قیام امن کی کوششیں اور بھارت کا کردار

August 07, 2021

افغانستان اس وقت شدید کشمکش کاشکار ہے جبکہ پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک متحارب گروپوں کو مذاکرات کے ذریعے معاملات کوپرامن طریقے سے حل کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔

ان ممالک کے درمیان اس بات پر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ افغان تنازعہ کا کوئی فوجی حل نہیں اور بالآخر متحارب گروپوں کو کھلے ذہن کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر جنگ سے تباہ حال افغانستان میں پائیدار قیام امن کیلئے بات چیت کے ذریعے ہی کوئی قابل قبول حل نکالنا ہوگا۔

لیکن بھارت خطے کا وہ واحد ملک ہے جو اس عمل سے خوش نہیں۔ وہ ہمیشہ افغان امن کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوششیں کرتا رہا ہے جبکہ پاکستان سمیت دیگر علاقائی ممالک متحارب گروپوں کے درمیان تصفیہ کرانے کے لئے سنجیدگی کے ساتھ کوشاں رہے ہیں۔

ایک طرف افغانستان کے اندر برسرپیکار دہشت گرد تنظیموں داعش ، القاعدہ اور دیگر عسکریت پسندوں کو بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے جبکہ دوسری طرف مغربی سرحد سے پاکستان کے اندر ہونے والے دہشت گرد حملوں کے پیچھے بھی بھارتی کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

لاہور میں ہونے والی دہشت گرد کارروائی اور داسو میں ایک بس پر حملے میں پڑوسی ملک کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد موجودہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ موجودہ افغان قیادت اپنے ہی ملک میں قیام امن کیلئے جاری کوششوں کا ساتھ دینے کے بجائے ان مذموم اقدامات میں بھارت کی شراکت دار بنی ہوئی ہے۔

پاکستان پر افغان مفادات کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے افغان صدر اشرف غنی اور ان کے سینئر معاونین کی جانب سے الزام تراشی افغان حکومت میں پائی جانے والی گہری مایوسی کی نشاندہی ہے ۔

دراصل افغان قیادت کی جانب سے ملک میں بہتر نظم ونسق کے قیام اور بدعنوانی کی لعنت کے خاتمے میں اپنی مکمل ناکامی کوچھپانے کی یہ ایک ناکام کوشش ہے جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کبھی کبھار اس مایوسی کی وجہ سے وہ امریکی فیصلوں پر بھی تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔

امریکہ کی جانب سے انتہائی عجلت میں افواج کے انخلاء کے فیصلے نے خطے کیلئے امریکی ارادوں کے بارے میں کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ پاکستان کی کاوشوں سے امریکی حکام اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی میز پر امریکی افواج کے انخلا ء کے بارے میںایک باضابطہ روڈ میپ طے کیا گیا تھا اور اس عزم کا بھی اعادہ کیا گیا تھا کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف دہشت گردانہ حملوں کیلئے استعمال نہیں کی جائے گی۔

امریکی حکام کو اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ ایسا کرنے سے طالبان کی قانونی حیثیت اور ملک پر حکمرانی کے حق کو تسلیم کر رہے ہیں بصورت دیگر محض طالبان کا ایک گروہ اس قسم کی ضمانت کیسے دے سکتا ہے جو ان سے حاصل کی گئی تھی؟

ایک مقررہ مدت کے اندر فوجیوں کے انخلا کے عزم اور ملک پر حکمرانی کیلئے ضروری قانونی حیثیت کے حصول کے بعد امریکیوں کو کیا یہ توقع تھی کہ وہ تشدد کی لہر میں کمی لائیںگے جس کا انہوں نے امریکیوں کیخلاف ایک کامیاب ہتھیار کے طورپر استعمال کیا تھا؟ اگر ایسا ہے تو اسے جنگی تاریخ میں ہمیشہ ایک ناقص حکمت عملی کے طورپر یاد رکھا جائے گا۔

اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکی افواج کے انخلاء کا فیصلہ افغانستان اور خطے میں امن کے حصول میں معاون ثابت نہیں ہوا بلکہ یہ طالبان کو جنگ جاری رکھنے کی ترغیب دینے کے مترادف تھا۔

حالات کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات کہنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ افغانستان میں مستقل قیام امن امریکہ کے انخلاء کے بعد کے منصوبے کا جزو نہیں تھا۔ اصل عزائم خطے کو تسلسل کے ساتھ غیرمستحکم رکھنے اور خطے کے ممالک کے درمیان اقتصادی روابط کی بحالی کی کوششوں کو سبوتاژ کرنا اور چین کے ساتھ ان کے بڑھتے ہوئے روابط میں دراڑیں ڈالنا تھا۔

اسی پالیسی پر عملدرآمد کیلئے امریکہ نے بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کیا کیونکہ چین کے بارے میں دونوں ممالک کے موقف میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک طرف بھارت کی نظریں پاکستان کو غیرمستحکم کرنے پر جمی ہوئی ہیں جبکہ امریکہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور اس کے عالمی سطح پر معاشی طاقت بننے کی کوشش کو سبوتاژ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ان حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت اس وقت پاکستان اور چین کی مخالفت میں امریکہ کا آلہ کار بنا ہوا ہے۔

درج بالا حالات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر امریکہ واقعی افغانستان میں پائیدار اور دیرپا امن کے قیام کیلئے سنجیدہ ہو تا تو وہ مذاکراتی عمل کو سنجیدہ لینے اور بامقصد سمجھوتہ کرنے کیلئے افغان صدر اشرف غنی پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس امریکہ نے افغان حکومت کو آئندہ برس کیلئے بھاری امدادی پیکیج دینے اور فوجی امداد جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔

طالبان پر حالیہ فضائی حملوں نے ، جس میں متعدد بیگناہ لوگ مارے گئے، معاملات کو مزید گھمبیربنا دیا ہے۔

دوسری جانب پاکستان افغانستان میں مستقل قیام امن کا خواہاں ہے اس ضمن میں اسے چین، روس، ایران، ترکی اور وسط ایشیائی ممالک کی مکمل حمایت حاصل ہے کیونکہ یہ تمام ممالک چین کی طرف سے اقتصادی روابط کو فروغ دینے کے عمل میں شرکت کے خواہاں ہیں تاہم ایسا عملاً ہونا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک افغانستان اور خطے میں امن قائم نہیں ہو جاتا۔

پاکستان ان ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاکہ خطے میں جاری جنگ کے مستقل خاتمہ کیلئے طریقۂ کار اور میکنزم وضع کیا جا سکے۔

پاکستان کو اب اس خام خیالی سے باہر نکلنا ہوگا کہ امریکہ کا گیم پلان تبدیل ہونے کا امکان ہے اور پاکستان کو غیرمستحکم کرنے اور خطے میں جنگ کی آگ مزید بھڑکانے کے بھارتی عزائم کو بے نقاب کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں یہ عمل چین اور روس سمیت خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مشاورت سے آگے بڑھانا چاہئے کیونکہ پاکستان تن تنہا ایسا نہیں کر سکتا ۔مشترکہ مقصد کے حصول کیلئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی گھنائونی کوششوں کے پیچھے بھارتی پشت پناہی کے شواہد اور امن کی کوششوں کو ختم کرنے میں بھارت کی مجرمانہ شمولیت کو تمام بین الاقوامی فورمز پر مکمل طور پر بے نقاب کئے جانے کے ساتھ ساتھ موجودہ افغان قیادت کی مجرمانہ غفلت اور مستقبل قریب کیلئے امریکی ارادوں کو بھی پسِ پشت نہیں ڈالنا چاہئے۔

(صاحبِ تحریر وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات، سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار اور ادارۂ علاقائی امن کے بانی ہیں)