میں چُپ رہوں گا!

September 12, 2021

میڈیا پر دھونس، دباؤ اور آزادیٔ رائے پر پابندی کی روایت چل نکلی ہے۔ بولنے والی زبانیں گنگ اور لکھنے والے قلم زنگ آلود ہیں، صاحبانِ اختلافِ رائے کیلئے ٹک ٹکیاں اور زندان تیار ہیں، مصاحبین جادو کی طرح سر چڑھ کر، گرج اور برس رہے ہیں۔ سو ایک طُرفہ تماشا ہے اور ہم ہیں دوستو! یا جناب منیر نیازی کی زبان میں اُن کی غزل کے دو مصرعے یوں کہ ’’شامِ الم ڈھلی تو چلی درد کی ہوا، راتوں کا پچھلا پہر ہے اور ہم ہیں دوستو، آنکھوں میں اُڑ رہی ہے لُٹی محفلوں کی دھول، عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘۔ لہٰذا ’’روم جلتا اور نیرو بانسری بجاتا رہے‘‘ میری بلا سے میں چُپ رہوں گا، نہ پوچھوں گا، نہ بولوں گا، نہ سوال کروں گا کہ پٹرول کی قیمت ایک روپیہ بڑھے تو وزیراعظم کیا ہوتا ہے؟ چینی، گھی، گوشت، سبزی اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء کی قیمتیں بڑھ جائیں اور آسمان سے باتیں کرنے لگ جائیں، بجلی و گیس عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو جائیں، وہ ہزاروں لاکھوں کے بلز ادا نہ کر پائیں تو کیا پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینا چاہئے یا بل جلا دیے جائیں یا پھر سول نافرمانی کی تحریک کی کال دے دی جائے؟ میں چُپ رہوں گا اور نہیں بولوں گا کہ وہ 400ارب ڈالر کا کیا ہوا جو قرض خواہوں کے منہ پر مارنے تھے اور پاکستان کے غریب عوام پر لگانے تھے؟ میں چُپ رہوں گا اور ’نیا پاکستان بٹن دبانے سے نہیں بنے گا‘، کہنے والوں سے نہیں پوچھوں گا کہ 100دنوں میں ملک کی تقدیر بدلنے کے وعدوں کا کیا ہوا؟ ڈالر آسمان سے باتیں کرنے لگا اور ایک برطانوی پاؤنڈ کے 231روپے ملنے لگے ہیں لیکن میں پھر بھی چُپ رہوں گا اور نہیں پوچھوں گا کہ بیرونی سرمایہ دار پاکستان کیوں نہیں آ رہا اور پاکستانی سر مایہ دار ملک سے کیوں بھاگ رہا ہے؟ میں سوال نہیں کروں گا کہ حکمران طبقے سے زیادہ ہر چیز پر ٹیکس دینے والے پاکستانی عوام ایک کلو آٹا اور چینی خریدنے کے قابل کیوں نہیں رہے؟ اور وہ کروڑوں نوکریوں و لاکھوں گھروں کا سوال بھی اب ’’نقار خانے میں طوطی کی آواز‘‘ ثابت ہو چکا ہے، اس لئے یہ پوچھنا بھی بےفائدہ ہے۔ یقیناً یہ سوال بھی اببےمعنی ہے کہ بیرونی دنیا سے قرض نہ لینے کی باتیں کرنے والوں نے پاکستان کو اس کی تاریخ میں سب سے زیادہ قرضہ لینے والا ملک کیوں بنا دیا ہےاور کیوں پاکستان کا قرض 116ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا لیکن پھر بھی پاکستان کے غریب کی قسمت بدلی نہ مزدور کا حلیہ، اور پھر گھبرانا نہیں کی باتیں کرنے والوں سے کیا سوال کروں؟ میں چُپ رہوں گا، نہیں پوچھو ںگا کہ مہنگائی کا طوفان اور بیروز گاری عام کیوں ہو رہی ہے؟ میں نہیں بولوں گا کہ یکطرفہ احتساب ہے، وچ ہنٹنگ ہے، انصاف ہے نہ قانون کی عملداری، میں نہیں پوچھوں گا کہ بجلی 8سے 20روپے فی یونٹ کیوں ہو گئی، پٹرول 65سے 118روپے کا فی لیٹر کیوں ہو گیا، چینی 50سے 130روپے کلو کیوں ہو گئی؟ اور ہاں! میں چپ رہوں گا، نہیں پوچھوں گا کہ غریب کی بات کرنے والا آدمی عالیشان گھر میں کیوں رہتا ہے؟ رئیسانہ ٹھاٹھ کیوں رکھتا اور برانڈڈ چیزیں کیوں استعمال کرتا ہے، ٹیکس کتنا دیتا ہے، اس کے قریبی رشتہ دار ارب پتی کیسے ہو گئے، اس کی اپنی منی ٹریل کیا ہے، وہ اپنے ہر مقدمے میں اسٹے آرڈر کے پیچھے کیوں چھپا بیٹھا ہے، وہ لگژری گاڑیاں کیوں استعمال کرتا ہے اور اُس کے وہ وعدے کیا ہوئے کہ گورنر ہاؤسز اور وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹیاں بنا دوں گا؟ میں چُپ رہوں گا، سوال نہیں کروں گا کہ اوورسیز پاکستانیوں کی جائیدادوں پر قبضے ختم کراؤں گا کی باتیں، پاکستان کے پاسپورٹ کی بیرونی دُنیا کے ہوائی اڈوں پر عزت کی باتیں، اوورسیز پاکستانی بیرونی ممالک سے نوکریوں اور کاروبار کرنے کیلئے پاکستان آئیں گے، یہ سب باتیں اور وعدے کیا ہوئے؟ لوٹی ہوئی دولت پاکستان لانے اور لوٹنے والوں سے قومی خزانہ نکلوانے کے دعوے آخر کیوں ایفا نہ ہوئے؟ میں ڈیم فنڈ کی رقم کا سوال بھی نہیں کروں گا کہ کون کھا گیا اور یہ ڈیم کہاں بن رہا ہے، اوورسیز پاکستانیوں نے بھی اس ڈیم فنڈ میں اربوں روپے چندہ دیا تھا اور اس چندے کے پہرےدار آپ تھے؟ میں اس سوال کا جواب بھی نہیں مانگوں گا! میں چُپ رہوں گا، نہیں بولوں گا کہ پاکستان ’’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس‘‘ کی گرے لسٹ اور برطانیہ کی ٹریول ریڈ لسٹ میں کیوں ہے؟

گزشتہ تین سال میں کیوں پاکستان کے وزیراعظم کو برطانیہ جیسے اہم ترین ملک نے ایک دفعہ بھی سرکاری دورے پر نہیں بلایا اور کیوں پاکستان کی کسی ڈیمانڈ کو تسلیم نہیں کیا گیا، کیوں انڈیا کو ریڈلسٹ سے نکال کر پاکستان کو ریڈ لسٹ میں رکھا گیا؟ میں یہ سوال بھی نہیں کروں گا کہ اس میں ’’پاکستان ہائی کمیشن یوکے‘‘ کی کوئی کوتاہی تھی یا نہیں یا یہ کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہی درست نہیں، اسی لئے ہمارے دوست ملک ہم سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور امریکہ کا صدر بھی درخواست کے باوجود ہم سے فون پر بات کرنے کیلئے تیار نہیں؟ میں چُپ رہوں گا اور سوال نہیں کروں گا کہ اوورسیز پاکستانیوں کے بھجوائے گئے 24ارب ڈالر سالانہ کہاں جاتے ہیں اور ان نام نہاد پاکستان کے سفیروں کو پاکستان پہنچنے پر کیا کیا سہولتیں دی جاتی ہیں اور ان کی کیا عزت و توقیر ہوتی ہے؟ میں منہ بند رکھوں گا، نہیں پوچھوں گا کہ یہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر انتخابات کرانے کی ضد کے پس پردہ آپ کے کون سے مقاصد ہیں، الیکشن کمیشن کے 37ٹھوس اعتراضات کے اور منصوبے کو مسترد کئے جانے کے بعد بھی آپ اس کے استعمال پر کیوں مُصر ہیں؟ اب جان کی امان نہیں ہے، ورنہ میں ضرور سوال کرتا کہ وُہ مدینہ کی ریاست بنانے کا وعدہ کیا ہوا جس ریاست میں حکمران کو کرپشن سے دور ہونا تھا؟ جہاں قانون کی حکمرانی اور بلا امتیاز انصاف کا دور دورہ ہونا تھا، جہاں امیر و غریب کے لئے یکساں اصول و ضوابط وضع ہونے تھے؟ آخر میں حضرت علیؓ کا ایک خوبصورت قول کہ ’’ریاستیں نظام کفر کیساتھ تو قائم رہ سکتی ہیں لیکن عدل و انصاف کے بغیر نہیں‘‘۔ نیک اور عادل حکمران اپنے ملک کو عدل و انصاف سے بھر دیتا ہے بشرطیکہ وہ خود عادل ہو، نیک ہو، عیوب سے پاک ہو ، بدلے کی آگ سے دور ہو اور اسکے دل میں اللہ کا ڈر ہو!