انگریز سامراج کے خلاف حر تحریک کا ہیرو

July 06, 2021

میں اس موضوع پر اپنے پچھلے کالم میں لکھ چکا ہوں کہ سندھ دھرتی کے دو مختلف رُخ ہیں۔ اس کا ایک رُخ تو یہ ہے کہ سندھ امن کی دھرتی ہے،سندھ کی صدیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ سندھ کے عوام انسان دوست رہے ہیں،انہوں نے نہ کسی سے تعصب کیا نہ لسانیت یا نسل پرستی کی بنیاد پر کسی سے نفرت کی، سندھ کا یہ رخ ابھی تک قائم ہے جہاں تک سندھ کے دوسرے رخ کا تعلق ہے تو میں یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہوں گا کہ اس مرحلے پر بھی سندھ کی صدیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ جس بھی سامراجی قوت نے سارے سندھ پر یا سندھ کے ایک یا ایک سے زیادہ حصوں پر جبر اور بارود کے زور پرقبضہ کیا تو سندھ نے ان قوتوں سے ایسی جنگیں لڑیں کہ یا تو ان کو انگریزوں کی طرح نہ صرف سندھ مگر سارے برصغیر کو چھوڑ کر جان بچاکر بھاگنا پڑا یا دوسری سامراجی قوتوںسے شکست کھاکر سندھ سے بھاگنا پڑا یا شکست کو تسلیم کرکے اپنا آقا تسلیم کرکے یہاں وقت گزارنا پڑا اور وہ یہاں کے شہری ہوگئے۔ میرے پاس اس سلسلے میں کافی حقائق ہیں جو اس کالم کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ میں نے سب سے پہلے انگریز سامراج سے سندھ کی جنگ کا ذکر کیا ہے،انگریز سامراج کے خلاف یہ جنگ سندھ سے تعلق رکھنے والے حروں نے اپنے مرشد یعنی اپنے وقت کے پیر پگارا کی قیادت میں لڑی ۔ پچھلے کالم میں حر تحریک کے بارے میں لکھی گئی ایک کتاب کے حوالے سے اس بات کا ذکر بھی کیا تھاکہ انگریز سامراجیت کے خلاف حر تحریک کی جنگ سو سال تک جاری رہی۔ ان میں سے میں فی الحال تین پیر پگاروں کی قیادت میں انگریز سامراج کے خلاف حر تحریک کی جنگ کا ذکر کرنا چاہوں گا۔

ان میں پیر پگارا پیر علی گوہر شاہ کے دور میں انگریز سامراج کے خلاف حر تحریک 1890 ء سے 1897 ء تک چلی اور پیر پگارا پیر شاہ مردان شاہ کے دور میں یہ جنگ 1897 ء سے 1921 ء تک جاری رہی جبکہ پیر پگارا پیر صبغت ﷲ شاہ راشدی کے دور میں یہ جنگ 1921 ء سے 1943 ء تک چلی جب آخر کار انگریز سامراج کو حروں کے ہاتھوں شکست تسلیم کرکے سندھ تو کیا سارے ہندوستان سے راہِ فرار اختیار کرنا پڑی۔ پیر صبغت ﷲ شاہ راشدی کے خلاف انگریز سامراج کی یہ جارحیت جب شروع ہوئی تو پیر صاحب ابھی چھوٹی عمر کے تھے مگر وہ شروع سے انگریز سامراج کے سامنے جھکنے کا رویہ اختیار کرنے کے خلاف تھے، اس وجہ سے انگریز سامراج اُن کے سخت خلاف ہوگیا حالانکہ اس وقت پیر صاحب کی عمر 35 سے 40 سال کے درمیان تھی۔ یہاں مختصر طور پر پیر صبغت ﷲ کے ذکر سے بات شروع کرتا ہوں۔ انگریز سامراج نے من گھڑت اور جھوٹے شواہد پر پیر صاحب کے خلاف مقدمات داخل کئے۔ایک مقدمے میں انہیں ڈرانے کے لئے ہندوستان کی دور دراز کی جیلوں میں رکھا گیا۔ پیر صبغت ﷲ شاہ راشدی چھوٹی عمر ہونے کے باوجود بہادر اور نڈر تھے۔ان کی جب ساری روداد شائع ہوگی تو پڑھنے والے خود اس رائے کے قابل ہو جائیں گے کہ پیر صبغت ﷲ شاہ راشدی نہ صرف سندھ بلکہ برصغیر کے ہیرو تھے۔

پیر صاحب جس طرح اپنی درگاہ میں اپنا کام خود کرنے کے عادی تھے اسی طرح جیل میں بھی ہر نئے کام کو شوق سے سیکھتے تھے۔ کچھ ایسے حقائق بھی سامنے آئے ہیں کہ پیر صاحب شطرنج کے بڑے ماہر کھلاڑی تھے،انہوں نے جیل میں بھی کبھی شطرنج کی بازی نہیں ہاری۔ بعد میں جب انہیں ایک اور جھوٹے کیس میں پھانسی کی سزا سناکر حیدرآباد جیل لایا گیا تو وہاں بھی وہ شوق سے روزانہ رات کو شطرنج کھیلتے تھے اور کبھی شطرنج کی بازی نہیں ہاری ۔یہاں تک کہا جاتا ہے کہ جس رات ان کو پھانسی دی گئی تو اس رات بھی انہوں نے شوق سے شطرنج کھیل کرساری بازیاں جیتیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ پیر صاحب کو انگریز سامراج کی ہدایات کے تحت پھانسی تو دیدی گئی مگر ان کی لاش لاپتہ مقام پر دفن کردی گئی، ان کی قبر کا آج تک پتہ نہیں چلا۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)