آہ۔۔۔ میرے والد

October 03, 2021

عاتکہ ملک

اِس مقولے ’’باپ شجرِ سایہ دار ہوتا ہے‘‘ کی معنویت تب عیاں ہوئی جب میرے والد محترم ماہِ ستمبر میں طویل علالت کے بعد اِس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے سر سے سائبان ہٹا کر تپتی دھوپ میں کھڑا کردیا ہو۔ یہ سوچ کر دلی کیفیت عجیب سی ہو جاتی ہے کہ جب گھر جائوں گی تو ابو اپنے کمرے میں مخصوص جگہ پر بیٹھے نہیں ہوں گے، نہ مجھ سے حال احوال پوچھیں گے، نہ ملکی سیاست پر کوئی تبصرہ کریں گے۔

میرے والد محترم مولانا میاں محمد عبدالملک لدھیانوی ایک باعمل عالم دین تھے جو پوری زندگی اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چلے۔ دینی معاملات ہوں یا دنیاوی، وہ حق اور سچ بات کرنے سے کبھی نہیں گھبراتے تھے۔ ہر مشکل گھڑی میں اپنے پرائے سب کے کام آنا، جھوٹ نہ بولنا، وعدہ خلافی نہ کرنا، وقت کی پابندی کرنا، نماز، روزہ اور دیگر ارکانِ دین پر سختی سے کاربند رہنا غرض ایک سچے مومن کی تمام صفات والد صاحب میں موجود تھیں۔ وہ روحانی علوم پر بھی دسترس رکھتے تھے، اللہ نے ان کے ہاتھ میں شفا دی تھی، کتنے ہی سائل و مریض ان کے ہاتھ سے شفایاب ہوئے۔

اللہ کی طرف سے ودیعت کردہ ایک صفت ان میں ایسی تھی جو ہمارے لئے ہر ابتلا و آزمائش میں قلبی اطمینان کا باعث بنی، وہ تھا ان کا اللہ تبارک تعالیٰ کی ذات پرپختہ یقین کہ وہ ہر آفت و مصیبت سے ہمیں نجات دے گا اور اسی یقین کی بدولت رب العزت نے ہرآزمائش میں ہمیں سر خرو کیا۔وہ سیلف میڈ انسان تھے۔ اوائل جوانی میں ہی معاش کے لئے کراچی آگئےتھے لیکن کام کے ساتھ دینی تعلیم کے حصول کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔جامعہ اشرفیہ لاہور کے بانی جناب مفتی حسنؒ، جامعہ علوم الاسلامیہ کے علامہ محمد یوسف بنوریؒ اورمفکراسلام مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ ان کے مرشد و استادوں میں سے تھے۔

انہوں نے اپنی اولاد کی تربیت و تعلیم میں ہمیشہ دینی و دنیاوی دونوں پہلوئوں کو سامنے رکھا۔اللہ نے انہیں بیٹوں کی نعمت کی نسبت بیٹیوں کی صورت میں اپنی رحمتوں سے زیادہ نوازاتھاجس پرہم نےہمیشہ ان کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتےہی دیکھا بلکہ بہت سے معاملات میں تووہ بیٹوں سے زیادہ ہم بیٹیوں کو اولیت دیتےتھے۔انہوں نے ہماری دینی و دنیاوی دونوںتعلیم پر خصوصی توجہ دی اورہمیں یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کیلئےبھی بھیجا۔مجھے یاد ہے جب میں نے شعبہ صحافت اپنایاتو وہ بہت خوش ہوئے اور ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتےرہے۔ابتدا میں کچھ عرصہ ایک فوڈ میگزین سے بھی منسلک رہی وہاںکھانے پکانے سے متعلق مضامین لکھتی حالانکہ ابو کو اس موضوع میں دلچسپی نہیں تھی لیکن وہ صرف اس لئے کہ ان کی بیٹی نے لکھا ہے ہر آرٹیکل پڑھتے،مگراخبار کے شعبہ ایڈیٹنگ میں آنے کے بعد میر ی نثری صلاحیت کچھ دب سی گئی اور طبیعت کی سستی بھی آڑےآتی۔ والد صاحب مجھے اکثرلکھنے پر زور دیتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں کہتے کہ’’اےلڑکی تولکھتی کیوں نہیں، تحریر تو ایک صحافی کے نام کو زندہ رکھتی ہے‘‘۔اب ان کے جانے کے بعد قلم اٹھایا ہے تو سوچتی ہوں ان کی زندگی میں ہی کچھ لکھ لیتی تو کتنا خوش ہوتے۔

ہمارے خاندان کے علمائے کرام نے تحریک آزادی ہند میں انگریز کے خلاف بھرپور جدوجہد کی تھی، بے مثال قربانیاں دیتے ہوئے طویل جیلیں کاٹی تھیں، اس باب میں والد صاحب ہمیں مختلف واقعات کے ذریعےآگاہ کرتے رہتے تھےاور اس حوالے سے آخری چند ماہ میں کتاب بھی زبانی تحریرکروارہے تھے جس کا مسودہ اپنی وفات سے دو ہفتے پہلے انہوں نےمکمل کیاتھا۔ان شاءاللہ اس کی کتابی شکل میں اشاعت بھی جلد ہو گی۔ چند سال قبل انہوں نے نماز کے مسائل و ا ہمیت پر بھی آسان فہم زبان میں ایک جامع کتاب تحریر کی تھی۔ دیگر رسائل، تاریخی و دینی کتب پڑھنےکے علاوہ اخباربینی بھی زندگی بھران کا ایک لازمی معمول رہا،آخری وقت میں بینائی کمزور ہونے کی بنا پرچھو ٹی بہن ان کو اخبار پڑھ کرسناتی،خبریں سنتے ہوئے ساتھ ساتھ تبصرہ بھی کرتے۔کس کس بات کو یاد کروں ان کی گفتگو،چلنے پھرنے،کھانا کھانے کا انداز سب ہی تو ذہن میں تازہ رہتا ہے۔

ان کی ہمیشہ سےشدید خواہش تھی کہ انہیں جنت البقیع کی مٹی نصیب ہو، وہ پورے تیقن کے ساتھ کہتے کہ اللہ کے فضل و کرم سےمیری مٹی مدینے کی ہے۔لیکن جب کورونا وبا پھیلنے لگی اور حرم مقدس جانے پر بھی پابندی عائد ہوگئی تو بہت افسردہ ہوئے، انہیں اپنی بیماری کے باعث اللہ کے گھر جانااب مشکل نظر آرہا تھااورآخر اللہ نےانہیں ہمیشہ کیلئے اپنے پاس بلالیا۔اللہ تواپنے بندے کی نیت پر فیصلہ کرتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت ان کی قبر کی مٹی کو جنت البقیع کی مٹی بنادے، ان کی مغفرت فرمائے اورانہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔آمین !