دلیپ کمار: نسلوں کا ہیرو

July 08, 2021

11دسمبر 1922کو پشاور کے قصہ خوانی بازار سے ملحق محلہ خداداد کی ڈوما گلی میں جنم لینے والا بچہ محمد یوسف خان، قدرت کا انمول شاہکار، جو اپنی فنی صلاحیتوں، سچی لگن اور محنت سے انڈین فلم انڈسٹری کا آفتاب بن کر جگمگایا، دلیپ کمار کی حیثیت سے نسلوں کا ہیرو کہلایا اور اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں منوایا۔ حکومتِ ہند نے انہیں اپنے سب سے بڑے فلمی ’’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘‘ سے نوازا تو حکومتِ پاکستان نے اپنا سب سے بڑا سویلین ایوارڈ ’’نشانِ پاکستان‘‘ ان کی نذر کیا لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس آفتابِ فن کی روشنی میں تمام تر ایوارڈز کی چمک ماند پڑتی دکھائی دیتی ہے، شاید دلیپ کمار کی زندگی کا سب سے بڑا ایوارڈ کروڑوں انسانوں کی ان کے ساتھ وہ والہانہ محبت ہے جو کئی نسلوں پر محیط ہے جو مذہبی، نسلی، لسانی یا جغرافیائی سرحدوں سے ماورا ہے۔

درویش نے 1988میں، جب دلیپ صاحب پاکستان تشریف لائے تھے، ان پر ایک مضمون لکھا تھا جو اس وقت ایک ادبی میگزین میں شائع ہوا ’’دلیپ کمار! عظمت کا شاہ بلوط‘‘ اس کے جو الفاظ یاد ہیں ان میں ایک بات یہ تھی ’’لوگ کہتے ہیں کہ دلیپ کمار بہت بڑا اداکار ہے میں کہتا ہوں جھوٹ، اداکار بہت چھوٹا لفظ ہے، اتنا چھوٹا ہے کہ دلیپ کمار اس میں سما ہی نہیں سکتا۔ آپ اسے سماجی مصلح کہئے جو نسلوں پر اثرانداز ہوا جس نے دکھی انسانوں کے دلوں پر مرہم لگایا، زندگی سے اکتائے ہوئے لوگوں کو ایک نئی امید دلائی، وہ جس روپ میں بھی ہو لگتا ہے پیدا ہی اسی روپ میں ہوا تھا۔

چند برس قبل عصر حاضر کی پانچ محبوب ترین شخصیات کے حوالے سے مضمون تحریر کیا تھا افسوس یہ سب یکے بعد دیگرے راہئی ملک عدم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ صرف ایک شخصیت باقی ہے، قدرت اس کی نگہبانی فرمائے۔ بلاشبہ موت برحق ہے جس سے کسی کو بھی مفر نہیں، جو پیدا ہوا ہے اسے ایک دن جانا ہے۔ دلیپ کمار سے بڑھ کر کیا مثال دی جا سکتی ہے۔ اتنی محبت بھری طویل اور بھرپور زندگی کس کو نصیب ہوئی ہو گی مجھے ان کی موت کا افسوس نہیں ہے، نہ یہ کہوں گا کہ ان کے جانے سے انڈین فلم انڈسٹری میں کوئی ایسا خلا پیدا ہو گیا جو کبھی پر نہیں ہو سکے گا، سب خلا پُر ہو جاتے ہیں، قدرت نئے سے نئے اَن گنت پھول اگاتی ہے جو اپنی مدت گزارتے ہیں اور پھر نئے پھول آ جاتے ہیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ آپ کو دنیا کے اس اسٹیج پر کارکردگی دکھانےکا جو محدود دورانیہ ملا ہے، آپ نے اس میں کون سے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ دلیپ کمار نے اہلِ فن کو ہمیشہ کیلئے مسحور کئے رکھا، پرتھوی راج کپور اور دادا سے لیکر نئی نسلوں کے محبوب اداکار شاہ رخ خاں تک سب کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا۔ مابعد آنے والے بڑے سے بڑے فنکاروں نے فن کے اس دیوتا کی عظمت کے سامنے سرنگوں ہونے میں کبھی تساہل یا بخل سے کام نہیں لیا، اسے اپنا گرو اور استاد مانتے ہوئے آگے بڑھے۔

دلیپ کمار کی فلموں کے تقابلی جائزے یا فنی محاسن کی بحث چھیڑی جائے گی تو کالم کی تنگنائی آڑے آ جائے گی۔ مثال کے طور پر دیو داس تین مرتبہ بنی، دلیپ صاحب کے علاوہ کے ایل سہگل اور شاہ رخ خان نے بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے، درویش نے تینوں کا باریکی سے جائزہ لیا بلاشبہ زمانی و تکنیکی ارتقاء سے انکار نہیں جیسے سیٹ شاہ رخ کو ملے ان کا کوئی تقابل نہیں مگر دیو داس کے رول میں جس طرح دلیپ کمار ڈھلا ہے، وہ بے مثال ہے۔ جوار بھاٹا اور جگنو سے شروع ہو جائیں مغلِ اعظم، دیدار، انداز، جوگن، میلہ، ملن، سنگ دل، داغ، آن، نیا دور، ترانہ، مدھومتی رام اور شیام، دل دیا درد لیا، مشعل، مزدور، لیڈر، آزاد، یہودی، کوہ نور، گنگا جمنا، مسافر، گوپی، امر، داغ، اڑن کھٹولا، داستان، ودہاتا کس کس کی بات کریں ’’آدمی‘‘ جو بطور ہیرو ان کی آخری فلم تھی کیا بات ہے ہر فلم گویا ایک شاہکار ہے۔

وہ فلموں میں کیسے آئے دیویکا رانی کی نظریں ان کی خوابیدہ صلاحیتوں پر کس طرح جم گئیں، ان سب کی تفصیلات تو ان کی خود نوشت میں موجود ہیں۔درویش کو تو یہ عرض کرنا ہے کہ ایک طرف اگر وہ اپنی آرٹسٹک صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے پنڈت جواہر لعل نہرو سے لیکر عام سے عام انڈین شہری تک کے ہیرو بنے رہے تو دوسری طرف وہ ہندو مسلم منفی امتیازات کو مٹاتے ہوئے عمر بھر ایک برج کا سچا رول پوری جانفشانی کے ساتھ ادا کرتے رہے ان کی ذاتی زندگی میں کچھ محرومیاں بھی آئیں مگر عامتہ الناس سے وہ خندہ پیشانی سے ملتے ہوئے ہمیشہ مسکراتے رہے ۔گویا ان کا دردولت تہذیبوں کاسنگم تھا اردو ہندی ادیب ہمیشہ ان کے گن گاتے رہے اور اپنے ادبی پروگراموں کی رونق بڑھاتے رہے۔ سیاسی طور پر وہ راجیہ سبھا میں بھی پہنچے بلاتمیز مذہب و فرقہ خواص و عوام نے ان سے اتنی محبت کی جو انمول اور بے مثال ہے، انڈین فلم انڈسٹری میں کون ہے جس نے انہیں گلہائے عقیدت پیش نہ کئے ہوں۔

سچی بات ہے تمام تر محبتوں کے باوجود ان دنوں سوشل میڈیا پر ان کی بڑھاپے اور کمزوری والی تصاویر دیکھ کر دل دکھتا تھا اور تمنا ہوتی تھی کہ کاش کوئی سائرہ بانو کو سمجھائے کہ یہ سلسلہ بند کریں ناچیز نے 88میں انہیں ملنے کیلئے جو بے تابی دکھائی وہ بھی ایک کہانی ہے اور پھر 93یا 94میں ایک ٹریننگ کورس کے سلسلے میں پشاور یونیورسٹی قیام کا موقع ملا تو اجنبی شہر میں سب سے بڑی زیارت محلہ خدا داد کی ڈوماگلی میں اپنے ہیرو کا وہ گھر تھا جس میں اس وقت بادشاہ خان نامی صاحب رہائش پذیر تھے وہاں کیسے پہنچا یہ سب تحریر کرنے کو دل چاہ رہا ہے ہم سب کے پی حکومت کے شکر گزار ہیں جس نے دلیپ کمار اور راج کپور صاحبان کے گھروں کو میوزیم بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

آج ہمارے لیجنڈ ہیرو دلیپ کمار ہندو جا اسپتال سے جوہو قبرستان میں منوں مٹی تلے جا چکے ہیں، اُن کی حالیہ زندگی اذیت سے بھرپور تھی، ان کے تمام کردار آج دماغ کی اسکرین پر تیزی سے چل رہے ہیں، وہ اپنے جاندار کرداروں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔