دبستانِ شعر: فلسطینی بچے کے لیے لوری...

May 31, 2021

فیض احمد فیض

مت رو بچے

رو رو کے ابھی

تیری امی کی آنکھ لگی ہے

مت رو بچے

کچھ ہی پہلے

تیرے ابا نے

اپنے غم سے رخصت لی ہے

مت رو بچے

تیرا بھائی

اپنے خواب کی تتلی پیچھے

دور کہیں پردیس گیا ہے

مت رو بچے

تیری باجی کا

ڈولا پرائے دیس گیا ہے

مت رو بچے

تیرے آنگن میں

مردہ سورج نہلا کے گئے ہیں

چندرما دفنا کے گئے ہیں

مت رو بچے

امی، ابا، باجی، بھائی

چاند اور سورج

تو گر روئے گا تو یہ سب

اور بھی تجھ کو رلوائیں گے

تو مسکائے گا تو شاید

سارے اک دن بھیس بدل کر

تجھ سے کھیلنے لوٹ آئیں گے

رشتوں کی دھوپ چھاؤں سے آزاد ہو گئے

راحت اندوری

رشتوں کی دھوپ چھاؤں سے آزاد ہو گئے

اب تو ہمیں بھی سارے سبق یاد ہو گئے

آبادیوں میں ہوتے ہیں برباد کتنے لوگ

ہم دیکھنے گئے تھے تو برباد ہو گئے

میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ

گیلی زمین کھود کر فرہاد ہو گئے

بیٹھے ہوئے ہیں قیمتی صوفوں پہ بھیڑیے

جنگل کے لوگ شہر میں آباد ہو گئے

لفظوں کے ہیر پھیر کا دھندہ بھی خوب ہے

جاہل ہمارے شہر میں استاد ہو گئے

کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے

منیر نیازی

کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے

سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے

خراب صدیوں کی بے خوابیاں تھیں آنکھوں میں

اب ان بے انت خلاؤں میں خواب کیا دیتے

ہوا کی طرح مسافر تھے دلبروں کے دل

انہیں بس ایک ہی گھر کا عذاب کیا دیتے

شراب دل کی طلب تھی شرع کے پہرے میں

ہم اتنی تنگی میں اس کو شراب کیا دیتے

منیرؔ دشت شروع سے سراب آسا تھا

اس آئینےے کو تمنا کی آب کیا دیتے