آزمائش میں کامیابی

May 02, 2021

میں آدھے گھنٹے سے اس کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا اس کا انتظار کررہا تھا اور یہ انتظار اب کافی ناگوار محسوس ہورہا تھا کیونکہ بیڈروم سے ڈرائنگ روم تک آنے کےلئے ایک منٹ ہی کافی تھا لیکن مہمان کو آدھا گھنٹہ انتظار کراناغیر اخلاقی حرکت کے مترادف تھا ۔اس سے پہلے کہ میں واپسی کی راہ لیتا، ڈرائنگ روم کا پردہ ہٹا اور ایک بیساکھی نظر آئی جس کے ساتھ ہی میر ادوست رئیس کمرے میں داخل ہوا، اس کی اہلیہ اور بیٹا اسے سہارا دے کر صوفے تک لائے، اس کے ایک ہاتھ اور پائوں میں شدید لغزش تھی، میں رئیس کو اس حال میں دیکھ کر افسردہ اور پریشان ہو گیا، بالکل اندازہ نہ تھا کہ وہ اسقدر بیمار ہے، میں نے کھڑے ہوکر رئیس کو بیٹھنے میں مدد دی۔ کافی دیر تک ہم دونوں خاموش رہے، بڑی ہمت کرکے میں نے رئیس کی آنکھوں میں دیکھا تو شاید ہم دونوں ہی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ مجھے اس وقت رئیس سے ہونے والی سال بھرپرانی ملاقات یاد آرہی تھی جب وہ اپنی ڈبل کیبن میں مجھ سے ملنے آیا تھا، اس کی عمر پچاس برس کے لگ بھگ تھی انتہائی خوبرو، صحت مند، چاق وچوبند، بہترین کاروبار کا مالک، خوشحال زندگی گزارنے والا رئیس جس کے گلے میں ہمیشہ سونے کی ایک بھاری چین پڑی رہتی تھی وہ ہمیشہ ہی کہا کرتا کہ تم نے جاپان جاکر غلطی کی ہے‘ پاکستان میں بھی بہترین کاروباری مواقع موجود ہیں اور جاپان جاکر جتنا تم کماسکتے ہو اس سے زیادہ لوگ پاکستان میں کما لیتے ہیں ۔میں بھی ہمیشہ ہی ہنسی مذاق میں اس کی بات ٹال دیا کرتا تھا ۔وہ کراچی کا ایک معروف بلڈر تھا، دوہزار گز پر فلیٹس کا پروجیکٹ تیار کررہا تھا جبکہ کراچی کے ایک اچھے علاقے میں چھ سو گز کا مکان بھی زیر تعمیر تھا، مکان کی تعمیر مکمل ہونے تک اس نے ایک خوبصورت بنگلہ کرائے پر لے رکھا تھا، میں ابھی ماضی میں ہی کھویا ہوا تھا کہ اس کی کمزور سی آواز مجھے ماضی سے واپس کمرے میں لے آئی۔ رئیس کی شخصیت میں اب سفید اور کالی داڑھی کا اضافہ بھی ہوچکا تھا، اس نے بھیگی آنکھوں اور کمزور سی آواز میں انتظار کرانے پر مجھ سے معذرت کی اور بتایا کہ چند ماہ قبل اس پر فالج کا حملہ ہوا تھا جس سے سیدھا ہاتھ اور پیر شدید متاثر ہوئے ہیں لیکن علاج چل رہا ہے اب کچھ افاقہ ہے، میں نے کچھ دیر توقف کے بعد اس کی زندگی کے نشیب و فراز کے حوالے سے دریافت کیا تواس نے بتایا کہ عرفان بھائی پچاس سال تک زندگی اپنی مرضی سے جیا، کمایا بھی بہت، اڑایابھی بہت، زندگی میں اچھاکام بھی کیالیکن ایسی کوئی برائی نہ تھی جومیںنے نہ کی ہو، قسمت سے اہلیہ بھی محبت کرنے والی تھی جس کی وجہ سے گھر اچھی طرح چلتا رہا ۔بچے بھی اعلیٰ تعلیم مہنگے‘ تعلیمی اداروں سے حاصل کررہے تھے، لیکن پچاس سال کی عمر کو پہنچتے ہی کچھ مذہبی دوستوں سے ملاقات ہوئی جس کے بعد میں نے اپنی زندگی کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا، تمام برے کاموں سے توبہ کی اور دین پر مضبوطی سے چلنے کا فیصلہ کیا، لیکن دین اور نیکی کا راستہ اختیار کرتے ہی آزمائشوں کا ایسا دور شروع ہوا کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، فلیٹس کا پروجیکٹ کچھ قانونی مسائل کی وجہ سے بند ہوگیا، کروڑوں روپیہ اس میں پھنس گیا، اس کی پریشانی اتنی بڑھ گئی کہ ٹینشن سے فالج کا حملہ ہوگیا، ادھر بنگلے کی تیاری درمیان میں رقم کی قلت کی وجہ سے رکوانی پڑی، جس کے بعد مکان کا کرایہ دینے کے لالے پڑگئے، بچوں کو اسکول اور کالج سے اُٹھوانا پڑا،غرض پریشانی ہے کہ ختم ہونے کانام نہیں لے رہی۔ شاید اللہ تعالیٰ دنیا میں ہی ماضی میں کے گناہوں کی سزا دے کر آزما رہا ہے، لیکن عرفان بھائی میں دین کی راہ سے پیچھے نہیں ہٹوں گا اور ان شااللہ میرا رب مجھے اس مشکل وقت سے نکالے گا، مجھے رئیس کے ساتھ پیش آئے واقعات پر افسو س بھی تھا لیکن اس کا عزم دیکھ کر یقین بھی کہ اللہ تعالیٰ اس مشکل وقت سے اسے جلد نکالے گا ۔آج ایک سال بعد میں ایک بار پھر کراچی میں موجود تھا، میرے منع کرنے کے باوجود رئیس مجھے ائیرپورٹ لینے آیا، اس کی داڑھی برقرار تھی، صحت بہت بہتر ہوچکی تھی، وہ مجھے بتارہا تھا کہ اس کے فلیٹ کے پروجیکٹ کا قانونی مسئلہ حل ہوگیا ہے، جبکہ فلیٹس اور دکانوں کی قیمت بڑھنے سے بہت مالی فائدہ بھی ہوا ہے، گھر بھی تیار ہوچکا ہے، بچے بھی تعلیم حاصل کررہے ہیں، غرض دین کی جانب آنے کےلئے اسے ایک آزمائش سے گزرنا پڑا جس میں وہ کامیاب ہوا، آج ایک بار پھر رئیس کے پاس سب کچھ پہلے سے زیادہ ہے لیکن وہ گناہوں کی زندگی سے نیکی کی زندگی کی جانب گامزن ہوچکا ہے ۔میں رئیس کو دیکھ رہا تھا اور دل سے ایک ہی دعا نکل رہی تھی خوش و آباد رہو میرے بھائی۔