دبستانِ شعر

July 05, 2021

یمین الدین امیر خسرو

اُردواور ہندوی کے پہلے شاعر، حضرت نظام الدین اولیا کے شاگرد اور ماہر موسیقی، اپنی ’ پہیلیوں‘ کے لئے مشہور تھے، جو ہندوستانی لوک ادب کا حصہ ہیں، طبلہ اور ستار جیسے اہم ساز ایجاد کئے۔ ’ زحال مسکیں مکن تغافل‘ جیسی غزل لکھی، جسے اردو، ہندوی شاعری کا نقش اول کہا جاتا ہے۔یہ زبان ریختہ کی پہلی غزل ہے جو امیر خسرو سے منسوب ہے جس کا پہلا مصرع فارسی میں ہے اور دوسرا مصرع ہندوی میں۔ یہ ایک انتہائی مشہور عشقیہ غزل ہے، عام طور سے اسے قوالی کے طور پر گایا جاتا ہے۔

زحال مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں

کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں

شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلت چوں عمر کوتاہ

سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم بہ برد تسکیں

کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں

چوں شمع سوزاں چوں ذرہ حیراں ز مہر آں مہ بگشتم آخر

نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں

بحق آں مہ کہ روز محشر بداد مارا فریب خسروؔ

سپیت من کے دورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں

(انتخاب: محمد عثمان)

میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں

…شکیب جلالی…

میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں

مرجھا کے آ گرا ہوں مگر سرد گھاس میں

سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح

دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں

صحرا کی بود و باش ہے اچھی نہ کیوں لگے

سوکھی ہوئی گلاب کی ٹہنی گلاس میں

چمکے نہیں نظر میں ابھی نقش دور کے

مصروف ہوں ابھی عمل انعکاس میں

دھوکے سے اس حسیں کو اگر چوم بھی لیا

پاؤ گے دل کا زہر لبوں کی مٹھاس میں

تارہ کوئی ردائے شب ابر میں نہ تھا

بیٹھا تھا میں اداس بیابان یاس میں

جوئے روان دشت ابھی سوکھنا نہیں

ساون ہے دور اور وہی شدت ہے پیاس میں

رہتا تھا سامنے ترا چہرہ کھلا ہوا

پڑھتا تھا میں کتاب یہی ہر کلاس میں


کانٹوں کی باڑ پھاند گیا تھا، مگر شکیبؔ

رستہ نہ مل سکا مجھے پھولوں کی باس میں

ابھی کچھ دن لگیں گے

…افتخار عارف…

ابھی کچھ دن لگیں گے

دل ایسے شہر کے پامال ہو جانے کا منظر

بھولنے میں

ابھی کچھ دن لگیں گے

جہان رنگ کے سارے خس و خاشاک

سب سرو صنوبر بھولنے میں

ابھی کچھ دن لگیں گےتھکے ہارے ہوئے خوابوں کے ساحل پر

کہیں امید کا چھوٹا سا اک گھر بنتے بنتے رہ گیا ہے

وہ اک گھر بھولنے میں

ابھی کچھ دن لگیں گے

مگر اب دن ہی کتنے رہ گئے ہیں

کسی دن دل کی لوح منتظر پر اچانک

رات اترے گی

میری بے نو آنکھوں کے خزانے میں چھپے

ھر خواب کی تکمیل کر دے گی

مجھے بھی خواب میں تبدیل کر دے گی

اک ایسا خواب جس کا دیکھنا ممکن نہیں تھا

اک ایسا خواب جس کے دامن صد چاک میں

کوئی مبارک کوئی روشن دن نہیں تھا

ابھی کچھ دن لگیں گے

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔

خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی