رونا کس بات کا ہے

August 04, 2013

فرض کریں کہ یہ ایک مثالی جیل ہوتی جہاں پولیس کے چاق و چوبند اہلکار مامور ہوتے ،ان کے پاس صاف ستھری رائفلیں ہوتیں، وہ چوبس گھنٹے عقابی نظروں کے ساتھ جیل کا گشت کرتے، جیل کی چار دیواری مضبوط اور اونچی ہوتی، دیواروں پر خاردار تاریں نصب ہوتیں، رات کو سرچ لائٹیں وقت پر روشن ہو جاتیں، بجلی کا متبادل نظام چالو حالت میں ہوتا، جیل میں کسی قیدی کے پاس موبائل فون یا کوئی بھی غیر قانونی شے نہ ہوتی، ہر قیدی کو جیل مینوئل کے مطابق ٹریٹ کیا جاتا، قیدیوں کی گنتی ذمہ داری کے ساتھ کی جاتی، جیل میں موجود جاسوس ہمہ وقت چوکس رہتے اور مشکوک قیدیوں کے خلاف اپنے افسران کو بروقت اطلاع دیتے، خطرناک قیدیوں کو خصوصی سیل میں رکھا جاتا، پیشگی اطلاع کے بغیر چھاپے مارے جاتے… تو کیا ایسی جیل پر حملے کی صورت میں بھی طالبان اپنے سینکڑوں ساتھیوں کو رہا کروا لے جانے میں کامیاب ہو جاتے؟ جواب ہے جی ہاں اور اس جواب کی وجہ نہایت خطرناک ہے یہ وجہ تلاش کرنے کے لئے ہمیں دو سوالات کا جواب دینا ہوگا، پہلا کیا اس حملے کو روکنے کی ذمہ داری جیل میں تعینات پولیس اہلکاروں پر عائد ہوتی ہے؟ دوسرا کیا ڈیرہ اسماعیل خان، جیل پر حملے کی پیشگی اطلاع ملنے کے باوجود کوئی تدبیر ممکن تھی؟
اگر ایک ملک حالت امن میں ہو اور اس کے ہمسایہ ملک کی فوج اچانک رات کے وقت سرحد سے ملحقہ شہر میں واقع جیل پر حملہ کردے تو کیا وہ دشمن فوج جیل توڑنے میں کامیاب نہیں ہوگی؟ یقینا ہوگی کیونکہ ایک آئیڈیل جیل بھی اس قسم کے حملے کو روکنے کے لئے نہیں بنائی جاتی۔ جیل کے حفاظتی انتظامات تو عام جرائم پیشہ لوگوں، چور، قاتلوں، ڈاکوؤں وغیرہ کو مدنظر رکھ کر کئے جاتے ہیں اور اگر کسی جیل میں یہ انتظامات درست ہوں تو اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے کہ وہاں سے کوئی چور ڈاکو اپنے قیدیوں کو چھڑا کر لے جاسکے۔ جو حملہ ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں ہوا وہ ایک فوجی حملہ تھا، اسے روکنا زنگ آلود بندوق بردار سپاہیوں کے بس کی بات نہیں تھی لہذا سوال نمبر ایک کا جواب نفی میں ہوگا۔
ہمارا ملک حالت جنگ میں ہے مگر ہم نے سرکاری طور پر کوئی اعلان جنگ نہیں کر رکھا اور عوام کی اکثریت اس جنگ سے یوں لاتعلق ہے جیسے یہ جنگ مریخ میں کہیں لڑی جارہی ہے۔ حالت امن میں فوج کو ایک میجر کی معیت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کے لئے کئی گھنٹوں کا وقت درکار ہوتا ہے، انہوں نے اپنی بندوقوں کی نالیاں صاف کرنی ہوتی ہیں، بوٹ پالش کرنے ہوتے ہیں، گاڑیوں کو ترتیب سے لگانا ہوتا ہے اور پھر ایک procedure standard operating کے تحت قافلہ حرکت میں آتا ہے۔ جب ہم نے یہ ماننا ہی نہیں کہ ہم حالت جنگ میں ہیں تو پھر اس واویلے کی کیا تک کہ جیل حملے کی پیشگی اطلاع دے دی گئی تھی عین ممکن ہے اگر فوج کا متعلقہ بریگیڈ کمانڈر وہاں اپنی فورسز تعینات کر دیتا تو یہ حملہ رک سکتا تھا مگر یہ بھی ہوسکتا تھا کہ اس صورت میں حملہ کسی اور جیل پر ہو جاتا، کیونکہ اس قسم کی انٹلیجنس الرٹس آئے دن جاری ہوتی ہے جن میں سے بے شمار غلط بھی ثابت ہوتے ہیں، اگر ایسی ہر انٹلیجنس رپورٹ پر فوجوں کی تعیناتی شروع ہو جائے تو پھر ہر اس سرکاری ادارے پر فوج کو تعینات کرنا پڑے گا جو ریاست کی نمائندگی کرتا ہے خواہ وہ ڈی سی او ہاؤس ہو یا کمشنر ہاؤس جو ممکن نہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں طالبان تین گھنٹے سے زائد وقت تک رہے مگر اس دوران بھی فوج وہاں نہ پہنچ سکی جو یقینا ایک سنگین ترین بات ہے جبکہ کینٹ کا فاصلہ متعلقہ جیل سے سات منٹ سے زیادہ کا نہیں۔ لیکن بات وہیں آکے رکتی ہے کہ ہم اپنے آپ کو حالت جنگ میں نہیں سمجھتے، ہر جیل کینٹ سے قریب نہیں ہوتی اور ہر انٹلیجنس رپورٹ پر فوج تعینات نہیں کی جاسکتی لہذا دوسرے سوال کا جواب بھی نفی میں ہوگا۔جس ملک میں جی ایچ کیو پر حملہ ہو جائے اور کئی گھنٹے کی لڑائی کے بعد اسے پسپا کیا جاسکے وہاں بیچاری ڈی آئی خان جیل کی کیا اوقات۔ دہشت گردی کے جن سے نمٹنے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ بطور قوم ہم اس مسئلے کو own کرنے کو ہی تیار نہیں۔
معاشرے کا ایک طبقہ یا تو طالبان کے طرز عمل کو باقاعدہ جائز سمجھتا ہے اور ان کے اقدامات پر خوشی کے شادیانے بجاتا ہے یا پھر سرے سے یہ ماننے کو ہی تیار نہیں کہ طالبان یہ کام کرتے ہیں، دوسرا طبقہ وہ ہے جو طالبان کی منت سماجت پر اترا ہوا ہے اور مذاکرات کو ہی مسئلے کا حل سمجھتا ہے، تیسرے وہ لوگ ہیں جو ان کے نام لئے بغیر ان کی مذمت کرتے ہیں مثلاً جو کوئی بھی یہ دہشت گردی کرتا ہے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا، یہ وہ ہومیوپیتھک مذمت ہے جو کسی کام کی نہیں، پانچویں کیٹگری میں وہ لوگ آتے ہیں جو کہتے ہیں کہ پہلے طاقت کے استعمال سے انہیں کمزور کیا جائے اور اس کے بعد ان سے مذاکرات کئے جائیں اور پھر وہ لوگ بچتے ہیں جن کا خیال ہے کہ سوائے طاقت کے اس مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ جہاں ریاست کو درپیش سنگین ترین خطرے سے نمٹنے کے لئے تقسیم اس قدر شدید ہوگی وہاں اس مسئلے کا خاک حل نکلے گا اور مسئلے کا حل نکالنا تو دور کی بات ہم اب بھی ان جنگجوؤں کو اپنا اثاثہ سمجھتے ہیں ہم نے اس سانپ کو پال پوس کر بڑا کیا اور اسے روس کے خلاف افغانستان کی جنگ میں جھونک دیا اس موقع پر سانپ کا منہ ہماری طرف نہیں تھا لہٰذا اس وقت کے جرنیلوں نے بڑی شان سے سوویت یونین کے ٹکڑے کرنے کو اپنی عسکری حکمت عملی کا عظیم ترین نمونہ قرار دیا آج وہی سانپ ہماری طرف پھن نکال کر کھڑا ہے اور اب بھی اس کا سر کچلنے کی بجائے اسے دودھ پلا کر سمجھتے ہیں کہ ہم اسے رام کرلیں گے جبکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ سانپ کی نسل کو پالنے کی پالیسی ہی غلط تھی جس کا خمیازہ ہم بری طرح بھگت رہے ہیں۔
یہ تمام باتیں اپنی جگہ مگر ایک چیز ہوتی ہے جس کا نام ریاست ہوتا ہے، ریاست کو جب اس قسم کے سنگین خطرات کا سامنا ہو تو ان سے نمٹنے کے لیے ایک پالیسی وضع کی جاتی ہے ممکن ہے ایسی کوئی پالیسی 80 گرام کے امپورٹڈ A4 کاغذ پر انگریزی میں Arial font لگا کر ٹائپ کر کے مختلف رنگوں کے گراف سے مزین، دیدہ زیب چھپائی کے ساتھ MOST CONFIDENTIAL کی مہر ماتھے پر جھومر کی طرح سجائے کسی ڈپٹی سیکرٹری کی الماری میں لپٹی پڑی ہو۔ مگر جو حقیقت حال سامنے نظر آرہی ہے اس سے یوں لگتا ہے کہ ایسی کسی پالیسی کا سرے سے وجود ہی نہیں۔ جس ملک میں دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی جنگ لڑی جارہی ہو اور اس ملک میں دہشت گردی کے واقعے کی اطلاع دینے کے لئے 15 پر ایک اے ایس آئی مامور ہو، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ریاست اس مسئلے پر کتنا غور کرتی ہے۔ جس ملک میں وزیراعظم پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو معمولی ملزموں کی طرح عدالت لے جایا جائے اور پھر وہاں سے عام جیل میں بھیج دیا جائے اس سے بھی پتہ چل جانا چاہئے کہ ریاست اس مسئلے کے بارے میں کتنی سنجیدہ ہے۔ جس ملک میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والے سپاہیوں کے خلاف Efficiency and Discipline Rules 1973 کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے اس سے اندازہ لگائیں کہ یہ ملک اپنی سالمیت کے بارے میں کتنا فکر مند ہے اور جس ملک کے عوام لوڈشیڈنگ اور ڈینگی کو دہشت گردی سے بڑا مسئلہ سمجھیں اور عورتوں، بچوں، جوانوں اور پولیس اور فوج کے اہلکاروں کے گلے کاٹنے والوں کو اپنا مسلمان بھائی سمجھیں، اس ملک میں کسی سیاسی لیڈر کو توہین عدالت کا نوٹس جاری ہونے کی خبر ملکی تاریخ کی بدترین جیل بریک سے زیادہ ہی کوریج لے گی … رونا کس بات کا ہے۔