ہم ہیں پاکستانی ہم تو

July 27, 2013

ایک پرانا لطیفہ جو شاید آپ سن چکے ہوں یہ ہے کہ ایک محفل میں کسی نے کہا کہ اگر ہم اپنا ملک جاپانیوں کو چھ مہینے یا ایک سال کے لئے دے دیں تو وہ اسے بھی جاپان بنادیں گے ۔ ایک منچلے نے فوراً یہ جواب دیا کہ یہ کیا بڑی بات ہوئی ۔ اگر وہ اپنا ملک چھ مہینے یا ایک سال کے لئے ہمیں دے دیں تو ہم جاپان کو پاکستان بنادیں گے ۔ یہ لطیفہ مجھے کیوں یاد آیا ؟ ہوا یہ کہ اس ہفتے دودن میں نے اسلام آباد میں گزارے ۔ صبح صبح جب میں نے اپنے ہوٹل کے کمرے کے پردے ہٹائے تو رات کی بارش سے بھیگی مرگلہ کی پہاڑیاں سامنے کھڑی تھیں اور بادل جھک کر انہیں چھو … یا آپ چاہیں توچوم رہے تھے ۔ ایک دلگداز اور حسین منظر جو یہ کہنا چاہے کہ زندگی کتنی خوبصورت ہے ۔ میں نے یہ منظر دیکھا اور اس کے سحر کو محسوس کیا تو یہ خیال آیا کہ کاش اس ملک میں رہنے والے لوگوں کی زندگی بھی اس قدرتی حسن سے ہم آہنگ ہوسکتی ۔ آخر ملک صرف اپنے قدرتی اور جغرافیائی یا دوسرے لفظوں میں اپنے جسمانی خدوخال سے تو نہیں بنتے بلکہ ملکوں کی پہچان وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس میں بستے ہیں ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ کون ہیں ۔ کیسے ہیں ۔ کیا کرتے ہیں ۔ میں نے سوچا کہ قدرت کے دیئے ہوئے وسائل توسب ملکوں کے پاس ہیں ۔ یہ دوسری بات ہے کہ کس کے حصے میں یہ نعمتیں کتنی آئی ہیں ۔ میرے تصور نے مرگلہ کی پہاڑیوں سے ایک جست لگا کر ان فلک بوس چوٹیوں کا احاطہ کیا کہ جن کی پوری دنیا میں واقعی کوئی اور مثال نہیں ہے ۔ دور دراز کے ایسے ملکوں میں کہ جنہیں دیکھنے کی خواہش ہمیں بے چین کردے مجھے ایسے لوگ ملے ہیں جو پاکستان کے شمالی علاقوں کو کوہ پیماوٴں اور مہم جو سیاحوں کے لئے ایک جنت سمجھتے ہیں اور اس جنت کے ایک گوشے میں، ابھی کچھ دنوں پہلے ہم نے دہشت گردی کی ایسی کارروائی دیکھی کہ جس کی کوئی بھی مثال نہیں ملتی ۔ تو ہم پورے پاکستان کونہ سہی ، صرف شمالی علاقوں کو ہی کسی اور کے سپرد کردیں توہماری دنیا ہی بدل جائے ۔ ویسے شمالی علاقوں کا دائرہ تو بہت وسیع ہے ۔ اس کے ایک کونے میں وزیرستان بھی تو ہے ۔ ایک سنگلاخ حقیقت جواپنی جگہ خود پاکستان کی پہچان بنتی جارہی ہے ۔
اسلام آباد میں دودن قیام کا ایک اور منظر وہ اجلاس ہے جس میں وزیر اعظم میاں نواز شریف نے میڈیا کے نمائندوں کواپنی حکومت کی انرجی پالیسی سے آگاہ کیا ۔ میں بھی وہاں موجود تھا ۔ میرے ساتھ تو یہی سوچ تھی کہ پاکستان کے لوگ اپنے مسائل کو حل کرنے کے کیوں قابل نہیں ہوپارہے ۔ جس پالیسی کی انتہائی تفصیل کے ساتھ تشریح کی گئی اس کا ایک واضح پہلو یہ تھا کہ بجلی کے بحران کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ بجلی کی چوری کرتے ہیں، بل نہیں دیتے ۔ بد انتظامی بہت ہے ۔ پورا نظام زنگ آلود ہوچکا ہے ۔ کہاگیا کہ اس ضمن میں جنوبی ایشیا ء بہت بدنام ہے اور پاکستان جنوبی ایشیاء میں سب سے پیچھے ہے ۔ یا شاید آپ یہ بات اس طرح کہیں کہ پاکستان بد انتظامی اور بے ایمانی میں سب سے آگے ہے ۔ میں تو حیران رہ گیا جب خود نواز شریف نے ” اندھیر نگری “ کی اصطلاح استعمال کی ۔ میرے لئے یہ ہماری اجتماعی معاشرتی اور اخلاقی صورت حال کا محض ایک عکس تھا ۔ پوری تصویر دیکھیں تودل دہل جاتا ہے ۔ کرپشن کی بات تو سب کرتے ہیں ۔ بات اس سے زیادہ گہری اور پیچیدہ ہے ۔ ہم کسی ایسے مرض میں مبتلا ہیں جس کی تشخیص یا توہمارے بس میں نہیں یا ہم ڈرتے ہیں اپنے معاشرے کی سچائی کو دیکھنے سے ۔
لطیفے میں جاپان کے علاوہ آپ کسی دوسرے ، ترقی یافتہ اور خوشحال ملک کا نام بھی لے سکتے ہیں ۔ ویسے میرا خیال ہے کہ جاپان ایک اچھی مثال ہے ۔ ایشیائی ملک ہے کہ جس نے اپنی شناخت کو مجروح کئے بغیر جدید مغربی فکر اور ایجادات سے استفادہ کیا ہے ۔ قدرتی وسائل کی کمی کے باوجود ، دنیا کواپنے انسانی وسائل کے کرشمے سے متاثر کیا ہے ۔ مجھے تو جاپانی واقعی مختلف لوگ لگتے ہیں ۔ پھر بھی ، سچی بات تو یہ ہے کہ وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں فرق صرف یہ ہے کہ ان کا معاشرہ کن بنیادوں پر قائم ہے ۔ اس معاشرے میں افراد کی تربیت کس انداز میں کی جاتی ہے ۔ نظم وضبط کا معیار کیا ہے ۔ ایثار اور قربانی کا جذبہ کتنا ہے ۔ میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ بجلی کے جس بحران نے ہمیں بے حال کردیا ہے اگر کسی وجہ سے جاپان میں ایسی صورت ہوتی تو حکومت اور لوگ کیا کرتے ۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ عام شہری خود ، بجلی کے استعمال میں کمی کرکے ، مشکلات کے وقفے کو برداشت کرلیتے اور کوئی خلفشار پیدا نہ ہوتا ۔ کوئی بھی معاشرہ کسی بھی عذاب کوکس طرح سہہ لیتا ہے اس کی کئی مثالیں جدید عہد کی تاریخ میں موجود ہیں ۔ سب سے حالیہ مثال خود جاپان کی ہے ۔ مارچ2011ء میں مشرقی جاپان میں ایک ایسا زلزلہ آیا کہ جسے ہم دنیا کا سب سے بڑا زلزلہ کہہ سکتے ہیں ۔ اس کی شدت ریکٹر اسکیل پر9تھی ۔ جب سے ریکارڈ رکھا جارہا ہے اس وقت سے لے کر اب تک اتنا بڑا زلزلہ نہیں آیا ۔ اکتوبر2005میں شمالی پاکستان اور آزاد کشمیر میں جو زلزلہ آیا تھا اس کی شدت 7.6ریکارڈ کی گئی اور اس کا شمار بھی دنیا کے بڑے زلزلوں میں ہوتا ہے ۔ جاپان کے زلزلے کے ساتھ ، سونامی کا طوفان بھی انتہائی تباہ کن تھا ۔ غضب یہ ہوا کہ ایک ایٹمی تنصیب کوبھی نقصان پہنچا ۔ غرض جاپان پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی ۔ ہلاکتیں چند ہزار تک محدود رہیں البتہ تباہی اور آبادیوں کی بربادی کی نوعیت ایسی تھی کہ دنیا لرز گئی ۔ ان حالات میں ، اس علاقے کے عام جاپانی شہریوں کی ہمت اور برداشت کی کہانیاں ناقابل یقین تھیں ۔ مرتے ہوئے لوگوں نے بھی دوسروں کے لئے ایثار اور قربانی کا مظاہرہ کیا ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے شہری کہاں سے آتے ہیں ۔ جنگ کے زمانے میں خاص طور پر عام شہریوں کے نظم وضبط اور ان کے کردار کا امتحان ہوتا ہے ۔ سب سے اہم بات تو شائستگی اور خوش اخلاقی ہے کہ دوسروں کا خیال رکھا جائے اور اپنی باری کا انتظار کیا جائے ۔ میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ جب تک ہم لائن لگانا نہیں سیکھیں گے ، خود کو مہذب کہنے کے قابل نہیں ہوسکتے۔ لائن ہم کہیں لگاتے ہوں یا نہ لگاتے ہوں ، بس ذرا سڑکوں پر چلنے والے ٹریفک کا ایک جائزہ لے لیں ۔ یہ دیکھیں کہ تناوٴ کے عالم میں لوگ ایک دوسرے سے کس انداز میں گفتگو کرتے ہیں ۔ یوں بھی ، سڑکوں پر اور بازاروں میں ہی کسی ملک کی معاشرت کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے ۔ ہم دنیا کے بیشتر ملکوں سے اس لئے بھی مختلف ہیں کہ ہم صفائی کو نصف ایمان کہتے ہیں اور گندگی ہماری فطرت کا حصہ بن گئی ہے ۔ جس طرح ہم کوڑا سڑک پر پھینکتے ہیں اس کے کئی واقعات اپنی چشم دید گواہی کی بنیاد پر آپ کو سناسکتا ہوں لیکن چلتے چلتے ایک واقعہ کہ جس کا ایک کردار جاپانی ہے ۔ یہ واقعہ میں نے ایک دوست سے سنا اور کئی بار میں نے اس کا ذکر کیا ہے ۔ کئی سال پہلے ، ایک تعلیمی ادارے کے پروفیسر نے اپنے دوجاپانی دوستوں کو کراچی آنے کی دعوت دی ۔ وہ آئے اور انہوں نے وہ کچھ دیکھا جوہم دیکھتے ہیں ۔ ان میں سے ایک نے ، اپنے میزبان سے ایک عجیب فرمائش کی انہوں نے کہا کہ جس طرح یہاں لوگ چیزیں سڑک پر پھینک دیتے ہیں ، میرا جی چاہتا ہے کہ میں بھی کروں ۔ اگر آپ اجازت دیں ۔ دراصل جاپانی مہمان سافٹ ڈرنک کا ایک خالی کین سڑک پر لڑھکانا چاہتے تھے کہ دیکھیں کیسا محسوس ہوتا ہے ۔ اپنے ملک میں تو وہ ایسا کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے ۔ افسوس کہ ان کے میزبان نے ، اپنے ملک کی عزت کی خاطر انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی ۔