دنیا ’’ملٹی پولر‘‘ بننے جارہی ہے ...؟

September 26, 2021

دنیا کی آبادی ساڑھے سات ارب ہوچُکی ہے۔اِتنی بڑی آبادی کا اِس سے پہلے تصوّر تک ممکن نہ تھا اور اب کرّۂ ارض کا شاید ہی کوئی ایسا حصّہ ہو، جہاں انسان نہ بستے ہوں۔ اِس میں برف سے جمے قطبین، تپتے صحرا اور سال بھر خوش گوار موسم والے علاقے، سب ہی شامل ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کم حیرت انگیز نہیں کہ اِس قدر بڑی آبادی کے باوجود جتنی ترقّی آج کے انسان نے دیکھی ہے، اِس سے پہلے تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔ گو کہ ماضی میں بھی خوش حال اور دولت مند مُمالک موجود تھے۔امیر اور طاقت وَر سلطنتیں بھی تھیں، لیکن عام آدمی تک ترقّی اِس طرح کبھی نہیں پہنچی تھی، جیسے آج وہ اِس کے ثمرات سمیٹ رہا ہے۔

اب گلگت کے پہاڑوں یا تھر کے دُور دراز گائوں میں بیٹھا ناخواندہ شخص قطبِ شمالی میں رہنے والے اپنے بیٹے سے کسی بھی وقت موبائل فون یا انٹرنیٹ کے ذریعے بات کرسکتا ہے۔ آج ہمیں یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں لگتی، کیوں کہ ہر شخص کے ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے، لیکن صرف چند سال پیچھے چلے جائیں، تو وہ وقت یاد آئے گا، جب محض ایک گھنٹے کے فضائی فاصلے پر واقع دبئی میں مقیم کسی فرد سے بات کرنے کے لیے گھنٹوں کال سینٹرز کے باہر قطار میں کھڑا ہونا پڑتا تھا۔

یہ تو ٹیکنالوجی کے کرشموں کی ایک مثال ہے، جب کہ زندگی کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو، جس نے زمین کے باسیوں کو متاثر نہ کیا ہو اور اُن کی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں نہ آئی ہوں۔ تاہم، ترقّی اور ٹیکنالوجی جس شعبے پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوئی، وہ عالمی سیاست ہے۔ اِس کے سبب طاقت کے محور اور ستون بدل گئے۔ طاقت کے مراکز کی تبدیلی کا سبب اسلحےکے ڈھیر نہیں، بلکہ اقتصادی ترقّی اور ٹیکنالوجی میں مہارت ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی،تو آج بھی چین اور امریکا کی بجائے روس سُپر پاور ہوتا کہ اب بھی دنیا میں سب سے زیادہ ایٹم بم اُسی کے پاس ہیں۔ دنیا کورونا وبا کے باوجود رُکی نہیں، بس اِتنا فرق پڑا کہ سرگرمیاں آن لائن ہوگئیں۔

جب کوئی تنازع یا بحران جنم لیتا ہے، تو دنیا سوچنے لگتی ہے کہ آخر کون سی طاقتیں یا فورم ایسا ہے، جہاں یہ معاملات منصفانہ طور پر حل کیے جا سکیں۔ایسا نہیں ہے کہ دنیا میں کوئی سُپر پاور یا بڑی طاقتیں موجود نہیں ۔ عالمی طاقتیں تو ہر خطّے میں موجود ہیں۔ امریکا ایک مسلّمہ سُپر پاور ہے، جسے چین اور روس بھی تسلیم کرتے ہیں، جب کہ چین، روس، یورپ اور جاپان بھی بڑی عالمی طاقتوں میں شامل ہیں۔چین اور بھارت کی مجموعی آبادی دو ارب ساٹھ کروڑ سے زاید ہے، جو دنیا کی ایک تہائی آبادی بنتی ہے۔اقوامِ متحدہ سب سے بڑا عالمی فورم ہے، جس کی سلامتی کاؤنسل اقتصادی پابندیوں سے لے کر فوجی مداخلت تک کی اجازت دے سکتی ہے۔پھر ہر علاقے کے اپنے طاقت وَر فورمز ہیں۔

مغربی دنیا کا جی۔7، یورپ میں نیٹو، چین کا شنگھائی فورم، جنوب مشرقی ایشیا کا آسیان، عرب ممالک کی عرب لیگ، افریقا کی آرگنائزیشن آف افریقن یونیٹی، مسلم ممالک کی او آئی سی اور جنوبی امریکا کی امریکن او اے سی سب ہی فعال ہیں، لیکن جب بھی عالمی یا علاقائی سطح کا کوئی تنازع سامنے آتا ہے، تو بلیم گیم شروع ہوجاتا ہے۔ سلامتی کاؤنسل ویٹو کے خوف سے ناکارہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ دنیا کے وہ ممالک اور عوام جو اُس تنازعے کا شکار ہوتے ہیں، ہر ایک کی منّتیں کرتے پِھرتے ہیں۔ایک طرف عظیم ترقّی اور ٹیکنالوجی کے کمالات اور دوسری طرف، انسانیت کی یہ بے بسی۔

یہ صُورتِ حال عالمی برادری کے لیے دعوتِ فکر ہے کہ اگر وہ خود کو واقعی اِس برادری کا رُکن سمجھتے ہیں، تو ایسا کوئی نظام کیوں وضع نہیں کرتے، جو کسی تنازعے کو المیہ بننے سے قبل ہی روک دے۔ اِن تنازعات کا شکار وہ لاکھوں بے بس انسان بنتے ہیں، جن کا مُلکی یا عالمی سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔پھر یہ کہ معاملہ صرف تنازعات ہی کا نہیں ہے، بہت سے دیگر مسائل بھی ہیں، جن کا دنیا سامنا کر رہی ہے۔ان میں موسمیاتی تبدیلیاں سرِفہرست ہیں کہ یہ امیر و غریب، دونوں طرح کے ممالک کو یک ساں طور پر متاثر کر رہی ہیں۔

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، سال میں دو مرتبہ 50 ڈگری کی حد پار کرنے والے ممالک کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔نیز، گلیشئرز کا پگھلنا، قطبین کے برفانی تودوں کی تباہی، طوفانوں میں اضافہ، خشک سالی بھی اہم مسائل ہیں۔ جنگیں اور تنازعات تو پھر بھی قابو میں آسکتے ہیں، لیکن آبادی میں غیر معمولی اضافہ اور کورونا جیسی وبائیں تو چھوٹے ممالک کو بھیک مانگنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ کورونا ہی کا معاملہ دیکھ لیجیے۔ اگر ترقّی یافتہ ممالک اِن غریب ممالک کی مدد نہ کرتے، تو آج وہ کہاں کھڑے ہوتے؟یہ کہنا بہت آسان ہے کہ’’ انسانیت کی مدد سب پر فرض ہے‘‘ مگر اِس پر عمل آسان نہیں کہ راہ میں تنازعات اور مفادات کے بھاری پتّھر پڑے ہیں۔

حل کیا ہے؟ اِس ضمن میں کئی کلیے زیرِ غور ہیں۔ کیا دنیا کو اِسی طرح چلنے دیا جائے، جس میں ایک عالمی سُپر پاور ہو اور باقی بڑی طاقتیں اپنے اپنے علاقوں کی نمائندگی کریں، جیسے چین اور روس ایشیا میں، یورپی یونین، برطانیہ یورپ اور مِڈل ایسٹ تک، مسلم ممالک کا بلاک اپنے علاقوں میں، بھارت اور جاپان جنوبی ایشیا سے جنوب مشرقی ایشیا تک، جب کہ کینیڈا، آسٹریلیا اور جاپان انڈو چائنا علاقے میں کردار ادا کریں۔ جاپان اور بھارت سلامتی کاؤنسل کی مستقل رکنیت کے امیدوار ہیں، لیکن اُنہیں کافی مخالفت کا سامنا ہے، کیوں کہ فی الوقت دنیا اِس طرح کی کسی تبدیلی کے موڈ میں نہیں ہے۔

دوسرا نکتہ جس پر غور کیا جا رہا ہے، وہ یہ ہے کہ دنیا چین کو سُپر پاور کے طور پر قبول کرے، یعنی اُسے سوویت یونین کی جگہ دے دی جائے۔یہ تقریباً ویسا ہی معاملہ ہوگا، جیسے سوویت یونین اور امریکا کا تھا۔چین بلاشبہ اقتصادی طور پر دنیا کی برتر قوّت بن چُکا ہے اور اُس کے صدر شی جن پنگ کا بھی یہی کہنا ہے کہ اب اُن کا مُلک دنیا کے اسٹیج پر مرکزی کردار ادا کرنے کے قابل ہو چُکا ہے۔ گو کہ چین بھی سوویت یونین کی طرح کمیونسٹ ،سوشلسٹ نظام کی نمائندگی کرتا ہے، لیکن اُس نے اِس نظام میں خاطر خواہ تبدیلیاں کی ہیں۔اِن دونوں ممالک میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ سوویت یونین کی تمام تر توجّہ کمیونسٹ نظام کے پھیلائو پر تھی، جس کے سبب اُس کا امریکا اور مغرب سے ٹکرائو ہوا۔

’’ آئرن کرٹن‘‘ جیسی اصطلاحات عام ہوئیں۔روس نے اپنا میدان مشرقی یورپ اور نو آزاد ایشیائی مملکتوں تک دراز رکھا، جس کی بنیاد اُس کی فوجی طاقت تھی۔ایک زمانے میں وہ امریکا سے خلائی دوڑ میں بھی آگے بڑھ گیا تھا۔تاہم، امریکا نے اپنی فوجی قوّت کے ساتھ اقتصادی ترقّی کے ذریعے سوویت یونین کو پچھاڑ دیا۔ روسی بلاک میں شامل مشرقی یورپ نے امریکا کے زیرِ اثر مغربی یورپ کا بلند ہوتا معیارِ زندگی دیکھا، تو وہاں بھی سوچ بدلنے لگی۔امریکا نے اِس ترقّی کو سٹیلائیٹ کے ذریعے گھر گھر پہنچا دیا۔پھر امریکا اور یورپ نے مل کر افغانستان میں روس کی فوجی طاقت کی قلعی بھی کھول دی۔

درحقیقت یہ مغربی جمہوری اور اقتصادی نظام کی سوویت یونین پر فتح تھی، جس سے آج تک روس جانبر نہیں ہوسکا۔چین، روس کی یہ غلطی دُہرانے کے لیے تیار نہیں۔ اُس نے جنگوں اور تنازعات میں اُلجھنے کی بجائے اپنی تمام تر قوّت اقتصادی ترقّی کے تابع کردی ہے۔ اِس ترقّی کے پیشِ نظر ’’چینی ماڈل‘‘ اپنانے والے ممالک کی فہرست طویل ہوتی جا رہی ہے۔اب یہ باقاعدہ ایک عالمی نظریہ بن چُکا ہے کہ فوجی نہیں، اقتصادی طاقت ہی کسی مُلک کے بڑے اور سُپر پاور ہونے کا فیصلہ کرتی ہے۔ امریکا اور مغرب نے اِس نظریے کو دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنا رہنما بنایا تھا، لیکن وہ کئی جنگوں میں اُلجھ گئے، جن سے ماہرین کے مطابق بچا جاسکتا تھا۔

اِن جنگوں میں اُن کی توانائی ضائع ہوئی، جب کہ پسپائی کے سبب شرمندگی کا بوجھ بھی اُٹھانا پڑا۔ پسپائی سے اُن ممالک کے عوام کے حوصلے پست ہوئے، تو اُن کے اتحادیوں پر بھی منفی اثرات مرتّب ہوئے۔ اُن کے اعتماد کو دھچکا لگا اور یہ بات عام ہوئی کہ طاقت کی بجائے سرحدیں زیادہ اہم ہیں کہ پڑوسی ہمیشہ رہتے ہیں، قابض طاقتیں چلی جاتی ہیں۔ چین کی خوش قسمتی ہے کہ اُس کے پاس اقتصادی وسائل ہیں ا ور وہ تیزی سے جدید ٹیکنالوجی بھی حاصل کرتا جارہا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اُس نے ابھی تک خود کو تنازعات سے فاصلے پر رکھا ہوا ہے۔

شمالی کوریا کا واحد اتحادی ہونے کے باوجود اُس نے امریکا سے اُلجھنے کی بجائے مفاہمت کی پالیسی اپنائی اور اُس پر عالمی پابندیوں کی پاس داری کی، بلکہ اُسے امریکا سے مذاکرات پر بھی مجبور کیا۔اِسی طرح اُس نے شام، یمن تنازعات اور ایران کے نیوکلیئر معاملے پر بھی محتاط انداز اپنایا۔ وہ کشمیر کے معاملے پر ہمارے قریب ہے، لیکن ساتھ ہی تنازع بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا بھی مشورہ دیتا ہے۔

افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد چین کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج سامنے آیا ہے اور شاید یہ اُس کی بڑی عالمی اور علاقائی طاقت ہونے کی آزمائش بھی ہو۔ ایک طرح سے دیکھا جائے، تو مغرب اور امریکا نے گیند اُس کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔ افغانستان اُس کا سرحدی پڑوسی ہے اور خطّے میں چین ہی وہ واحد مُلک ہے، جو افغانستان کی حقیقی بحالی کی صلاحیت رکھتا ہے۔البتہ یہ بھی یاد رہے کہ افغان تنازعے میں چین، امریکا، یورپ اور روس آپس میں کافی قریب ہیں۔ صدر شی جن پنگ نے افغان ایشو پر صدر بائیڈن سے ٹیلی فون پر ڈیڑھ گھنٹہ گفتگو کی۔

گو کہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف بیانات دے رہے ہیں، لیکن افغان معاملے پر ہر کام مشاورت سے ہو رہا ہے۔ سلامتی کاؤنسل کے دونوں اجلاسوں میں دونوں ممالک نے نمائندہ افغان حکومت کے قیام پر زور دیا۔ طالبان حکومت کے تسلیم کرنے کے معاملے میں کوئی جلد بازی نہیں کی گئی۔اِسی طرح امدادی معاملات میں اقوامِ متحدہ کو سامنے رکھا گیا ہے، جس کی چھے سو ملین ڈالرز امداد کی اپیل پر صرف ایک بلین ڈالرز فراہم کرنے کے وعدے کیے گئے اور یہ رقم دینے کی بھی تاریخ اور طریقۂ کار واضح نہیں کیا گیا۔ یہاں یہ سوال اہم ہے کہ کیا افغان تنازع دیگر تنازعات کے حل کے لیے ماڈل بن سکتا ہے؟

ملٹی پولر دنیا کی شکل کب اور کیا ہوسکتی ہے؟ اِس پر بات ہوتی رہنی چاہیے، کیوں کہ یہ ہماری آیندہ کی خارجہ اور داخلہ پالیسیزپر اثر انداز ہوگی، لیکن اِس کا یہ مطلب بھی نہیں لیا جاسکتا کہ ایسا کل ہی ہو جائے گا۔عالمی تبدیلیاں ایک خاص طریقۂ کار سے گزرتی ہیں، اِس لیے ہمیں بہت تدبّر سے فیصلے کرنے ہوں گے۔ امریکا ہو یا کوئی اور مُلک، ہمیں اُن سے تعلقات میں اپنے مُلکی، قومی مفادات کو اولیت دینی ہوگی۔ گو کہ خطّے کی موجودہ صُورتِ حال سے ہمیں فائدہ ہوا اور علاقائی فضا ہمارے لیے اطمینان اور اعتماد کا باعث ہے، لیکن پھر بھی کسی طرح کی جَلد بازی یا جذباتی فیصلوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ایف اے ٹی ایف جیسے معاملات سَر پر کھڑے ہیں۔

واضح رہے، طاقت کے عالمی مراکز پر اب بھی امریکا کے اثرات برقرار ہیں۔ لہٰذا، افغانستان یا کسی اور مُلک کے مفادات کی نگہہ بانی ہماری پالیسی نہیں ہونی چاہیے۔ عین ممکن ہے کہ مستقبل میں کوئی ایک ایسا ورلڈ آرڈر وجود میں آئے، جو امریکا کو سُپر پاور، جب کہ چین، روس، یورپ اور جاپان کو بڑی طاقت تسلیم کر لے۔پھر یہ طاقتیں شدّت پسندی اور ایسے ہی دیگر معاملات سے نمٹنے کے لیے چھوٹے اور ترقّی پذیر ممالک کی مدد کریں۔تاہم، یہ واضح ہے کہ امداد یا بھیک سے کچھ نہیں ہوگا۔ لہٰذا، ایک ایسے ورلڈ آرڈر کی ضرورت ہے، جس میں بڑی طاقتوں اور غریب ممالک کا کردار منصفانہ طور پر واضح اور متعیّن ہو۔نیز، اقوامِ متحدہ اور اس کے مالیاتی اداروں کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کیا جائے اور اُنہیں سیاست سے نجات دِلا کر خود مختاری دی جائے۔

اِس منظرنامے میں چھوٹے ، خاص طور پر اُن ممالک کے لیے بھی سبق ہے، جو برسوں سے تنازعات حل کرنے کی بجائے اُنہیں طول دئیے جا رہے ہیں۔کم از کم اب تو اُنہیں اپنے عوام کے معیارِ زندگی پر توجّہ دینے کی اہمیت سمجھ آجانی چاہیے۔ جنوبی کوریا، ویت نام، انڈونیشیا، ملائیشیا اور سنگاپور کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جو غیر ضروری معاملات سے جان چُھڑا کر کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔

غریب اور چھوٹے ممالک بڑی طاقتوں کی اجارہ داری کا رونا تو بہت روتے ہیں، اُن کی سازشوں کا بھی بڑھ چڑھ کر ذکر کرتے ہیں، لیکن اپنے معاملات پُرامن طریقے سے حل کرنے پر تیار نہیں۔ اگر وہ سُپر پاور یا عالمی طاقتوں کا کردار محدود کرنے کے خواہاں ہیں، تو اُنھیں سب سے پہلے حوصلے اور جرأت سے اپنے تنازعات حل کرنے ہوں گے۔ اس کے بعد ہی ان ممالک میں ترقّی ممکن ہوگی اور پائیدار امن آسکے گا۔