مزار اقبالؒ کی تعمیر

April 21, 2021

1938ء میں ’’جاوید منزل‘‘ میں ایک اجتماع ہوا جس میں علامہ مرحوم کے مزار کی تعمیر کے لئے ایک کمیٹی کی تشکیل ہوئی ۔چودھری محمد حسین اس کمیٹی کے صدر اور شفاء الملک حکیم قرشی، میاں امیر الدین، راجہ حسن اختر، حمید نظامی مرحوم اور شیخ محبوب الٰہی وغیرہ ارکان منتخب ہوئے ۔خواجہ عبدالرحیم کمیٹی کے سیکرٹری مقرر کئے گئے جواب تک یہ فرائض انجام دے رہے ہیں۔بعد میں راجہ حسن اختر ’’مزار کمیٹی ‘‘ کے صدر چنے گئے اور کچھ نئے ممبر بھی شامل کئے گئے۔

مزار کی تعمیر کا کام کئی سال تک معرض التوا میں رہا ۔آٹھ سال کے بعد 1964ء عیسوی میں اس کام کا آغاز ہوا اور سات آٹھ سال میں اختتام کو پہنچا۔ مزار اقبال کی تعمیر میں ایک لاکھ روپیہ کے قریب صرف ہوئے کمیٹی نے حیدر آباد دکن کے ممتاز ماہر فن تعمیر نواب زین یار جنگ سے رابطہ قائم کیا۔

انہوں نے حیدر آباد سے مزار کا نقشہ بنا کر بھیجا جسے کمیٹی نےپسند نہیں کیا پھر انہیں لاہور آنے کی دعوت دی گئی۔ جب وہ لاہور آئے تو مزار کمیٹی کے چیئرمین چودھری محمد حسین اور دوسرے ارکان انہیں علامہ مرحوم کی آخری آرام گاہ پر لے گئے تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے مزار کے محل وقوع اور ان کے گردوپیش کے مناظر اور عمارتوں کو دیکھ لیں ۔

چودھری محمد حسین نے نواب زین یار جنگ سے کہا ’’حکیم الامت کے مزار کے ایک جانب شاہی مسجد ہے جو مسلمانوں کی روحانی عظمت کو نمایاں کر رہی ہے، دوسری طرف مغلیہ دور حکومت کا قلعہ ہے جو مسلمانوں کی دنیاوی سطوت وطاقت کا نشان ہے۔

اس سارے ماحول اور آثار ونشانات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مقبرہ کا نقشہ اس انداز کا ہونا چاہئے کہ دیکھنے والا ایک نظر میں یہ محسوس کرسکے کہ یہ مشرق کے عظیم فلسفی شاعر اور ملت اسلامیہ میں شعور و احساس کی روح بیدار کرنے والے مجدد قوم کی خواب گاہ ہے‘‘۔نواب زین یار جنگ نے کمیٹی کے منشا اور نقطہ نظر کو اچھی طرح سمجھ لیا۔چنانچہ انہوں نے بڑی محنت اور دیدہ ریزی کے ساتھ نقشہ تیار کیا، جسے کمیٹی نے پسند اور منظور کر لیا۔علامہ مرحوم کا مزار اسی نقشہ کے مطابق تعمیر ہوا ۔

مزار اقبال کے اندرونی حصہ خصوصاً تعویذ او رلوح مزار کے بارے میں ایک واقعہ کا اظہار نہ کیا جائے تو یہ داستان عقیدت و محبت نامکمل رہ جائےگی۔سردار صلاح الدین سلجوقی جو ہندوستان میں حکومت افغانستان کے سفیر تھے علامہ کے بہت بڑے مداح اور قدرشناس تھے اور ان کی زندگی ہی میں ڈاکٹر صاحب سے ان کے ذاتی روابط قائم ہو چکے تھے ۔

چنانچہ ڈاکٹر صاحب جب تیسری رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں انگلستان کے بحری سفر کےلئے بمبئی پہنچے تو انہوں نے سردار صلاح الدین سلجوقی کے یہاں قیام فرمایا ۔ڈاکٹر صاحب کے انتقال کے بعد سردار صاحب نے اپنے ممدوح کے مزار کی تعمیر کے سلسلہ میں اپنی حکومت سے رابطہ پیدا کیا اور ان کی اس دلچسپی کا یہ نتیجہ نکلا کہ حکومت افغانستان نے تعویذ اورلوح ِ مزار کی پیشکش اپنی طرف سے کی ۔

افغانستان میں یہ تعویذ اور کتبہ دنیا کے سب سے زیادہ قیمتی پتھر LAPISLAZULI سے تیار کیا گیا ۔یہ پتھر افغانستان اور وسط ایشیا کے علاوہ دنیا میں اور کہیں دستیاب نہیں ہو سکتا۔ افغانستان سے تعویذ اور کتب کے ان ’’حجری اجزا‘‘ کو علیحدہ علیحدہ ضروری ہدایات کے ساتھ نہایت محفوظ کرکے لاہور بھیجا گیا۔

قدموں کی جانب دو مشعلیں تھیں، جو راستے میں افسوس ہے کہ ٹوٹ گئیں اور یہاں دوبارہ نہیں بن سکیں ۔یہ جگہ اب تک خالی ہے یہ مشعلیں بھی LAPISLAZULI پتھر کی بنی ہوئی تھیں ۔لوحِ مزار کے پتھر کی نمایاں خوبی یہ ہے وہ اس قدر شفاف (TRANSPARENT) ہے کہ ایک طرف کی روشنی دوسری جانب صاف نظر آ سکتی ہے اس زمانے میں اس پتھر کی قیمت ایک لاکھ روپے تھی جو آج کل کے چھ سات لاکھ روپے سے کسی طرح کم نہیں کتبہ پر جو عبارت پیش منظر اور پیش منظر کنندہ ہے وہ درج ذیل ہے ۔

ان من الشعرالحکمۃ

وان من البیان سحرا

پیش منظر

نہ افغانیم ونے ترک و تتاریمِ

چمن زادیمِ وازیک شاخساریمِ

تمیزِ رنگ و بُو برما حرام است

کہ ما پروردۂ یک نو بہاریمِ

پس منظر

’’شاعر وفیلسوف مشرق داکتر محمد اقبال کہ راہِ سعی و عمل و روح اسلام رابہم کناں روشن ساختہ وازین رومظہر قبول اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ غازی و ملت افغان واقع شدہ 1294ھ تولدوبستہ 1357ھ وفات یافت ‘‘۔

مزار کی چھت کے لئے جو اشعار منتخب کئے گئے وہ ایک مخصوص کمیٹی کی سعی فکروتلاش کا نتیجہ تھے ۔یہ کمیٹی چودھری محمد حسین، راجہ حسن اختر اور خواجہ عبدالرحیم پر مشتمل تھی ۔مشہور خطاط ابن پرویں رقم نے ان اشعار کو اس قدر حسن و زیبائی کے ساتھ رقم کیا کہ فن کتابت کا ایک شاہکار پھتر کے قالب میں ڈھل گیا۔ 1950ء میں جب رضا شاہ پہلوی شہنشاہ ایران مزار اقبال پر فاتحہ خوانی کے لئے آئے تو ان اشعار کو دیکھ کر بے ساختہ ان کی زبان سے یہ فقرہ نکل گیا :’’خوشخطی خوب است‘‘۔

چھت پر جو اشعار مرقوم ہیں وہ ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔

دم مراصفتِ باد فرو دیں کردند

گیاہ را زسرشکم چو یاسمیں کردند

نمود لالۂ صحران نشیں ز خوننابم

چُنانکہ بادۂ لعلے بساتگیں کردند

بلند بال چنانم کہ برسپہر بریں

ہزار بار مرا نوریاں کمیں کردند

فروغِ آدمِ خاکی ز تازہ کاری ہاست

مہ وستارہ کنند آنچہ پیش ازیں کردند

چراغِ خویش بر افروختم کہ د ستِ کلیم

دریں زمانہ نہاں زیرِ آستیں کردند

درآبسجدہ ویاری زخسرواں مطلب

کہ روزِ فقر نیاگان ماچنیں کردند