سعودیہ میں قید پاکستانیوں کی واپسی

July 25, 2021

یہ چار سال پہلے کی بات ہے، میں اُن دنوں عمرے کے لئے سعودی عرب میں موجود تھا، عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد کچھ دوستوں سے ملاقات کے لئے چند روز جدہ میں بھی قیام کیا، اِسی دوران پاکستانی قونصلیٹ جانے کا اتفاق ہوا، ابھی ہم قونصلیٹ کے احاطے میں داخل ہی ہوئے تھے اور متعلقہ افسر کے کمرے میں پہنچے بھی نہ تھے کہ اچانک رونے اور بین کرنے کی آواز نے سب کو چونکا دیا۔ یہ چند پاکستانی شہری تھے جو قونصلیٹ کے ہال میں کھڑے سینہ کوبی کررہے تھے، میں نے یہ منظر دیکھا تو افسر کے کمرے میں داخل ہونے کے بجائے معاملہ جاننے کے لئے ان پاکستانیوں تک پہنچا۔ تفصیلات معلوم کیں تو پتہ چلا چھ ماہ ہو چکے ہیں ان کا بھائی لاپتہ ہے، صرف اتنا پتہ چل سکا ہے کہ اسے گرفتار کر لیا گیا ہے لیکن یہ نہیں معلوم کہ اسے کیوں گرفتار کیا گیا اور کہاں قید رکھا گیا ہے، میرے اس سوال پر کہ آپ کو پولیس نے نہیں بتایا کہ کیوں گرفتار کیا ہے اور کہاں قید رکھا گیا ہے؟ جس پر رونے والے افراد نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں جواب دیا، جس سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ سرائیکی بیلٹ سے تعلق رکھتے ہیں اور مزدوری کے لئے سعودی عرب میں تھے۔ یہ غریب پاکستانی نہ صحیح اردو بول پاتے ہیں اور نہ عربی، یہ نہ سعودی حکام کو اپنی بات سمجھا پاتے ہوں گے اور نہ ان کی بات سمجھتے ہوں گے۔ لہٰذا کسی کے مشورے پر انہوں نے جدہ میں پاکستانی قونصلیٹ سے رابطہ کیا اور اب گزشتہ کئی ماہ سے وہ قونصلیٹ کے چکر لگا رہے تھے جہاں انہیں ہر مرتبہ اگلی دفعہ آنے کا کہہ دیا جاتا تھا۔ یہ غریب پاکستانی پردیس میں چھ ماہ سے زیادہ عرصہ سےاپنے بھائی کے غائب ہو جانے پر اب ہمت ہار چکے تھے اور ہال میں موجود درجنوں افراد کے سامنے رو رو کر اپنی مظلومیت بیان کررہے تھے۔ میں تو خود وہاں کسی کا مہمان تھا لیکن کوشش کی کہ ان کی داد رسی ہو جائے لیکن ناکام رہا۔ سفارتی افسروں نے ایک بار پھر اگلے ہفتے رابطہ کرنے کا دلاسہ دینے کے بعد واپس روانہ کردیا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ اس طرح کے واقعات یہاں روز مرہ کا معمول ہیں۔ پاکستانی عمرہ ویزہ پر آکر ملازمت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، غیرقانونی رہائش کے جرم میں انہیں گرفتار کر لیا جاتا ہے، کبھی عمرہ ویزہ پر آکر بھیک مانگنے کا کام کرتے ہیں جبکہ بعض پاکستانی اپنے اقامے کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور کفیل کی شکایت پر گرفتار ہو جاتے ہیں جبکہ بعض پاکستانی آپس میں یا سعودی شہری کے ساتھ جھگڑے کی صورت میں گرفتار ہو جاتے ہیں یا بعض چوری یا دیگر غیرقانونی کاموں پر گرفتار ہو جاتے ہیں لیکن سفارتخانے کے لئے سب سے بڑا مسئلہ اَن پڑھ پاکستانیوں کی شناخت کرنا، اُن کے جرائم کی تفصیلات جاننا اور پھر اُن کی رہائی کے انتظامات کرنا ہوتا ہے کیونکہ یہ پولیس کو بھی اپنے کوائف ٹھیک طور پر نہیں بتا پاتے لہٰذا سعودی حکام بھی اُن کی گرفتاری سے سفارتخانے کو آگاہ نہیں کرتے جبکہ پاکستانی سفارتی افسروں اور اہلکاروں کی تعداد اور بجٹ انتہائی قلیل ہوتا ہے۔ دوسری جانب جدہ میں مقیم ایک سینئر پاکستانی سفارت کار کے مطابق ماضی میں سفارتی افسروں نے کبھی دلجمعی سے ان غریب پاکستانیوں کی رہائی کے لئے کام ہی نہیں کیا تھا جبکہ امیر پاکستانیوں کے گھروں پر جاکر ان کے کام کردیے جاتے تھے جس کی وجہ سے مسائل بہت زیادہ بڑھ گئے تھے تاہم عمران خان کی حکومت کے قیام کے بعد جس طرح اوورسیز پاکستانیوں کو اہمیت دی گئی ہے، اس کے بعد سے سفارتی افسر بھی مجبور ہو گئے ہیں کہ پاکستانی شہری امیر ہو یا غریب، تعلیم یافتہ ہو یا غیرتعلیم یافتہ، ہر ایک کو برابر کی اہمیت دیں، ان کے مسائل سنیں اور انہیں حل کرنے کے لئے فی الفور کوشش کریں۔ جیلوں میں قید پاکستانیوں پر نظر رکھیں۔ ان کے کوائف اکٹھا کریں اور ان کی رہائی کے لئے سرکاری سطح پر انتظامات کریں۔ اگر ضرورت پڑے تو حکومتی سطح پر ان کا جرمانہ بھی ادا کیا جائے۔ اگر سفارتی حکام یہ سب کام نہیں کریں گے تو یہ ان کی کوتاہی میں شمار ہوگا اور اب ایسی شکایات حکومتی وزراء اور وزیراعظم تک پہنچنا بہت مشکل بات نہیں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں سعودی عرب سے 80سے زائد پاکستانیوں کو حکومت کی کوششوں سے عید سے قبل سعودی جیلوں سے رہائی دلوائی گئی جس کے لئے حکومت کی جانب سے ان کے جرمانے بھی ادا کیے گئے۔ عمران خان حکومت نے بلاشبہ اپنے قیام کے بعد سے ایک کروڑ اوورسیز پاکستانیوں کے دل جیتنے کے لئے شاندار اقدامات کیے ہیں جن میں بیرون ملک جیلوں میں قید غریب اور لاچار پاکستانیوں کو یہ احساس دلا کر کہ ان کا ملک ان کا پرسانِ حال ہے، ایک زبردست کام کیا ہے۔