نئی انتخابی اصلاحات اور الیکشن کی شفافیت

July 12, 2021

تحریک انصاف کی حکومت نے 10جون کو ایک ایسے متنازع انتخابی اصلاحات کے بل کو جلد بازی میں قومی اسمبلی سے منظور کروا لیاہے، جس میں نہ تو الیکشن کمیشن اور نہ ہی حزب اختلاف کی رائے کوشامل کیا گیا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار الیکشن کمیشن نے باضابطہ طور پر خط لکھ کر حکومت کو باور کروایا ہے کہ 2017ء کے الیکشن ایکٹ میں مجوزہ تبدیلیاں نہ صرف آئین کی 13شقوں سے متصادم ہیں، بلکہ اس قانون کے ذریعے الیکشن کمیشن کے اختیارات کو محدود کیا گیا ہےجس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ ضمنی انتخابات میں پے در پے شکستوں کے بعد حکومت ایسی انتخابی اصلاحات لانا چاہتی ہے جس سے وہ ہر قیمت پر اگلا الیکشن جیت سکے۔عمران خان اس وقت ان انتخابی اصلاحات کے ذریعے دو معاملات میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں ۔ایک تو وہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوںکو آئندہ الیکشن میں ہر قیمت پر ووٹ کا حق دینا چاہتے ہیں اور دوسری طرف جلد بازی میں پاکستان میں الیکٹرونک ووٹنگ کا نظام متعارف کرانا چاہتے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق 2018ء کے الیکشن میں 53سیٹیں ایسی تھیں جو دس ہزار ووٹوں کے فرق سے جیتی گئی تھیںاورتحریک انصاف کا خیال ہے کہ انکی پرفارمنس کیسی بھی کیوں نہ ہو ، اگر نوے لاکھ اوورسیز پاکستانیوں کوای ووٹنگ کا حق مل جائے تو 2023ء کے الیکشن میں انہیں مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔لیکن یہاں وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ 2018ء کے الیکشن میں آر ٹی ایس کا نظام بھی خراب ہو گیاتھااورقوتوں نے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ان کی مدد بھی کی تھی۔پاکستان کی انتخابی تاریخ شاہد ہے کہ ہر الیکشن میں ان قوتوں کی منشا تبدیل ہوتی رہتی ہے جس کا ایک اظہار حال میں ہی کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقے بلدیہ کے ضمنی الیکشن میں دیکھنے میں آیا، جس میںتحریک انصاف پہلی پوزیشن سے چھٹے نمبر پر چلی گئی اور چھٹے نمبر والی پارٹی جیت گئی۔اس لیے ماہرین کی رائے ہے کہ اپنی انہونی خواہشات کی تکمیل کے لیے آئین اور الیکشن کمیشن کے ادارے کے ساتھ کھلواڑنہ کیا جائے ۔

پچھلے دنوں پلڈاٹ نے الیکشن ریفارمز کے بارے میںایک آن لائن کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں پاکستانی و بین لاقوامی ماہرین نے ای ووٹنگ اور الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا پس منظر پیش کیا۔ انہوں نے اپنی مفصل رپورٹس میں اس نظام کی مخالفت کی ہے جس پرموجودہ حکومت نے اسپین کے ایک ادارے سے بھاری فیس ادا کرکے رائے بھی لی تھی۔ الیکٹرونک مشینز کے بین الاقوامی ماہر عاطف مجید نےکہا کہ دنیا میں 92فیصد ممالک میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا استعمال نہیں ہو رہااور باقی جن ممالک میں یہ نظام رائج بھی ہے ، وہاں بھی یہ نظام ٹیسٹ ،ٹرائل اورپائلٹ پروجیکٹس سے گزرتا ہواکافی برسوںمیں ارتقاء پذیر ہواہے۔سابق بھارتی الیکشن کمشنرایس وائی قریشی نے بھی اس کانفرنس میں مقالہ پیش کیا اور بتایا کہ ہندوستان کی 74سالہ تاریخ میںسترہ جنرل الیکشن اور چار سو ریاستی الیکشن اپنی مقررہ تاریخ پر ہی کروائے گئے ہیں۔ الیکشن سے پہلے الیکشن کمیشن ان تمام سول سرونٹس کو تبدیل کر دیتا ہے جن پر اپوزیشن اعتراض کرتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ ہندوستان میں 1989ء میں الیکٹرونک ووٹنگ کا قانون پا س کیا گیا اور چھوٹے بڑے پائلٹ پروجیکٹس کرنے کے بعد پہلی دفعہ 2004ء میں لوک سبھا کے الیکشن میں الیکٹرونک ووٹنگ کا استعمال کیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ ہندوستان میں 2011ء میں اوور سیزووٹنگ کا قانون پاس کیا گیا اور آج بھی اوورسیز شہریوں کو ووٹر لسٹ بنانے کے بعد ہی پوسٹل بیلٹ بھیجے جاتے ہیں اور یوں وہ خود ہندوستان آکر اپنے اپنے حلقوں میں ووٹ ڈالتے ہیں۔ بھارت میں 2020ء سے اوورسیز پوسٹل بیلٹ کو الیکٹرونکلی ٹرانسمٹ کرنے کے بارے میں غوروخوض جا ری ہے مگراس کی تاحال اجازت نہیں ملی۔ انہوں نے سفارت خانوں میں پولنگ اسٹیشن بنانے کی مخالفت بھی کی ۔یاد رہے کہ ہندوستان کا آئی ٹی سیکٹر 2ہزار بلین ڈالرز کی سالانہ ایکسپورٹ کرتا ہے اور اس کے مقابلے میں پاکستان صرف 1بلین ڈالر سالانہ ایکسپورٹ کرتا ہے۔ اگر آئی ٹی میں اتنے ایڈوانس ملک کو ای ووٹنگ کا نظام قابل قبول نہیں ہے تو پاکستان جیسا ملک اس کا متحمل کیسے ہو سکتا ہے جہاں بہت سے علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت ہی موجود نہیں۔ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں جب تک 5Gانٹرنیٹ کا نظام ملک کے کونے کونے میںمہیانہ ہو،اس وقت تک الیکٹرونک ووٹنگ اور اوور سیز کے لیے ای ووٹنگ کا کوئی جواز نہیں ہے۔

یاد رہے کہ 2018ء کے الیکشن میں 25جولائی 2018ء کی رات کو اعلان کیاگیا کہ آر ٹی ایس کا نظام کولیپس کر گیا ہے ۔ اس نظام کے مطابق گنتی کے فوراََ بعد پچاسی ہزار پولنگ اسٹیشنز سے پولنگ افسران نے پولنگ رزلٹ موبائل ایپ کے ذریعے الیکشن کمیشن کو بھجوانے تھے جس کی انہیں خاصی تربیت بھی دی گئی تھی۔یاد رہے کہ ان الیکشنز سے پہلے نادرا نے ایس ایم ایس کے ذریعے 8300پرکروڑو ں پاکستانیوں کو ان کے پولنگ اسٹیشنزاور ووٹر نمبر کے بارے میں معلومات فراہم کیں اور یہ نظام اتنا متاثر کن تھاکہ نادرا کی اعلیٰ کارکردگی پر اسے انٹرنیشنل ایوارڈ بھی دیا گیا۔ یہاں حیرت کی بات یہ ہے کہ جو نظام دس کروڑ ووٹروں کا دبائو برداشت کر گیا، وہ پچاسی ہزار پولنگ اسٹیشنز کے رزلٹ کا دبائو برداشت نہ کرپایا ؟حالانکہ الیکشن کے بعد نادرا نے وضاحت کی تھی کہ ان کا نظام بالکل ٹھیک کام کر رہا تھا۔افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ تو الیکشن کمیشن نے اس پر آج تک کوئی انکوائری کی اور نہ ہی حزب اختلاف نے اس بارے میں کوئی منظم تحریک چلائی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آزادانہ الیکشن کرانے میںا لیکشن اصلاحات مسئلہ نہیں ہیں بلکہ ان اصلاحات کا ان کی روح کے مطابق اطلاق کروانااصل مسئلہ ہے۔ آ پ کیسی بھی اصلاحات لے آئیں لیکن اگر کوئی اسے سبوتاژ کرنا چاہے تو وہ اصلاحات بے معنی ہو جاتی ہیں ۔