لاہور کا امیر، حضرت میاں میرؒ

October 12, 2021

عہدِ مغلیہ میں لاہور کئی حوالوں سے مرکزیت کا حامل رہا۔ جغرافیائی اور سیاسی اہمیت کے ساتھ لاہور کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی یہاں رہنے والے ان اولیاء کی نسبت سے تھی جو اپنے تن من کو عشق کی بھٹی میں جلا کر سونا کر چکے تھے۔ لاہور کو خدا نے کئی برکتوں سے نوازا ہے۔ لاہور کی فضاؤں کو روحانیت کی کرنوں سے جگمگانے والے حضرت میاں میرؒ کا جنم بھی سندھ میں ہوا۔ وہ ٹھٹھہ کے قریب ایک قدیم شہر سیوستان جسے سیہون بھی کہا جاتا ہے میں سولہویں صدی کے درمیانی عشرے میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان باطنی اور روحانی فضائل کی بنا پر علاقے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

ان کی والدہ کو رابعہ ثانی کہا جاتا تھا، اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ خدا سے محبت اور سلوک کی کِس اعلیٰ منزل پر فائز تھیں۔ بچپن میں والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ والدہ نے ظاہری تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ اپنے بیٹے کی روحانی تربیت بھی کی اور سلوک کے رستے کا مسافر بنایا۔ اس رستے پر چلتے ہوئے وہ سیوستان کے قریب ایک پہاڑ کے غار میں ایک صوفی بزرگ شیخ خضر ، جوہر وقت یادِ الٰہی میں مصروف رہتے تھے، کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کی بیعت اختیار کی۔ ایک عرصہ انہی پہاڑوں میں مرشد کی صحبت میں سخت ریاضت اور مجاہدے کے عمل سے گزرے۔ جب روحانی تعلیم و تربیت کی تکمیل کا مرحلہ مکمل ہوگیا تو مرشد نے کوچ کا حکم دیا۔ 25 سال کی عمر میں لاہور پہنچے اور تمام عمر اسی شہرِ بے مثال میں مقیم رہے۔ حضرت میاں میرؒ کا سلسلۂ نسب حضرت عمر فاروقؓ اور سلسلۂ طریقت شیخ عبد القادر جیلانیؒ سے ملتا ہے۔ علوم ظاہری اور باطنی سے مالا مال ولی نے لاہور آمد کے بعد سب سے پہلے اس علاقے کے علوم و فنون کی تعلیم حاصل کی اور پھر خلقت کی تربیت کی طرف راغب ہوئے۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ ریاضتوں میں گزرا۔ شہزادہ جہانگیر کو حضرت میاں میرؒ سے بہت عقیدت تھی۔ تزک جہانگیری میں اس نے اس بارے میں خود اعتراف بھی کیا ہے کہ جب مجھے لاہور میں ایک بابرکت اور صاحبِ حال ہستی کے بارے میں علم ہوا جو توکل اور فقر کی دولت سے مالا مال ہیں تو میرا دل ان کی طرف کھنچنے لگا لیکن ان دنوں لاہور جانا مشکل تھا اس لئے خط کے ذریعے ملاقات کی استدعا کی۔ میرے اشتیاق اور التجا نے حضرت کو دہلی کے سفر پر آمادہ کیا۔ اُن کی صحبت میں گزرے دن بہت بابرکت تھے۔ ان کے فقر کا یہ عالم تھا کہ خواہش کے باوجود انہیں نذر نیاز کی جرأت بھی نہ کر سکا۔ شاہجہاں کو دو مرتبہ حضرت میاں میرؒ کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ ہر بار میاں میرؒ نے شاہجہاں کو یہی نصیحت کی کہ ایک منصف بادشاہ کو اپنی رعایا اور سلطنت کا خیال رکھنا چاہئے اور اس سلسلے میں اپنی تمام قوت صرف کرنی چاہئے۔ رعایا کی آسودگی ملک کو آباد، خوشحال اور محفوظ بناتی ہے۔ سکینۃ الاولیاء میں حضرت میاں میرؒ کے حوالے سے بہت سے واقعات درج ہیں جن میں شاہجہان کا یہ بیان بھی کہ میں نے توکل اور فقر میں حضرت میاں میرؒ جیسا دوسرا کوئی درویش صفت انسان نہیں دیکھا۔ دارا شکوہ کو حضرت میاں میرؒ سے محبت نہیں عشق تھا۔ وہ اکثر عام طالب کی طرح ان کی محفل میں بیٹھا اُن کی باتیں سنتا رہتا۔

اس کا قول ہے کہ اگر اخلاق کو کسی انسان کی شکل میں تجسیم کر دیا جائے تو حضرت میاں میرؒ کی صورت بن جائے گی۔ حضرت میاں میرؒ کے حجرے میں ایک پرانا بوریا بچھا ہوا تھا جس پر بادشاہ، شہزادے، پیر، فقیر، درویش اور جو بھی ملاقات کے لئے آتا بیٹھتا تھا۔ حضرت میاں میرؒ بہت کم لوگوں کو دائرۂ بیعت میں لیتے تھے لیکن جب بیعت کر لیتے تو پھر اسے تین چیزوں کم خوری، کم خوابی اور کم گوئی کی سختی سے تلقین کے ساتھ یہ نصیحت بھی کرتے کہ حق کی طلب کو آسان مت جانو، یہ بہت مشکل رستہ ہے کیوں کہ حق کو پانے کے لئے غیر کا خیال تک ترک کرنا پڑتا ہے۔ حضرت میاں میرؒ کے چند اقوال جن پر عمل کیا جائے تو دین و دنیا سنور جاتے ہیں۔ انسان کے پاس صرف ایک دل ہے جس میں کوئی ایک چیز سما سکتی ہے۔ اللہ کے علاوہ کسی اور کو دل میں بسانا شرک ہے۔ صرف عمل کے ذریعے منزل تک پہنچا جا سکتا ہے اور سلوک کی منزل کے طالب کو ہر لمحہ یہ خیال کرنا چاہئے کہ اس کا دل ہر طرح کی برائی سے پاک رہے۔ جب تک ظاہر پاک نہ ہو باطن کی پاکیزگی بھی مشکوک رہتی ہے۔ اولیاء اللہ نفس کی موت کو ابدی زندگی سمجھتے ہیں جو نفس پر قابو پا لیتا ہے وہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ ہر فرد تین چیزوں نفس، دل اور روح کا مرکب ہے۔ نفس کی اصلاح شریعت، دل کی اصلاح طریقت اور روح کی حقیقت کے ذریعے ممکن ہوتی ہے۔ صوفی جب کمال کے درجے تک پہنچ جاتا ہے تو پھر اس کا دل ہر خطرے سے پاک ہو جاتا ہے کیونکہ کوئی چیز اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ حضرت میاں میرؒ کی ہستی نیکی، فقر اور پاکیزگی کا پیامبر تھی۔

7 ربیع الاول 1635ء کو حضرت میاں میرؒ نے اس جہان کو الوداع کہا تو انہیں موضع ہاشم پور میں دفن کیا گیا اب یہ علاقہ بستی میاں میر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ امرت سر میں سکھوں کے مذہبی مقام گولڈن ٹمپل کا سنگِ بنیاد بھی حضرت میاں میرؒ نے رکھا جس سے ہم حضرت میاں میرؒ کی ذاتِ بابرکت کی اہمیت کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ آج بھی سکھ مت کے ماننے والے ان کے دربار پر حاضری دینا سعادت سمجھتے ہیں۔ حضرت میاں میرؒ اکبر کے دور میں بھی لاہور کے امیر تھے اور آج بھی ہیں۔ دل اور روح کی کھڑکی سے جھانک کر دیکھئے ایک الگ منظر نامہ آپ کا منتظر ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)