تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے

June 18, 2021

پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں قومی اسمبلی کا اجلاس شرمناک طریقے سے جاری ہے اور ممکن ہے کہ اس کالم کی اشاعت تک یہ اجلاس اسی ہلڑ بازی کے ساتھ جاری رہے۔ حسبِ معمول اس رواں اجلاس پر ہر روز قوم کے کروڑوں روپے ’’ضائع‘‘ ہو رہے ہیں۔ جس مقصد کیلئے یہ اجلاس طلب کیا گیا تھا وہ تو شروع میں ہی فوت ہوگیا اب اس مقصد کی فوتیدگی پر ڈھول باجے بجانے کا انوکھا اظہارغم کیا جارہا ہے۔ ہماری پارلیمانی تاریخ میں شاید یہ پہلا اور ’’تاریخی‘‘ موقع ہے کہ بجٹ پر اپوزیشن لیڈر کو اظہارِ خیال کرنےسے روکنے کی اس طرح بے شرمی سے کوشش کی گئی۔ لیکن افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ ’’اس واردات‘‘ میں حکومت اور اپوزیشن دونوں شامل ہیں لیکن یہ بھی واضح ہے کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو خطاب سے روکنے کی کوشش کرنے والے اراکین قومی اسمبلی کا تعلق اپوزیشن سے تو نہیں ہوسکتا۔ البتہ جواب الجواب کے طور پر اپوزیشن نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اس ہلڑ بازی، گالم گلوچ اور ذاتی و جسمانی حملوں سے نہ صرف اس محترم ایوان کا تقدس بری طرح پامال ہوا بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کے امیج کو بھی بہت نقصان پہنچایا گیااور قوم کے اعتماد کو مجروح کیا گیا۔ کیا یہ وہی لوگ نہیں ہیں جن کے ناموں کے ساتھ ٹی وی اسکرینوں اور اخبارات میں ’’رہنما‘‘ لکھا ہوتا ہے۔ کیا رہنما ایسے ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کو ننگی گالیاں دیتے اور ایک دوسرے کے گریبان پکڑتے ہیں،جو بازاری انداز میں گفتگو کرتے اور ایک دوسرے پر آوازے کستے ہیں؟ شاید ہمیں ابھی تک ’’رہنما‘‘ کے معنی معلوم نہیں ہوسکے۔ یہاں چند لوگوں کو کسی بھی طرح اپنے ساتھ ملائو یا کسی بھی جماعت میں شامل ہوکر دوسرے دن رہنما کہلائے جائو۔ جو کچھ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں ہوتا رہا ہے وہ تو روایت بن چکی ہے لیکن جو کچھ رواں اجلاس میں ہوا اور مسلسل چار دن سے ہورہا ہے یہ ’’تاریخی‘‘ ہے۔ اگر قوم کے رہنما ایسے لوگ ہیں تو پھر حضرت قائداعظم محمد علی جناح، ان کے محترم ساتھیوں، پاکستان کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے والوں اور حضرت علامہ اقبال کو کس خطاب اور نام سے یاد کریں۔ ان کو کونسا خطاب دیں۔ رہنما بس وہی تھے۔ رہنما قوم کو سیدھا اور سچا راستہ دکھاتے ہیں خود اپنے عمل اور کردار سے اس اہم منصب کے لئے اپنے آپ کو اہل ثابت کرتے ہیں اور ملک وقوم کو اس کی منزل تک پہنچا دیتے ہیں۔ لیکن جو کچھ نہ صرف قوم بلکہ پوری دنیا ان دنوں اس اجلاس میں دیکھ رہی ہے، اس میں ان لوگوں نے ثابت کیا کہ یہ ملک و قوم کی کشتی چلانے والے راہ بھٹک کر آپس میں دست و گریباں ملاح ہیں رہنما نہیں۔

دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ نہ تو جناب وزیراعظم نے اپنے ارکان کو اس ہلڑ بازی سے منع کیا نہ ہی اپوزیشن لیڈر نے ساتھی اراکین کو صبر کی تلقین کی۔ قوم کے مسائل اجاگر کرنے کے لئے اس پر بات کرنے سے اپوزیشن لیڈر کو اس ڈھٹائی سے روکنا کونسی جمہوریت ہے۔ اس طرح حکومت کو بجٹ کے بارے میں وضاحت اور اس میں عوامی مسائل کے حل کے لئے کئے جانے والے اقدامات اور ترجیحات کی تفصیلات پیش نہ کرنے دینے میں قوم کی کونسی بھلائی پوشیدہ ہے۔ دونوں طرف سے جو کچھ ہورہا ہے خدا جانے اس میں کونسی جمہوری حکمت پنہاں ہے۔ یہ البتہواضح ہوگیا ہے کہ دونوں طرف برابر لگی ہوئی آگ کا مقصد صرف اور صرف ایک دوسرے کو نیچا دکھانا اور اپنی اپنی انا کی تسکین ہے، قوم جائے بھاڑ میں۔ وہی قوم جس کے ہر دن ہر اجلاس پر کروڑوں روپے ’’ضائع‘‘ کئے جارہے ہیں۔ یہ اسی نام نہاد جمہوریت کا صلہ اور پھل ہے جس کے شیدائی کہتے ہیں کہ بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت بہتر ہے۔ یہ منطق آج تک سمجھ نہیں آسکی کہ بہترین سے بدترین کس طرح بہتر ہوسکتا ہے۔ یہ تو قوم کو گمراہ کرنے کا نعرہ ہی ہوسکتا ہے۔ جس میں چند افراد کی ’’بہتری‘‘ پوشیدہ ہے لیکن آج تک اس میں قوم کی بہتری اس طرح نظر ہی نہیںآئی جس طرح بیان کی جاتی رہی ہے۔ چند لوگوں کے تو اس نام نہاد جمہوریت میں فوائد بے شمار ہیں باقی شاید بیگانی شادی میں دیوانے بنے رہتے ہیں۔

قوم یہ تماشے دیکھ دیکھ کر اور یہ نعرے سن سن کر اکتا گئی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ جمہوریت اور جمہوری حکومتوں کے نام پر جمہوری حکمرانوں نے کس کس طرح اس قوم کی دولت کو لوٹا اور یہ سلسلہ مختلف طریقوں سے جاری ہے۔ کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اس ملک کو صدارتی نظام کی طرف لے جارہے ہیں۔ یہ تو وزیراعظم کا اس ملک و قوم پر بڑا احسان ہوگا۔ یہ سب جانتے ہیں کہ اس ملک میں صرف ایک بار مضبوط صدارتی نظام مرحوم ایوب خان کے دور میں رہا۔ جس کو چلنے نہیں دیا گیا وہ عزت دار اورخاندانی آدمی تھے اس لئے اقتدار سے الگ ہوگئے لیکن تھوڑے عرصے بعد قوم ہی ان کے دور کو ’’سنہرا دور‘‘ کے نام سے یاد کرنے لگی۔ حتیٰ کہ ٹرکوں کے پیچھے ان کی تصویر کے نیچے لکھوایا گیا ’’تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد‘‘۔ پرویز مشرف نے اپنے دور میں کتنی لوٹ مار کی اور ملک و قوم کو کتنا نقصان پہنچایا کوئی اس کی تفصیلات بھی تو سامنے لائے۔ اس تحریر سے کوئی ناراض نہ ہو۔ یہ وہ سچ ہے جو پوری قوم جانتی ہے۔ قوم کا خیرخواہ ہر سیاستدان بھی یہ مانتا ہےکہ مضبوط صدارتی نظام ہی تمام خرابیوں کو ختم کرنے کی ویکسین ہے۔ ہم ملک و قوم کی بہتری کے لئے کوشاں و دعا گو ہیں۔

’’دعا شاکر تو منگی رکھ، دعا جانے خدا جانے‘‘