سماجی اونچ نیچ۔ جمہوریت کی پسپائی

September 19, 2021

آج اتوار ہے۔ اپنے وارثوں سے ملنے ملانے، اپنی فکری جائیداد انہیں منتقل کرنے کا دن۔

ہمارے بیٹے بیٹیاں۔ پوتے پوتیاں۔ نواسے نواسیاں یہ سوال کررہی ہیں کہ گورے افغانستان میں 20سال رہنے کے باوجود وہاں جمہوریت کیوں نہ لاسکے جس کے لئے وہ اکثر ملکوں کو تہ و بالا کردیتے ہیں۔ جہاں فوجی حکومت آجائے وہاں پابندیاں عائد کردیتے ہیں۔ جمہوریت کو عام کرنے کے لئے انہوں نے کمیونزم کے خلاف سرد جنگ جاری رکھی۔ اب امریکی ڈالر، یورپی یورو افغان بھائیوں کو جمہوریت کی طرف کیوں مائل نہ کرسکے؟ امریکی عسکری ہیبت، یورپی علمی ذہانت افغانستان میں جمہوریت کے لئے رغبت پیدا نہ کرسکی۔ آخر کیوں؟

امریکی یورپی دانشوروں میں یہ بحث چل رہی ہے کہ کیا مغربی جمہوریت صدارتی یا پارلیمانی انسان کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ جمہوریت کے زوال کا بنیادی سبب معاشرے میں دولت کی اونچ نیچ قرار دی جارہی ہے۔ مالیاتی توازن نہیںہے۔ امریکہ یورپ دونوں میں جمہوریت خود اپنے زخم چاٹ رہی ہے۔ اسے عدم مساوات کہیں، نا برابری یا سماجی اونچ نیچ۔ اس نے مغربی جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں۔ امیر طبقہ ہر پہلو سے غالب ہوتا جارہا ہے۔ تحقیق ہورہی ہے کہ معاشرے میں یہ بلندی یہ پستی۔ کیا جمہوریت نے پیدا کی ہے حالانکہ جمہوریت تو یہ تفریق ختم کرنے کے لئے آئی تھی۔ دنیا کا سنجیدہ اور مدبر ہفت روزہ ’اکنامسٹ‘ تازہ ترین شُمارے میں خبردار کررہا ہے کہ غیر روشن خیال بائیں بازو سے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ بائیں بازو کی طرف جھکائو والی سیاسی شناخت کو کم طاقت ور نہ سمجھا جائے۔ کلاسیکی لبرلز کو ادراک کرنا چاہئے کہ ان کی جنگ کس کے خلاف ہے۔ اس سے پہلے ’اکنامسٹ‘ بھارت میں ’ہندو توا‘ کے غلبے پر کہہ چکا ہے کہ وہاں جمہوریت اور سیکولرازم کی ناکامی کے بعد ’ہندو توا‘ غلبہ پاچکے ہیں۔ دیوی دیوتا واپس آگئے ہیں۔ ہمارے ہاںبہت سے لوگ بھارتی جمہوریت کے بڑے قصیدے پڑھتے رہے ہیں۔وہ اس صورت حال پر کیا کہتے ہیں؟

یورپ میں سنجیدہ محققین کو فکر لاحق ہوگئی ہے کہ معاشرے کی تطہیر اور پیداواری وسائل کی از سر نو تقسیم کے لئے کمیونزم یا اس قسم کا کوئی معاشی نظام پھر نہ واپس آ جائے۔ 50انتخابی جمہوریتوں میں لیا گیا جائزہ انتباہ کررہا ہے کہ مغرب میں طبقاتی تضادات کے خلاف پرولتاری جدو جہد کو پھر یاد کیا جارہا ہے۔ ما بعد نو آبادیاتی نظام اور ما بعد کمیونزم اب اس طبقاتی تضاد کے خلاف کون سا نظام آئے گا؟طبقاتی تضاد اور درجاتی تقسیم بڑھتی جارہی ہے۔ فنانشل ٹائمز للکار رہا ہے کہ معاشرے کے زخم مندمل کرنے کے لئے انقلابی اصلاحات اور ایک ایسی سوسائٹی کی تشکیل ضروری ہے جو سب کے مفاد میں کام کرے۔ سب کی تحقیق یہ ہے کہ 1980 کی دہائی سے نابرابری میں اضافہ ہونا شروع ہوا ہے۔ خیال رہے کہ یہ وہی دور ہے جب افغانستان میں کمیونسٹ فوجوں کے خلاف امریکہ،پاکستان، مسلم ممالک مجاہدین کے ذریعے جنگ لڑ رہے تھے۔ 1979 میں کمیونسٹ فوج کے مقابلے میں خود امریکہ اپنی فوج لے کر نہیں اترا تھا۔ جیسے نائن الیون کے بعد امریکہ اپنے لائو لشکر سمیت نازل ہوا۔ کمیونزم کے خلاف جنگ مسلمانوں نے لڑی جس کے نتیجے میں اسلامی نظام کو برتری حاصل ہونی چاہئے تھی۔ کمیونزم کے خاتمے کا سہرا بھی مسلمانوں کے سر بندھنا چاہئے تھا مگر یہ کامیابی امریکہ نے اپنے سر مڑھ لی۔ یہی تاریخی غلط فہمی تھی۔ پھر امریکہ مسلمانوں کے لئے ویسا ہی دشمن بن گیا جیسے کبھی کمیونزم تھا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ نے جمہوریت کے نفاذ کے لئے جنگیں بھی لڑیں۔ مسلمان ملکوں خاص طور پر عراق، لیبیا میں تباہی مچائی۔ مقبول لیڈروں اور لاکھوں مسلمانوں کو ہلاک کیا۔ مسلمان بادشاہتیں اس کا ساتھ دیتی رہیں۔ مسلمان نوجوان امریکہ سے نفرت کرنے لگے۔

پاکستان کو ہر پرائی جنگ میں کودنے کا شوق ہے۔ اس لئے ان چار دہائیوں میں عدم مساوات کا سب سے بڑا مظہر پاکستانی معاشرہ بنا ہے۔ سیاسی حکمران ہوں یا فوجی۔ دولت مند افراد کو غلبہ نصیب ہوتا رہا ہے۔ نصف صدی سے راتوں رات ارب پتی بننے کی دوڑ جاری ہے۔ دولت اور پیداواری وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم میں کئی گنا اضافہ ہوتا رہا ہے۔60فیصد سے زیادہ آبادی اب بھی دیہات میں ہے۔ وہاں زرعی اراضی کی تقسیم ہوشربا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 70فیصد اراضی 20فیصد کے پاس ہے۔80فیصد عام کاشتکار خاندانوں کو بہت کم رقبہ ملتا ہے۔ اس لئے وہ 20 فیصد کے دست نگر رہتے ہیں۔ سب سے زیادہ سماجی عدم مساوات دیہی پاکستان میں ہے۔

شہروں میں ملازمتوں کی اجرتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کم کام کرنے والوں کی تنخواہیں زیادہ کام کرنے والوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ تنخواہوں کے ساتھ گاڑیوں اور گھروں کی سہولت معاشرے میں مزید عدم توازن پیدا کررہی ہے۔لاکھوں بیروزگار ہیں۔ لاکھوں کے پاس کام تو ہے لیکن تنخواہ اتنی کم کہ ہر ماہ قرض لئے بغیر گزارہ نہیں ہوتا۔ سماج میں اس اونچ نیچ نے جمہوری طرز حکومت کو امراء کی حکومت میں تبدیل کردیا ہے۔ دولت کی عدم مساوات سے جمہوری مزاحمت بھی ڈھیلی پڑ رہی ہے۔ سیاسی گروہ بندی اور محاذ آرائی بڑھ رہی ہے۔ طبقاتی تقسیم کم کرنے کی بجائے مزاحمت کا رخ لسانی، نسلی، علاقائی قوم پرستی اور فرقہ واریت کی طرف موڑا جارہا ہے۔ جمہوریت کی بنیاد ’ایک فرد ایک ووٹ‘ کو کھوکھلا کردیا گیا ہے۔ عدم مساوات صرف آمدنی میں نہیں ہے۔ تعلیم کے حصول میں بھی ہے۔ اعلیٰ تعلیم اتنی مہنگی ہے کہ عام پاکستانی کی رسائی ہی نہیں ہوسکتی۔ علاج معالجہ بھی اب پاکستان میں امیروں کی دسترس میں ہے۔ پرائیویٹ اسپتال معیاری علاج کرتے ہیں لیکن لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں۔ غریبوں کے سرکاری اسپتال دوائیں بھی فراہم نہیں کررہے۔ کووڈ 19 میں بھی اس کا تجربہ بار بار ہوا ہے۔

معاشرے کی یہ ناہموار ساخت بہرہ ور اور بے بہرہ میں دوریاں بہت زیادہ بڑھارہی ہے۔ ووٹنگ الیکٹرونک مشین سے ہو یا بیلٹ بکس سے۔ اس اونچ نیچ سے ووٹنگ کے رجحانات بھی سخت متاثر ہیں۔ جمہوریت ہر شہر کے باہر کھڑی ہاتھ مل رہی ہے کہ وہ معاشرے میں یکساں سہولتوں کے لئے آئی تھی۔ اب وہ صرف امراء کی سہولت کار بن گئی ہے۔ انسانیت کو سب سے زیادہ خطرہ نابرابری INEQUALTY سے ہے۔