سرائیکی افسانوی ادب ( افسانہ، ناول، ڈراما)

September 05, 2021

تحقیق و تصنیف: ڈاکٹر حمید اُلفت ملغانی

صفحات: 384، قیمت: 1000 روپے

ناشر: رنگِ ادب پبلی کیشنز، آفس نمبر 5، کتاب مارکیٹ، اُردو بازار، کراچی۔

یہ پی ایچ ڈی کا ایک تحقیقی مقالہ ہے، جسے ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی نگرانی میں پایۂ تکمیل تک پہنچایا گیا۔ فاضل مصنّف مختلف سرکاری کالجز میں سینئر لائبریرین کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے اور پھر اکتوبر 2019ء میں اِسی حیثیت سے ملازمت سے سبک دوش ہوئے۔ اِن دنوں مختلف جامعات میں تدریسی ذمّے داریاں نبھا رہے ہیں۔ اُن کی اِس سے قبل بھی تنقید، شاعری، تاریخ و ثقافت اور دیگر موضوعات پر ایک درجن سے زاید کتب شایع ہو چُکی ہیں، جب کہ کئی ایک طلبہ نے یونی ورسٹی سطح پر اُن کے کام کو تحقیق کا بھی موضوع بنایا ہے۔

زیرِ تبصرہ مقالے میں سرائیکی افسانوں، ناولز اور ڈراموں کی 2012ء تک شایع شدہ کتب کا جدید تحقیقی اُصولوں کی بنیاد پر جائزہ لیا گیا ہے۔ کتابیات اور حوالہ جات کی طویل فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ مقالہ نگار نے امکانی حد تک موضوع سے متعلقہ تقریباً تمام ہی کتب کا احاطہ کیا ہے، جو اس کاپی، پیسٹ دَور میں قابلِ تحسین کام ہے۔پہلے باب میں سرائیکی زبان کا تہذیبی، لسانی اور ادبی پس منظر بیان کیا گیا ہے، تو دوسرے باب میں سرائیکی افسانے کے ارتقا پر تفصیلی بحث ہے۔ تیسرا باب سرائیکی ناول سے متعلق ہے، جب کہ چوتھے باب میں سرائیکی ڈرامے کے مختلف پہلو اجاگر کیے گئے ہیں۔

پانچواں باب اِس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں ادب کی اِن تینوں اصناف پر عالمانہ بحث کی گئی ہے۔ مصنّف کے مطابق، غلام حسین حیدرانی کا جاسوسی ناول’’ گلّو‘‘ سرائیکی کا پہلا ناول ہے، البتہ ظفر لاشاری کے’’ نارو‘‘ کو سرائیکی کے اوّلین طبع شدہ ناول کا اعزاز حاصل ہے۔ اِسی طرح افسانہ نگاروں میں آصف اُچوی، اقبال سوکڑی اور غلام حسین حیدرانی کو اوّلیت حاصل ہے۔ سرائیکی منظوم ڈراموں کی روایت تو قدیم ہے، مگر نثری ڈرامے کا آغاز قیامِ پاکستان کے بعد ہی ہوا۔ مقالہ نگار نے ایک حیرت انگیز بات یہ لکھی ہے کہ سرائیکی لوک کہانیوں کو سب سے پہلے مستشرقین نے اکٹھا کیا، مقامی ادیب بہت بعد میں اِس جانب متوجّہ ہوئے۔