ایجنٹس آف چینج

May 24, 2021

پاکستان میں منتخب ہو کر حکومت کرنے والی ہر سیاسی جماعت نے تبدیلی کا نعرہ لگایا لیکن ایسی ریفارمز کرنے میں کامیابی حاصل نہ کر سکی جن سے غریب عوام کو ریلیف حاصل ہو۔ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کے لئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھے لیکن افسوس کہ پچھلی اور موجودہ حکومت صرف وعدے کرنے تک محدود رہی۔ حکومتی وعدوں اور کسی حد تک کوششوں کے باوجود بہتری کی امید نظر نہیں آ رہی جس کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ ادراک ہوا کہ بنیادی ریفارمز ہی نہیں ہوتیں۔ پاکستان کے وہ ایلیٹ جنہیں ایجنٹس آف چینج یعنی ’’تبدیلی لانے کی طاقت رکھنے والے‘‘ لوگ کہتے ہیں، از خود تبدیلی لانے کی یا تو اہلیت نہیں رکھتے یا پھر ایسا کرنا ہی نہیں چاہتے۔ اس ایلیٹ کلاس میں بیورو کریٹس اور سیاستدان شامل ہیں اور معذرت کے ساتھ یہ دونوں ہی تبدیلی نہیں لانا چاہتے کیونکہ ان پر تبدیلی لانے کے لئے عوام کا کوئی پریشر نہیں۔ سیاستدان منتخب ہو کر آ جاتے ہیں، جب تک انہیں عوام کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا، اُن کا یہ خیال ہوتا ہے کہ تھانے کی وجہ سے وہ دوبارہ منتخب ہو جائیں گے تو پھر ایسے میں کون ہوگا جو پولیس ریفارمز کرانے کی جرأت کرے گا؟ سیاستدان بھی اسی سسٹم کا حصہ ہیں جس میں پولیس اور بیورو کریسی عوام کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتی ہے۔ پی ٹی آئی نے تبدیلی کا نعرہ لگایا لیکن سوشل اسٹرکچر اور اسٹیٹ اسٹرکچر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ موجودہ حکومت میں بھی کوئی CHAMPIONS OF CHANGEنظر نہیں آ رہے اور عوام ہی ماریں کھائی جا رہی ہے۔ پنجاب میں پولیس عوام کے ساتھ جس طرح ’’ہمدردی‘‘ کرتی ہے، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پولیس، بیورو کریٹس اور سیاستدانوں کی ترجیحات میں سسٹم کو تبدیل کرنا شامل ہی نہیں۔ عوامی دبائو کے بغیر پولیس ریفارمز نہیں ہو سکتیں اور نہ ہی پولیس کا کوئی کچھ بگاڑ سکتا ہے۔ ایک حالیہ مثال اوورسیز پاکستانی اور کینیڈین شہریت رکھنے والے چارٹرڈ اکائونٹنٹ عاطف جاوید کی ہے جس کے بوڑھے ماں باپ لاہور میں رہتے ہیں اور آبائی مکان فیصل آباد میں ہے جس پر بااثر افراد ناصرف قبضہ کرنا چاہتے ہیں بلکہ ان کے آبائی مکان کو کسی تیسرے فرد کے آگے بیچ بھی دیا ہے۔ پچھلے دو سال سے اوورسیز پاکستانیز کمیشن پنجاب، ضلعی انتظامیہ اور فیصل آباد پولیس میں شکایات درج کروانے کے باوجود ان کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کے جان و مال کے تحفظ کے لئے جو نعرے لگائے اور دعوے کئے، وہ کہاں ہیں؟ اس سسٹم کی اوور ہالنگ کون کرے گا؟ بیوروکریٹس اور سیاستدان کو غرض نہیں کیونکہ سوائے عوام کے باقی تمام اس سسٹم سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ طاقتور اور سیاستدان کی بات پولیس مانتی ہے اس لئے ان کے لئے یہی مناسب ہے کہ سسٹم کرپٹ رہے۔

پنجاب میں سروس ڈلیوری میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے ساتھ کام کرنے والے وہ اسٹاف افسر ہیں جو قدرے جونیئر رینک رکھتے ہیں، اِن جونیئر افسروں کو بڑے اور اہم اضلاع کا ڈپٹی کمشنر لگا دیا جاتا ہے۔ یہ افسر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کو لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ پنجاب کے ایک سابق سیکرٹری سروسز نے مجھے بتایا کہ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر ذاتی تعلقات پر لگائے جاتے ہیں۔ پنجاب میں اسٹاف افسروں کی بطور ڈپٹی کمشنر تعیناتیوں کا سلسلہ 1985میں تب شروع ہوا جب وزیراعلیٰ کے ڈپٹی سیکرٹری نذیر سعید اور عابد سعید کو ڈپٹی کمشنر لگایا گیا۔ اسی طرح پولیس سروس کے افسر وزیراعلیٰ ہائوس میں لاء اینڈ آرڈر کو ڈیل کرتے کرتے کسی اچھے ضلع کے ڈی پی او لگ جاتے ہیں، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کا بطور چیف ایگزیکٹو یہ اختیار ہے کہ وہ جس کو چاہیں جہاں مرضی تعینات کریں، اس وقت سروس ڈلیوری میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ ان سلیکٹڈ جونیئر افسروں کا ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او تعینات ہونا ہے۔ پنجاب کے اہم ترین اضلاع میں سلیکٹڈ جونیئر افسر تعینات ہیں۔ فیصل آباد کے ڈپٹی کمشنر وزیراعظم عمران خان جبکہ ڈیرہ غازی خان کے ڈپٹی کمشنر کیپٹن (ر) محمد علی اور سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر حال ہی میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے سٹاف افسر رہے ہیں۔ ڈی پی او شیخوپورہ غلام مبشر میکن بھی حال ہی میں وزیراعلیٰ ہائوس میں لاء اینڈ آرڈر کو ڈیل کرتے کرتے ضلعی پولیس کے سربراہ بن گئے۔ جن افسروں نے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ہائوس کو بطور لانچنگ پیڈ استعمال کیا وہ اپنے ہی افسروں اور عوام کو کتنا وزن دیتے ہوں گے اور جو براہ راست ملک یا صوبے کے چیف ایگزیکٹو تک رسائی رکھتے ہوں گے وہ غریب اور مجبور عوام کو کیا لفٹ کراتے ہوں گے، سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے۔ حکومت کو سمجھنا چاہئے کہ سسٹم کی تنزلی کی ایک بڑی وجہ ایسے جونیئر افسروں کو لاکھوں کی آبادی کے اضلاع میں بطور ڈی پی او اور ڈپٹی کمشنر تعینات کرنا ہے کیونکہ ان کا عوامی مسائل کے حوالے سے اتنا تجربہ نہیں ہوتا۔ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے پی ایس اوز کا ڈپٹی کمشنر یا ڈی پی او لگنا کوئی بری بات نہیں لیکن پھر سروس ڈلیوری ایس ہی ہوگی جیسی اب نظر آ رہی ہے۔ غلام حیدر وائیں جیسے وزیراعلیٰ نے بھی پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس سے تعلق رکھنے والے اسٹاف افسر ارشد بھٹی جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے، کو ڈپٹی کمشنر اوکاڑہ تعینات کیا۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ جونیئر افسروں کی تعیناتیوں کے حوالے سے اپنے استحقاق کا ضرور استعمال کرے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس بات کو یقینی بنائے کہ عوام کے مسائل کو حل کرنے اور انہیں انصاف کی فراہمی کے لئے ایسے افسران کا انتخاب کرے جو یقینی طور پر ایماندار اور سب سے ضروری یہ کہ اہل ہوں۔