قارئین کیا سوچتے ہیں

July 18, 2021

الطاف حسن قریشی(10جولائی2021) افغانستان میں امن کے قوی امکانات

قریشی صاحب، اِس پراکسی جنگ میں اگر پاکستان کا بھلا چاہا جاتا تو آج مقبوضہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہوتا۔ اگر امریکہ کا ساتھ کشمیر کی شرط پر دیا جاتا تو آج پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات باہمی شراکت داری پر ہوتے نہ کہ محض مالی امداد کے لئے۔ (ایمن مظفر، لاہور)

مظہر برلاس (13جولائی 2021)ہم بہت برے لوگ ہیں

جناب، پاکستانی عوام اب ایسے حالات و واقعات کے عادی ہو چکے ہیں مگر آخر کب تک یہ سب چلتا رہے گا اور ہم خود کے بجائے ملکی نظام کو اس سب کا قصوروار ٹھہرائیں گے؟ (محمد اسماعیل، خانیوال)

انصار عباسی(12جولائی2021)بےراہ روی کے فروغ کا بل

جناب ایسا لگتا ہے کہ اولاد کی تربیت کا ذمہ اب حکومت نے لے لیا ہے۔ ماں باپ کی ڈانٹ ڈپٹ اب موجودہ نسل کے لئے جذباتی اور نفسیاتی تشدد بن گیا ہے۔ مگر حکومت یہ بھول رہی ہےکہ مغربی طرزِ زندگی ہمارے نظام کو تباہ کر دے گا۔ ’کوا چلا تھا ہنس کی چال اپنی بھی بھول بیٹھا‘ والا حساب ہو جائے گا۔

(حسنین نقوی، لاہور)

سلیم صافی (14جولائی2021) طالبان کے عجیب حامی اور مخالف

صافی صاحب، میری نظر میں افغان طالبان ملک میں اتنے مضبوط ہو چکے ہیں کہ زیادہ دیر تک کوئی ان کا مخالف نہیں رہے گا مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ پاکستانی جو ان کے حامی ہیں، اسی نظام کو پاکستان کے لئے درست نہیں سمجھتے۔ (عبدالودود قریشی، ساہیوال)

کشور ناہید (15جوالائی2021) قبرستان سے دسترخوان تک

آپ نے جو قدرتی وسائل کی کمی کے بغیر معاشی ترقی کے طریقے بتائے ہیں وہ قابلِ تعریف ہیں مگر اس سب کو عمل میں لانا اصل مسئلہ ہے جو حکومت اور عوام دونوں کو درپیش ہے۔ (ماہم، ملتان)

ناصر بشیر(15جولائی2021) شہدائے پولیس اور ڈاکٹر امجد ثاقب

جناب آپ نے بجا فرمایا، اس عمل سے ناصرف شہدا کے ورثا کے لئے آسانی ہوگی جس سے ان کی امداد ہوگی بلکہ وہ قومی فرائض کی ادائیگی کے لئے پُرعزم بھی ہوں گے۔ اس طرح شہادت کا جذبہ بھی ہمیشہ قائم رہے گا۔ (سید عارف حسن)