ ہوتا گیا، پھر ہم نے اپنے ادارے کو مزید بہتر کیا یہ بہت ہی سنہرا دور تھا ۔2014 ء میں ڈریم فائونڈیشن ایک باقاعدہ انسٹی ٹیوٹ بن گیا ۔

علاوہ ازیں شرمین عبید چنائو نے ایک انٹر نیشنل مہم کے لیے مجھے پر دستاویزی فلمیں بنائیں،جس کے سبب عالمی سطح پر میرے کام کو بہت زیادہ پذیرائی ملی ۔ہولی وڈ گلوکارہ ،میڈونا مجھےسے ملی انہوں نے مجھے بہت سپورٹ کیا۔حالاںکہ میںان کو جانتی بھی نہیں تھی کہ وہ کون ہیں ۔اسی سلسلے میں،میں کئی مرتبہ اسکالر شپ پر میں لندن اور امریکا بھی گئی ۔

س: آپ نے ایک مائیکرو فائنسنگ پروجیکٹ پر بھی کام کیا ہے ، اس حوالے سے بتائیں ؟

ج:جی وہاں میں نوکری کرتی تھی ،اصل میں روشن فاؤنڈیشن شروع کرنے کے بعد ہمیں اس کا کرایہ ادا کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ اسی لیے میں نے نوکری شروع کردی ،تاکہ اسکو ل کا کرایہ بھی آسانی سے دے سکوں اور گھر کے تھوڑے بہت اخراجات بھی پورے ہوجائیں ۔

س: مستقبل میں کس طر ح اپنے اس اسکول کو بہتر بنانے کا ارادہ ہے؟

ج:میں مستقبل میں یہ کوشش کروں گی کہ ایک پبلک پرائیوٹ پاٹنر شپ کے تحت حکومت کی جو زمینیں اسکولز کے لیے ہیں ،ان پر اسکول قائم کرسکوں ۔میں یہ چاہتی ہوں کہ ایک ایسااسکول بنائو جہاں صرف بچے ہی نہیں بلکہ ان کے ماں ،باپ بھی تعلیم حاصل کرسکیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ سند ہی لے کر جائیں بلکہ وہاں سے شعور اور آگہی حاصل کریں۔

میں اسکول کو مکمل ہپ بنانا چاہتی ہوں ۔وہاں پر ہم مل کر مختلف فیسٹیولز منائیں۔ ایک دوسرے کے مسائل پر غور کریں ۔جو صبح میں ایک اسکول ہو اور شام میں اسپورٹس کی اکیڈمی ہو،وکیشنل ٹریننگ سینٹر ہو ۔لوگوں وہاں پر اپنی خوشیاں منائیں۔ غرض یہ ایک مکمل کیمونٹی سینٹر ہو ۔

… ایوارڈز …

حمیرا بچل کو ان کی تعلیمی خدمات پر کئی ایوارڈز بھی ملے۔ 2012ء میں مجھے بنگلا دیش میں 21 Young Leader award ، 2013 ء میں impact of women award اور امریکا ،نیو یارک میں چوتھی سالانہ ویمن ورلڈ فیسٹیول ایوارڈ بھی حاصل کیا ۔

اسکول کھولنے کی کہانی

جب میں چھٹی جماعت میں تھی تو میری ایک کزن نے اپنے بچے کو ایکسپائر دوا دی تھی،جس سے اس کاانتقال ہو گیا ،چوںکہ میری کزن کو بالکل بھی پڑھنا نہیں آتا تھا تواس نے تاریخ دیکھے بغیر بچے کو دوا دے دی۔ یہ بات میرا ذہن قبول نہیں کررہا تھا کہ کوئی ماں اپنے بچے کو کیسے مار سکتی ہے ،ایسی کیا وجہ تھی کہ اس نے اپنے بچے کو ہی مار دیا ۔

جب ایکسپائر دوا کا علم ہوا تو میں نے سوچا اب میںخاندان اور اس گوٹھ کی لڑکیوں کوپڑھنا ،لکھنا ضرورسکھائوں گی ،تا کہ یہ غلطی آئندہ کوئی اور لڑکی نہ کریں ۔اپنی اسکول کی نوٹ بکس سے صفحات پھاڑ کر لڑکیوں کو تاریخ لکھنا ،پڑھنا سکھاتی ۔

اپنے اسکول کی ہر کلاس میں ایک بکس بناکر رکھا، جس میں طالبا ت اپنی پرانی کتابیں اور کاپیاں ڈالتے تھے ،پھر ان کتابوں ،کاپیوں کو گھر لے کر آتی اور مواچھ گوٹھ کے لڑکے اور لڑکیوں کو ان سے پڑھنا ،لکھنا سکھاتی ۔پھر 2001 ءمیں نے ایک چھوٹا سا اسکول اپنے گھر میں بنالیا۔ اسی طر ح میں گھر سے یہ اسکول چلاتی رہی اور 2009 ء میں جب بچوں کی تعداد کافی زیادہ بڑھ گئی تو پھر گھر کے قریب میں نے کرائے پر ایک جگہ لے کر چھوٹا سا اسکول کھولا، جس کا نام ’’ڈریم فائونڈیشن ٹرسٹ ‘‘ رکھا ۔ہماری کمیونٹی میں ایک رواج تھا کہ جب بھی کسی کی شادی ہوتی یا کوئی بیمار ہوتا تو پوری کمیو نٹی کے لوگ اس کام کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق پیسے دیتے تھے، اُس وقت میں یہ سوچتی تھی کہ ہم یہ کام تعلیم کے لیے کیوں کہ نہیں کرسکتے ۔

ایک دن میں نے ایک ڈبہ لیا اور گھر گھر جاکر اسکول کے لیے چندہ جمع کرنا شروع کیا ،جس پر 99 فی صد لوگوں نے بہت زیادہ بے عزت کیا اور باتیں بھی سنا ئیں ۔ کئی مرتبہ اسکول پر پتھراؤ بھی ہوا۔چند ماہ بعد مالک مکان نے اسکول کی جگہ خالی کروالی تو میں نے گلی میں پڑھنا شروع کردیا ،غرض یہ کہ پڑھانے کا سلسلسہ کسی بھی صورت روکا نہیں ۔2009 ءمیں مجھے ایسالگا کہ اب چیزیں بہتری کی طر ف جارہی ہیں ۔میں اب اس کام کو مز ید بہتر طر ح سے کرسکتی ہوں۔چناں چے میں نے مواچھ گوٹھ کو بنیادی ڈھانچے کی شکل دے دی ،جہاں ایک چھوٹی سی ڈسپنسری بھی ہے ۔

میرا مقصد صرف وہاں کے لوگوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا نہیں تھا بلکہ اپنے ہر مسائل کے خلاف آواز اُٹھانےکی تر بیت بھی دینی تھی ۔ بس میرے اندر ایک خواہش یہ تھی کہ میںکچھ ایسا کروں کہ سب کے لیے مثال بن جاؤ۔ سب اپنی بہن ،بیٹیوں کو یہ کہیں کہ جب حمیرا کرسکتی ہے تو تم کیوں نہیں کر سکتی۔ جب میں ایسے ماحول میں رہتے ہوئے سب کچھ کرسکتی ہوں تو میرے اردگرد رہنے والی تمام لڑکیاں کیوں نہیں کرسکتیں ،بس ان میں ہمت اور حوصلہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔