پاکستانی ماہر کی یو این ٹیکس کمیٹی میں تقرری

August 02, 2021

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے حال ہی میں 2021ء سے 2025ء کیلئے اقوام متحدہ کی 25 رکنی ٹیکس کمیٹی کا اعلان کیا ہے جس میں دنیا بھر سے ٹیکس ماہرین شامل ہیں اور اس کمیٹی میں پاکستان کے ٹیکس ماہر ڈاکٹر محمد اشفاق احمد کو سینئر ممبر مقرر کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر محمد اشفاق اس وقت ایف بی آر میں ممبر اِن لینڈ ریونیو اور ڈائریکٹر جنرل انٹرنیشنل ٹیکسز کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹرمحمد اشفاق ایف بی آر میں ٹیکس اصلاحات، سیلز ٹیکس ریفنڈز کا فاسٹر نظام اور ٹیکس اہداف حاصل کرنے کیلئے اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ پاکستان کیلئے یہ بڑے فخر کی بات ہے کہ اقوام متحدہ کے عالمی ادارے نے بین الاقوامی ٹیکس امور پر تعاون کیلئے دنیا کے ٹیکس ماہرین میں ڈاکٹرمحمد اشفاق کا انتخاب کیا تاکہ عالمی سطح پر ٹیکس اصلاحات لائی جاسکیں اور FATF کے تناظر میں منی لانڈرنگ کو روکا جائے۔25 ماہرین کی یہ کمیٹی عالمی سطح پر ڈبل ٹیکسیشن، ٹیکس تنازعات، ڈیجیٹل اکانومی کی ٹیکسیشن اور فنانشل معلومات کے تبادلے جیسے اہم امور پر کام کرے گی۔

ڈاکٹر محمداشفاق احمد ایف بی آر کے اِن لینڈ ریونیو سروس میں ایک ذہین افسر ہیں جنہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے انگلش میں ماسٹرز، Saitama یونیورسٹی جاپان سے اکنامکس میں ماسٹرز، قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد اور امریکہ کی یونیورسٹی آف واشنگٹن سے پولیٹکل اکانومی میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ اسکے علاوہ ڈاکٹرمحمد اشفاق دنیا کے معروف اداروں ورلڈ بینک، فل برائٹ، چارلس والس اور ہوبرٹ ہمبرے کی فیلوشپ بھی رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر محمداشفاق کی ریسرچ کا فوکس انٹرنیشنل ٹیکسیشن، ڈیجیٹل اکانومی، ٹیکس ٹریٹیز اور ٹیکس ریفارمز رہا ہے۔ ہم اکثر اپنے بیورو کریٹس پر تنقید کرتے آئے ہیں لیکن آج میں پاکستان کے اس روشن، قابل اور ایماندار افسر کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں جسے دنیا کے سب سے بڑے ادارے اقوام متحدہ نے ٹیکس ماہرین کی کمیٹی میں اس کی تعلیمی قابلیت اور پیشہ ورانہ صلاحیت کو دیکھتے ہوئے شامل کیا ہے جو ہم سب کیلئے اعزاز ہے۔

پاکستان کے ٹیکس نظام کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی جی ڈی پی میں ٹیکس کی اوسط شرح11 فیصد ہے جبکہ بھارت میں9.8 فیصد، بنگلہ دیش میں 8.5فیصد، سری لنکامیں 11.6 فیصد، ایران میں6.1 فیصد اور افغانستان میں9 فیصد ہے۔ ٹیکس درجہ بندی میں پاکستان 9 درجہ بہتری کیساتھ 71ویں نمبر پر آگیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2003-04ء میں ایف بی آر کی ریونیو وصولی 510ارب روپے تھی جو 2016-17ء میں 3368ارب روپے، 2017-18ء میں 3751ارب روپے، 2018-19ء میں 3828ارب روپے، 2019-20ء میں 3997ارب روپے اور 2020-21ء میں 4725ارب روپے تک پہنچ گئی ہے جبکہ رواں مالی سال ریونیو وصولی کا ہدف 5829 ارب روپے رکھا گیا ہے۔گزشتہ 15 برس میں کورونا وبا کے باوجود ٹیکس وصولی کی 926 فیصد گروتھ نہایت متاثر کن ہے جبکہ ڈاکٹرمحمد اشفاق کے دور میں ایف بی آر کے تمام انکم ٹیکس کمشنرز کو ایڈوانس انکم ٹیکس وصول کرنے سے روک دیا گیا ہے جس کو کارپوریٹ اداروں نے نہایت سراہا ہے۔ اسکے علاوہ ایف بی آر کے فاسٹر پلس کے تحت 72 گھنٹوں میں سیلز ٹیکس کے آٹومیٹک ریفنڈز سے ملکی ایکسپورٹس میں اضافہ ہوا ہے، یہ وہ اقدامات ہیں جن پر میں چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد، ڈاکٹر محمد اشفاق احمد اور اُنکی ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

قارئین! دنیا میں FATF کے سخت قوانین پر عملدرآمد کے بعد اب لوگوں کیلئے اپنے کالے دھن، بے نامی اکائونٹس اور اثاثوں کو چھپانا لگ بھگ ناممکن ہوگیا ہے جس کیلئے دنیا بھر میں ٹیکس اصلاحات کی جارہی ہیں۔ پاکستان نے 66 ممالک سے ٹیکس Treaties سائن کی ہیں جس کے تحت وہ آمدنی جس پر غیر ممالک میں ٹیکس ادا کیا جاچکا ہے، پر پاکستان میں ٹیکس کی چھوٹ ہے۔ اس کے علاوہ جو شخص پاکستان کا شہری نہیں، اس کو بھی ٹیکس کی چھوٹ حاصل ہے۔ پاکستان کے ٹیکس نظام میں کچھ خامیاں ہیں۔ مثلاً پاکستان کے ایگریکلچر سیکٹر کا ملکی معیشت میں حصہ 19 فیصد ہے لیکن ٹیکسوں کی ادائیگی میں اس کا حصہ 2 فیصد بھی نہیں اور مینوفیکچرنگ سیکٹر کا جی ڈی پی میں حصہ 18 فیصد ہے لیکن ٹیکسوں کی ادائیگی میں اس کا حصہ 60 فیصد ہے جبکہ سروس سیکٹر کا ملکی معیشت میں حصہ 63 فیصد ہے لیکن ٹیکسوں کی ادائیگی میں اس کا حصہ 20 فیصد ہے جو معیشت کے مختلف شعبوں کی ٹیکسوں کی ادائیگی میں عدم مسابقت ظاہر کرتا ہے جس کیلئے ٹیکس اصلاحات ضروری ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں اِن ڈائریکٹ ٹیکسز کی شرح مجموعی ٹیکسوں کا60 فیصد ہے جبکہ ڈائریکٹ ٹیکسز کی شرح 40 فیصد ہے حالانکہ دنیا میں اِن ڈائریکٹ ٹیکسز جو ایک غیر مقبول Regressive اسکیم ہے، کو ختم کرکے ڈائریکٹ ٹیکسز کو فروغ دیا جارہا ہے۔ ودہولڈنگ ٹیکس اِن ڈائریکٹ ٹیکسز کی مثال ہے جسے پیمنٹ کے وقت کاٹ لیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر موبائل فون میں 100 روپے کا بیلنس کرواتے وقت صرف 70 روپے کا کریڈٹ حاصل ہوتا ہے اور 30 روپے ودہولڈنگ ٹیکس کی مد میں کاٹ لئے جاتے ہیں۔ کمپنی منافع حاصل کرے یا نقصان لیکن اس کے سالانہ ٹرن اوور پر ٹیکس وصول کرنا اِن ڈائریکٹ ٹیکسز کی مثالیں ہیں جبکہ دنیا بھر میں ٹیکس منافع پر وصول کیا جاتا ہے۔ اِن بے ضابطگیوں کو دیکھتے ہوئے میری درخواست ہے کہ ٹیکس نظام میں اصلاحات کی جائیں۔ مجھے اُمید ہے کہ ڈاکٹرمحمد اشفاق احمد کی اقوام متحدہ کی اعلیٰ سطح کمیٹی میں تقرری سے FATF کیلئے کئے گئے اقدامات سے ممبر ممالک کو آگاہی سے ہمیں گرے لسٹ سے نکلنے میں مدد ملے گی۔