پاکستان میڈیا اتھارٹی بل

September 19, 2021

تحریر:وسیم عباس طور ۔ ۔۔مانچسٹر
پاکستان میں میڈیا کو مختلف مشکلات کا سامنا رہا ہے، حکمرانوں کی ہمیشہ سے ہی کوشش رہی ہے کہ میڈیا وہی لکھے، سنائے اور دکھائے جو حاکم چاہتے ہیں،مارشل لا ادوار میں تو میڈیا پر کچھ زیادہ ہی اندھیرا چھایا رہا، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عمران خان کو اقتدا میں لانے میں بہت بڑا کردار میڈیا کا ہے لیکن تبدیلی سرکار اب میڈیا سے کچھ زیادہ خوش نہیں دکھائی دیتی جس کا ذکر متعدد بار عمران خان اور دیگر وزرا بھی کر چکے ہیں، اب موجودہ حکومت پاکستان میں میڈیا کو قابو کرنے کے لئے نیا قانون لانا چاہتی ہے، اگرچہ اس قانون کا کوئی حتمی ڈارفٹ تو ابھی تک سامنے نہیں آیا البتہ وفاقی وزیر اطلاعات نے مختلف مواقع پر اس کے کئی نکات پر روشنی ڈالی ہے جس کے مطابق حکومت ملک بھر میں میڈیا کے لئے گزشتہ تمام قوانین کو ختم کر کے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک نیا قانون متعارف کرانا چاہتی ہے۔ پاکستان میں میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے اس وقت مختلف قوانین کے تحت کئی ادارے کام کر رہے ہیں۔ پریس کونسل آرڈیننس 2002، نیوز ایجنسیز اینڈ بکس رجسٹریشن آرڈیننس 2002، دی نیوز پیپرز ایمپلائز (کنڈیشنز آف سروسز ایکٹ) 1973، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس 2002 اور دی موشن پکچرز آرڈیننس 1979 جیسے قوانین میڈیا کو خاص دائرہ کار تک محدود رکھنے کیلئے ہیں، موجودہ حکومت کی خواہش ہے کہ یہ تمام قوانین ختم کر کے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے لئے ایک اتھارٹی قائم کر دی جائے، پاکستان پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے دستیاب مسودے کے مطابق ویب ٹی وی، آن لائن نیوز چینل، یو ٹیوب چینلز کو لائسنس لینا ہوگا، اتھارٹی سے لائسنس لینے والے اتھارٹی سے اجازت لئے بغیر کسی بھی غیر ملکی براڈ کاسٹر کو اپنا ٹائم نہیں دیں گے، اتھارٹی کے بنائے گئے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں پر تین سے پانچ سال تک کی سزا، 25 کروڑ روپے تک کا جرمانہ کیا جائے گا، اس کے علاوہ مسودے کے مطابق ریاست کے سربراہ، مسلح افواج، قانون ساز اداروں اور عدالت کے خلاف نفرت انگیز مواد پھیلانے پر پابندی کی سفارش کی گئی ہے، اتھارٹی میڈیا اداروں سے مالی معاملات کی تفصیلات مانگنے کی مجاز ہوگی، اگرچہ وزیر اطلاعات مسلسل اس اتھارٹی کی خوبیاں بیان کر رہے ہیں لیکن اس مجوزہ بل کے اعلان کے بعد سے ہی تمام صحافتی، انسانی حقوق اور وکلا تنظیموں کے علاوہ حزب اختلاف کی تمام جماعتیں حکومت کی شدید مخالفت کر رہی ہیں جس کی بازگشت پارلیمنٹ سے لے کر لندن تک سنی جا رہی ہے، پاکستان میں صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی کال پر میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے خلاف صحافیوں نے پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دے رکھا ہے جس میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے بھی شرکت کرکے اظہار یکجہتی کیا، ویسے اس حکومت کا خاصہ رہا ہے کہ انہوں کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں کیا، شروع دن سے فیصلے میں کنفیوژن رہی ہے اور یہی کچھ انہوں نے میڈیا اتھارٹی کے بل کے ساتھ کیا اگر اتنے سنجیدہ اور رنجیدہ میڈیا انڈسٹری کے لئے ہیں تو ایک فائنل ڈرافٹ تیار کر کے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو بھجیں اور ان سے تجاویز لیں جس کے اس بل پر تحفظات ہیں انہیں دور کریں، دوسرا اگر اتھارٹی قائم کرنی ہے تو پارلیمنٹ میں بل پیش کریں اس پر کھل کر بحث کریں اگر پارلیمنٹ بل منظور کرے تو یقینا تمام سیاسی جماعتیں بھی متفق ہوں گی لیکن حکومت اپنی مرضی کا بل بنا کر اسے صدراتی ریفرنس کے ذریعے نافذ کر دینا چاہتی ہے جسے شاید کسی سطح پر قبول نہیں کیا جائے گا ، یقینا اس بل میں میڈیا سے وابستہ لوگوں کے لئے اچھے اقدامات بھی ہوں گے لیکن حکومت اگر خلوص نیت سے یہ اتھارٹی قائم کرنا چاہتی تو اسے تمام اسٹیک ہولڈرز اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ہوگا۔