پانی سر سے اونچا ہونے کو ہے

July 04, 2013

پانی سر سے اونچا ہو جائے تو سانس روکنی پڑتی ہے ، سانس اکھڑ جائے تو پھر غوطے لگتے ہیں اور انسان زندگی بچانے کیلئے ہاتھ پاؤں مارتا ہے اور گہرے پانی سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ہم پاکستانی بحیثیت قوم اس وقت پانی کو سر سے اونچا ہوتا دیکھ رہے ہیں اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہم اپنی سانس اکھڑنے کا انتظار نہ کریں بلکہ غوطوں کی نوبت آنے سے پہلے ہی خود کو گہرے پانیوں سے نکالیں ۔ مرکز اور صوبوں میں نئی حکومتیں آ چکی ہیں لیکن حالات نہیں بدل رہے ۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف اور بلوچستان میں نیشنل پارٹی کے وزرائے اعلیٰ کو خود کش حملوں کی نئی لہر کا سامنا ہے۔ اس صورتحال میں مرکزی حکومت خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کر سکتی اور اس لئے کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹاؤن میں حالیہ خودکش حملے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے ایک روایتی دورہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کی موجودگی میں خفیہ اداروں کے سربراہوں کو ہدایت کی کہ وہ کوئٹہ میں دہشت گردی کے ذمہ داروں کا جلد از جلد سراغ لگائیں۔ نواز شریف 12جولائی کو اسلام آباد میں چاروں وزرائے اعلیٰ اور اہم سیاسی قائدین کو بلا کر دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے ایک متفقہ حکمت عملی بھی وضع کرنا چاہتے ہیں ۔ سب سیاسی قائدین کو اعتماد میں لیکر خفیہ اداروں اور سکیورٹی ایجنسیز کو ایک لائن آف ایکشن دی جائے گی ۔کم از کم کوئٹہ اور بلوچستان کیلئے لائن آف ایکشن کے ساتھ ساتھ ٹائم فریم دینے پر بھی غور کیا جائے گا اور اگر خفیہ ادارے مخصوص ٹائم فریم میں دہشت گردوں کا سراغ نہ لگا سکے تو ان خفیہ اداروں کے سربراہان کو تبدیل کر دیا جائے گا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کوئٹہ میں ہونے والی دہشت گردی خیبر پختونخوا اور فاٹا میں ہونے والی دہشت گردی سے مختلف ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ کوئٹہ سے کراچی اور پشاور سے شمالی وزیرستان تک جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کا تعلق افغانستان کے حالات سے ہے ۔ پچھلے دس سال کے دوران افغانستان کے صدر حامد کرزئی ایک سے زائد مرتبہ یہ الزام لگا چکے ہیں کہ افغان طالبان کے امیر ملا محمد عمر مجاہد کوئٹہ میں چھپے ہوئے ہیں ۔ کرزئی اپنے الزام کی سچائی ثابت کرنے کیلئے کبھی کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے کوئٹہ کے آس پاس بالواسطہ طور پر ایسے گروپوں کو اسلحہ اور رقم مہیا کی جنہوں نے کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر حصوں میں تخریبی سرگرمیاں شروع کر دیں۔ کئی لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے ریاستی اداروں نے ان تخریب کاروں کے مقابلے کیلئے مقامی نوجوانوں کے لشکر تیار کرنے شروع کر دیئے اور یہی وہ لشکر ہیں جو اب ریاستی اداروں سے زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کو قومی مفاد کا تقاضا قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک اور سنیٹر حاصل بزنجو ایسے لشکروں اور انکے سربراہوں کو بڑی اچھی طرح جانتے ہیں ۔ انہوں نے صرف کاغذ کی ایک پرچی پر ان پرائیویٹ لشکروں کے کمانڈر صاحبان کے نام لکھ کر وزیر اعظم کو دینے ہیں ۔ وزیراعظم نے یہ نام خفیہ اداروں کے سربراہوں کو دینے ہیں اور چند گھنٹوں میں پتہ چل جائے گا کہ یہ خفیہ ادارے سیاسی قیادت کے کنٹرول میں ہیں یا نہیں؟
صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی خواہاں ہے۔ اس معاملے پرتحریک انصاف کی قیادت کو دو بڑے مسائل کا سامنا ہے ۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی قیادت قبائلی علاقوں میں روپوش ہے اور قبائلی علاقے مرکزی حکومت کے کنٹرول میں ہیں ۔ تحریک طالبان پاکستان کی قیادت سے مذاکرات کیلئے مرکزی اور صوبائی حکومت کو ایک متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا ۔دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں کئی مسلح گروپ تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کو نہیں مانتے ۔ یہاں پر بھی کچھ طالبان سرکار کے مخالف ہیں اور کچھ طالبان سرکار کے اطاعت گزار ہیں ۔ مرکزی اور صوبائی حکومت کو تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر سب سے پہلے قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں حکومت کے برسرپیکار اور حکومت کی طرف سے طالبان کے ساتھ لڑنے والے مختلف گروپوں اور امن لشکروں کی فہرست بنانی ہو گی۔ یہ طے کرنا ہو گا کہ کس علاقے میں کون سا گروپ کیا کر رہا ہے اور اگر وہ مذاکرات کرنا چاہتا ہے تو کس حد تک سنجیدہ ہے ؟ مثال کے طور پر ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ قبائلی علاقوں میں حکومت کے خلاف کارروائیوں کا آغاز تو 2003ء میں ہوا لیکن تحریک طالبان پاکستان دسمبر 2007ء میں بنائی گئی اور اسکی تشکیل کے پیچھے لال مسجد اسلام آباد کا آپریشن کارفرما تھا ۔ دسمبر 2007ء میں بیت اللہ محسود کی قیادت میں عسکریت پسندوں کے کئی مضبوط گروپ اکٹھے ہو گئے تھے لیکن امریکی ڈرون حملے میں بیت اللہ محسود کی موت کے بعد یہ گروپ بکھر چکے ہیں ۔
شمالی وزیرستان میں حکیم اللہ محسود تحریک طالبان پاکستان کے نئے امیر کے طور پر متحرک ہیں لیکن اس علاقے میں حافظ گل بہادر کا گروپ تحریک طالبان پاکستان سے علیحدہ ہو چکا ہے اور پولیٹیکل انتظامیہ کے ساتھ خاموش امن معاہدے پر عمل پیرا ہے ۔ شمالی وزیرستان میں امریکی ڈرون حملوں کا نشانہ صرف حکیم اللہ محسود کا گروپ نہیں بلکہ حافظ گل بہادر کا گروپ بھی ہے ۔ شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک بھی موجود ہے جو افغانستان میں سرگرم ہے اور درپہ خیل کے علاقے میں اکثر ڈرون حملوں کا نشانہ حقانی نیٹ ورک کے عسکریت پسند بنتے ہیں ۔ جنوبی وزیرستان میں مولوی نذیر گروپ حکومت کا حامی اور ولی الرحمان گروپ حکومت کا مخالف ہے لیکن امریکہ دونوں گروپوں کے خلاف ہے ۔ اورکزئی اور کرم ایجنسی میں طالبان گروپوں کے علاوہ مہدی ملیشیا اور حیدری گروپ بھی موجود ہے جو شیعہ عسکریت پسندوں پر مشتمل ہے ۔ خیبر ایجنسی میں منگل باغ کی قیادت میں لشکر اسلام کو ریاستی اداروں نے طالبان کے خلاف کھڑا کیا لیکن بعدازاں منگل باغ طالبان کا ساتھی بن گیا ۔ ریاستی اداروں نے یہاں انصار الاسلام اور امر باالمعروف ونہی عن المنکرنامی گروپوں کو طالبان کے خلاف استعمال کیا لیکن طالبان نے آخرالذکر گروپ کے سربراہ حاجی نامدار کو خودکش حملے میں مار دیا ۔ پشاور کے آس پاس ہونے والی اکثر کارروائیوں میں منگل باغ کے ساتھی ملوث ہیں جو ریاستی اداروں کے خلاف جہاد نہیں کر رہے بلکہ انتقامی کارروائیوں میں مصروف ہیں کیونکہ منگل باغ کا خیال ہے کہ اداروں نے اسے استعمال کیا پھر غدار قرار دیدیا ۔ منگل باغ کا اتحادی ضرور ہے لیکن اس کے ساتھ علیحدہ سے مذاکرات کرنے پڑیں گے ۔ مہمند ایجنسی میں عمر خالد عرف عبدالولی کا گروپ اپنی مرضی سے کارروائیاں کرتا ہے اور حکیم اللہ محسود کے نظم وضبط سے بالکل علیحدہ ہے ۔ باجوڑ میں مولوی فقیر محمد اور ضیاء الرحمان کے گروپ حکیم اللہ محسود سے روابط تو رکھتے ہیں لیکن آج کل افغان حکومت کے اثر میں ہیں ۔ سوات میں مولانا فضل اللہ کا گروپ آج کل مشرقی افغانستان کے پہاڑوں میں روپوش ہے ۔ کراچی میں طالبان کے کئی گروپ ہیں اور اس کے علاوہ کالعدم لشکر جھنگوی کے تین گروپ ہیں جو طالبان کے اتحادی ہیں ۔ ان سب گروپوں کو ایک ساتھ مذاکرات کی میز پر لانا خاصا مشکل ہے ۔ خیبر پختونخوا حکومت اور مرکزی حکومت کوشش کرکے دیکھ لے۔ اگر یہ تمام گروپ پاکستان کے آئین کے اندر رہتے ہوئے حکومت کے ساتھ مذاکرات پر راضی ہو جائیں اور امن کا راستہ اختیار کر لیں تو ہم سب کو خوشی ہو گی بصورت دیگر صوبے اور مرکز کی حکومتوں کو مل کر سکیورٹی ایجنسیز کو حکم دینا پڑے گا کہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں جلد از جلد ریاست کی عملداری قائم کی جائے ۔