قوم میں تربیت کا شدید فقدان

August 22, 2021

رات کے بارہ بج چکے تھے، میں ایک دوست کے ساتھ شہر کی مرکزی شاہراہ پر محو سفر تھا، اچانک کہیں دور سے بغیر سائیلنسر لگی موٹر سائیکلوں کے شور کی آوازوں نے میری توجہ اپنی جانب مرکوز کرلی، پیچھے مڑ کر دیکھا تو درجنوں کی تعداد میں موٹر سائیکلوں پر نوجوان ریس لگاتے گاڑیوں کو اوورٹیک کرتے آگے بڑھ رہے تھے۔

کوئی ون ویلنگ کررہا تھا تو کوئی دوسرے کرتب دکھا رہا تھا، جبکہ کچھ نوجوان راہ چلتی گاڑیوں میں جھانک کر ان کا جائزہ بھی لیتے نظر آرہے تھے۔

یہ موٹر سائیکلیں اتنےخطرناک طریقے سےچلا رہے تھے کہ دیکھنے والا بھی دنگ تھا، میں ابھی اپنے دوست سے ان نوجوانوں کے طرز زندگی پر تنقید کررہا تھا کہ خدانخواستہ اگر کسی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تو ان کے والدین کا کیا ہوگا جنھوں نے ان نوجوانوں کو نہ جانے کس قدر مشکل سے پال پوس کر بڑا کیا ہوگا۔

کتنے غیرذمہ دار لوگ ہیں، ابھی میں یہ باتیں کرہی رہا تھا کہ ایک نوجوان جس نے اپنی موٹرسائیکل کا سائیلنسر نکالاہوا تھا اور بہت تیز اور آڑی ترچھی کرکے موٹرسائیکل چلا رہا تھا نے تیزی سے ایک گاڑی کو اوورٹیک کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن موٹرسائیکل کو آگے لیجانے کی کوشش میں وہ گاڑی کے کنارے سے ٹکرایا، ایک خطرناک ایکسیڈنٹ ہوا اور موٹرسائیکل ایک جانب گر گئی۔

اس لڑکےکے سر اور جسم سے خون بہہ رہا تھا، میں نے بڑی مشکل سے اپنی گاڑی کو سامنے والی گاڑی سے ٹکرانے سے بچایا جبکہ جس گاڑی سے وہ موٹرسائیکل سوار نوجوان ٹکرایا تھا اس نے بھی فوری طور پر گاڑی روکی، اسی دوران ایک درجن سے زائد موٹرسائیکل والے نوجوان اس زخمی نوجوان کے پاس جمع ہوگئے۔

چاروں طرف بغیر سائیلنسر کی موٹرسائیکلوں کا شور تھا، جنھوں نے ایک سوزوکی میں زخمی نوجوان اور اس کی موٹرسائیکل کو ڈال کر شاید اسپتال کی جانب روانہ کردیا تھا، جبکہ باقی نوجوانوں نے اس گاڑی کو گھیر لیاجس سے ٹکرا کر نوجوان زخمی ہوا تھا۔

اس میں ایک ادھیڑ عمر شخص، ان کی اہلیہ اور صاحبزادی سوار تھی، ان لڑکوں نے نہ صرف گاڑی والے اس ادھیڑ عمر شخص پر تشدد شروع کردیا بلکہ خاتون اور ان کی صاحبزادی کے ساتھ بھی بدتمیزی کرناشروع کردی۔

یہ دیکھ کہ مجھ سمیت کئی افراد موقع پر پہنچے اور معاملے کو سنبھالنے کی کوشش کی، لڑکوں کو سمجھایا کہ تمام غلطی اس لڑکے کی تھی، جو ون ویلنگ اور تیز رفتار ی کے باعث ان کی گاڑی سے ٹکرایا لیکن کوئی ہماری بات سننے کو تیار نہ تھا۔

وہ لڑکے تشدد کے بعد ان صاحب سے لڑکے کے علاج معالجے اور موٹر سائیکل کی مرمت کے لئے بھاری رقم طلب کررہے تھے، رش کافی بڑھ چکا تھا کسی نے پولیس کو بھی فون کردیا تھا۔

بڑی مشکلوں سے ہم خاتون اور ان کی بیٹی کو ان اوباش نوجوانوں سے بچا کر گاڑی میں بٹھانے میں کامیاب ہوئے جبکہ گاڑی کے مالک نے اپنے پرس میں موجود کل رقم جو تقریباََ دس ہزار روپے تھی وہ اس گینگ کے حوالے کی،جس کے بعد بارہ سے پندرہ موٹرسائیکلوں پر مشتمل یہ گینگ موقع سے غائب ہوگیا۔

اتنی دیر میں پولیس موبائل بھی موقع پر پہنچ گئی اور تفصیلات معلوم کرنے لگی، حیرت کی بات یہ تھی کہ پولیس موبائل ان صاحب، جن کی گاڑی سے وہ موٹرسائیکل ٹکرائی تھی اور جو ابھی ابھی جبری طور پر ان نوجوانوں کو دس ہزار روپے دیکر بیٹھے تھے، کو پولیس اسٹیشن لیجانے کی ضد کرنے لگی، وہاں موجود لوگوں نے پولیس اہلکاروں سے درخواست کی کہ ان کے ساتھ تو زیادتی ہوئی ہے، ان کی گاڑی کو کافی نقصان پہنچا ہے۔

لڑکوں نے ان پر تشدد کیا ہے، پھر ان سے رقم بھی لے لی گئی اور اب آپ انہی مظلوم لوگوں کو تھانے لیجانا چاہتے ہیں، بہرحال کافی گفت وشنید کے بعد اس مظلوم فیملی کو وہاں سے جانے کی اجازت ملی، میں سوچ رہا تھا کہ ہم کیسے مسلمان ہیں ہمارے دین میں سب سے زیادہ حکم حقوق العباد کی ادائیگی کا ہے جو انسانیت کا، رواداری کا، بھائی چارے کا سبق دیتے ہیں۔

ہماری قوم دینی تعلیمات سے دور ہوتی جارہی ہے جبکہ ریاست میں قانون کی عملداری نام کو نظر نہیں آتی، یہی وجہ ہے کہ لاہور میں مینار پاکستان جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں، لاہور کی سڑک پر چلتے ایک بیٹی کے ساتھ ہراسانی کا واقعہ پیش آجاتا ہے۔

موٹر وے پر مدد کے انتظار میں اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھی خاتون کی عزت تار تار کردی جاتی ہے، قبرستان میں مردے کی حرمت بھی محفوظ نہیں رہی۔

ایسے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس تیزی سے تنزلی کی جانب گامزن ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں لاکھوں مساجد میں ہم سب جاتے ہیں ادب واحترام سے عربی زبان میں دیا جانے والے خطبہ سنتے ہیں لیکن کبھی سمجھ نہیں سکے کہ اس خطبے میں ہمیں کیا سکھایا جارہا ہے۔

کیا کہا جارہا ہے، کبھی ہم نے قرآن پاک کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی، صرف عربی زبان میں اسلامی تعلیمات سن کرہم جنت کے طالب بن جاتے ہیں کبھی قرآن پاک کو سمجھ کر اس کی تعلیمات کو اپنانے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔

ریاست بھی اپنی ذمہ داریاں انجام دیتی نظر نہیں آتی، ضروری ہے کہ ریاست کے تمام اسکولوں میں قرآن پاک کو ترجمے کے ساتھ پڑھانے کا بندوبست کیا جائے اور اسے لازمی مضمون قرار دیا جائے تاکہ دنیا وی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم قوم کے ذہن میں منتقل ہوسکے اور معاشرے پر اس کے اثرات نظر آسکیں۔