• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عید الفطر: بے رُوح تصویریں نہیں، حقیقی مسرتیں شیئر کریں

امریکا میں واقع دُنیا کی ممتازترین درس گاہ، ہارورڈ یونی ورسٹی میں کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی ایک تحقیق کے نتائج یہ بتاتے ہیں کہ عُمر کے مختلف ادوار میں ہر انسان کی خواہشات دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں، لیکن جب کوئی فرد بالغ النّظر ہو جاتا ہے اور اس کی سوچ میں پختگی آجاتی ہے، تو انسانی رشتوں کی حُرمت و پاس داری اُس کی تمام تر تمنّائوں، آرزوئوں پر بازی لے جاتی ہے۔ عید الفطر جہاں رمضان المبارک میں احکامِ الٰہی کی تعمیل اور تزکیۂ نفس کے بعد تشکّر کا دن ہے، وہیں اس تہوار کی سماجی حیثیت بھی ہے۔ اس روز مسلمانانِ عالم کا جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے۔ انہیں اپنے اہلِ خانہ، رشتے داروں، عزیز و اقارب اور دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانے پینے، ایک دوسرے کی مسرّتوں، آسودہ حالی میں شریک ہونے، تحفے تحائف تقسیم کرنے، سیر سپاٹے اور ان لمحات کو یادگار بنانے کا موقع میسّر آتا ہے۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ یہ روایتی سرگرمیاں ماند پڑتی جا رہی ہیں، جس کے اسباب میں ہوش رُبا مہنگائی اور فکرِ معاش کے علاوہ آن لائن سرگرمیوں کی کثرت بھی شامل ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی وجہ سے جہاں دُنیا گلوبل ویلیج بن گئی ہے، نیز روابط قائم کرنا اور علوم و فنون تک رسائی آسان ہو گئی ہے، وہیں یہ ڈیجیٹل ورلڈ عید اور دوسرے تہواروں سے جُڑی ہماری خُوب صورت روایات کو بھی نگل رہی ہے۔ مثال کے طور پراب روایتی عید کارڈز کی جگہ بے رُوح ڈیجیٹل عید کارڈز نے لے لی ہے۔بڑے چائو اور مان کے ساتھ سِلوائے گئے زرق برق ملبوسات اور لشکارے مارتے پاپوش پہن کر رشتے داروں، دوستوں سے عید ملنے کی بہ جائے محض سیلفیزشیئر کر کے انہیں اپنا دیدار کروانے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ گرچہ دیہی اور مضافاتی علاقوں میں میلوں ٹھیلوں کی روایت ہنوز قائم ہے، لیکن پوش علاقوں کی نئی نسل چند اِنچز کی اسکرین کے سامنے ہی عید کے پُرمسرّت لمحات گزار دیتی ہے اور اسی سرگرمی ہی کو اس اہم تہوار کا حاصل سمجھتی ہے۔ لہٰذا،ہم نے عیدالفطر کے موقعے پرخاص طور پہ ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل ڈیوائسز کی بہ دولت معاشرتی رویّوں میں رُونما ہونے تبدیلیوں سے متعلق سماج پر گہری نظر رکھنے والی چند معروف شخصیات کی رائے جاننے کی کوشش کی، جسے ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔

غازی صلاح الدین، کالم نویس/ دانش ور

عید کے موقعے پر رشتے دار اور دوست احباب ایک جگہ جمع اور ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ تاہم، سوشل میڈیا کی وجہ سے بالمشافہ رابطوں پر فرق پڑ رہا ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس تعلقات کا تاثر دیتی ہیں ، مگر اس تعلق داری میں کوئی گرم جوشی نہیں ہوتی۔ ہمیں اُن مقامات، بہانوں اور مواقع کی ضرورت ہے کہ جو سب کو یک جا، اکٹّھا کر دیں۔ کسی بیگانے کی طرف مسکرا کر دیکھنا تک ایک مستحسن عمل ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں یہ روایت تقریباً ختم ہو چُکی ہے، پھر مُلک میں رُونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات، شدّت پسندی،عدم برداشت، خوف و ہراس کی فضا اور طبقاتی نظام نے بھی ہمیں ایک دوسرے سے دُور کر دیا ہے، جب کہ مہذّب ممالک میں ایسا نہیں ہوتا، بلکہ وہاں تو عوامی مقامات پر امیر و غریب سب ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ ہر معاشرے میں کوئی نہ کوئی تہوار ضرور ہوتا ہے، چاہے وہ انسانی اختراع ہی کیوں نہ ہو۔ مثال کے طور پر ایران میں ’’نوروز‘‘ اور امریکا میں ’’تھینکس گیونگ ڈے‘‘ منایا جاتا ہے ،تو ان کا مقصد انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہی ہے۔ انسانی رشتے اس زندگی کا سب سے بڑا سرمایا ہیں اور ہمیں ان کو برقرار رکھتے ہوئے اس سرمائے میں اضافہ کرنا چاہیے۔ چُوں کہ عیدین سمیت دوسرے تہواروں پر ہمیں ایک دوسرے کی مسرّتوں میں شریک ہونے کا موقع ملتا ہے، تو ہمیں ان بیش قیمت لمحات کو ڈیجیٹل ڈیوائسز کی نذر ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر پیر زادہ قاسم، ماہر تعلیم/ سابق وائس چانسلر جامعہ کراچی

تبدیلی کا عمل ابتدائے آفرینش سے جاری ہے۔ تاہم، دَورِ حاضر میں تغیّرو تبدّل کے عمل میں تیزی آئی ہے اور جو اس تبدیلی کا ساتھ نہیں دے پاتے، وہ خود کو ’’مِس فِٹ‘‘ محسوس کرتے ہیں۔ اب جہاں تک عید ین سمیت دوسرے تہواروں کی بات ہے، تو ان سے کئی روایات بھی جُڑی ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر پہلے عیدالفطر سے کئی ہفتے قبل ہی اس تہوار کی تیاریاں شروع ہو جاتی تھیں۔ نئے ملبوسات سِلوائے جاتے ، نئے جوتے خریدے جاتے اور عید کے روز بچّے بڑے سب مل کر جامع مسجد میں عید کی نماز پڑھنے جاتے ۔ اب سِلے سلائے کپڑے ملنے لگے ہیں اور آن لائن شاپنگ کا رُجحان بھی عام ہوتا جا رہا ہے۔ اسی طرح سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی وجہ سے عید کے دوسرے رنگ ڈھنگ بھی بدل گئے ہیں۔ روایتی عید کارڈز بھیجنے کی بہ جائے بنے بنائے ڈیجیٹل عید کارڈز آگے بڑھادیے جاتے ہیں۔ نیز، بچّوں اور نوجوانوں کی اکثریت بالخصوص شہر کے پوش علاقوں میں رہنے والی نوجوان نسل روایتی میلوں ٹھیلوں میں جانے کے برعکس سوشل میڈیا ہی سے لطف اندوز ہونے کو ترجیح دیتی ہے۔ ہر چند کہ یہ تمام تبدیلیاں وقت کا تقاضا ہیں اور ہمیں ان کے ساتھ مطابقت پیدا کرنا ہو گی، لیکن ان تہواروں کی اصل رُوح بہر حال برقرار رہنی چاہیے۔ مثال کے طور پر عیدالفطر کا مقصد شُکرگزاری ہے اور ہمیں اپنی نئی نسل کو یہ بات بتانی چاہیے، لیکن بد قسمتی سے ہم اس جانب توجّہ نہیں دیتے۔ دوسری طرف انٹرنیٹ کی وجہ سے جہاں مختلف ممالک کے باشندوں سے روابط قائم کرنا اور دُنیا بَھر کے علوم تک رسائی ممکن ہو گئی ہے، وہیں اس ٹیکنالوجی نے فرد کو تنہا بھی کر دیا ہے۔ لہٰذا، عید جیسے تہوار کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہمیں اپنے رشتے داروں، دوستوں اور معاشرے کے کم زور طبقات میں خوشیاں بانٹنی چاہئیں۔

ڈاکٹر عطاء الرحمٰن، سائنس داں/ سابق چیئرمین ایچ ای سی

زمانہ سدا ایک سا نہیں رہتا، اس میں لمحہ بہ لمحہ تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر پہلے ہم بہ ذریعہ ٹیلی فون سات سمندر پار موجود اپنے پیاروں سے صرف چند منٹس ہی بات کر سکتے تھے، لیکن اب ٹیکنالوجی کی بہ دولت اُن سےنہ صرف گھنٹوں گفتگو کر سکتے ہیں، بلکہ انہیں دیکھ بھی سکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہمارا دُور دراز مقامات پر مقیم افراد سے رابطہ ممکن ہو گیا ہے۔ تاہم، ڈیجیٹل ڈیوائسز کی وجہ سے ہماری بعض روایات پر منفی اثر بھی پڑا ہے۔ مثال کے طور پر پہلے لوگ اپنے ہاتھوں سے عید کارڈز تیار کر کے اپنے رشتے داروں ، دوستوں کو ارسال کیا کرتے تھے، جس میں ایک Personal Touchہوتا تھا، جو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس سے بھیجے گئے عید کارڈز میں نہیں ہوتا، مگر یہ تبدیلیاں ہماری زندگی کا حصّہ ہیں اور ہمیں ان کے ساتھ اپنی روایات کو بھی برقرار رکھنا ہے۔ مَیں تو آج بھی اپنے رشتے داروں ، قریبی دوستوں کو عید کارڈز بھیجتا ہوں۔ جو افراد ڈیجیٹل ڈیوائسز کی آمد سے قبل پُرخلوص ، ملن سار تھے، وہ آج بھی ویسے ہی ہیں اور جو ٹیکنالوجی کی آمد سے پہلے دوسروں سے میل جول رکھنا پسند نہیں کرتے تھے، تو اُن کے رویّوں میں اب بھی کوئی فرق نہیں آیا۔ یعنی سماجی رویّوں میں تبدیلی کا سراسر ذمّے دار ٹیکنالوجی کو قرار نہیں دیا جا سکتا، بلکہ افراد کے طرزِ زندگی کی وجہ سے بھی معاشرے پر اثرات مرتّب ہو تے ہیں، تو ہمیں صرف ٹیکنالوجی کو ذمّے دار ٹھہرانے کی بہ جائے ایک دوسرے کی خوشی، غم میں شریک ہونے کے لیے وقت بھی نکالنا چاہیے۔

اصغر ندیم سیّد، ادیب / ڈراما نویس

ٹیکنالوجی کی وجہ سے زندگی میں تبدیلیاں رُونما ہوتی ہیں اور ہم ان سے استفادہ بھی کرتے ہیں۔ اگر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہونے والی ترقّی کی بات کی جائے، تو اس کے ذریعے ہم دُنیا کے کسی بھی حصّے میں موجود اپنے رشتے داروں، عزیز و اقارب ، دوستوں وغیرہ سے رابطے میں رہتے ہیں ۔ عید کے موقعے پر انہیں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس سے خُوب صُورت عید کارڈز بھیج سکتے ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا کی مدد سے مَیں جب چاہوں بیرونِ مُلک مقیم اپنے بچّوں سے بات کر لیتا ہوں، انہیں جی بَھر کے دیکھ بھی لیتا ہوں۔ تاہم، مَیں ناسٹلجیا کو بھی اچھا سمجھتا ہوں، کیوں کہ یہ آپ کو اپنے ماضی سے جوڑے رکھتا ہے۔ مُجھے انتظار حسین کی نگارشات اسی لیے پسند ہیں کہ وہ ہمیں ہمارے ماضی کی سیر کرواتی ہیں۔وہ اپنی تحریروں کے ذریعے گوٹھوں، قصبوں کے طرزِ زندگی سے روشناس کرواتے اور ان کی یادیں زندہ کر تے تھے۔ قصّہ مختصر، ہمیں حال میں رہتے اور مستقبل میں قدم رکھتے ہوئے اپنے ماضی سے جُڑے رہنا چاہیے۔ ماضی میں لوگوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہوا کرتی تھیں اور وہ عید سمیت دیگر تہواروں پر اپنے پیاروں کی سنگت سے خُوب لطف اندوز ہوتے تھے، لیکن اب وقت بدل گیا ہے ،تو ہمیں بھی ان تبدیلیوں کو قبول کرنا، اپنانا پڑے گا۔ تاہم، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنے گرد وپیش سے بے نیازہو کر ہمہ وقت بے جان آلات ہی میں کھوئے رہیں۔ہمیں اپنے پیاروں کے ساتھ تعلقات بہرحال استوار رکھنے ہوں گے۔

ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، صدر انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین

شاعرِ مشرق علاّمہ محمد اقبال نے کہا تھا کہ؎ ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت… احساسِ مروّت کو کُچل دیتے ہیں آلات۔ بد قسمتی سے آج ٹیکنالوجی ہمارے احساسات، جذبات اور رویّوں پر غالب آ گئی ہے ۔ ڈیجیٹل ڈیوائسز ہماری تہذیب و اقدار کو بے حد متاثر کر رہی ہیں۔ آج والدین اور بچّے ایک چھت کے نیچے رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے بیگانے ہیں۔ پچھلے دنوں مَیں نے ایک ویڈیو دیکھی، جس میں ایک ماں گھر کی دہلیز پر ٹوکری لیے کھڑی ہے اور بچّے اس میں اپنے موبائل فونز رکھنے کے بعد گھر میں داخل ہو رہے ہیں۔ یعنی یہ ڈیوائسز آج انسانی رشتوں کے درمیان ایک بڑی خلیج بن چُکی ہیں ۔ والدین اور بچّوں کے درمیان ربط و ضبط کو کم زور کر رہی ہیں۔ اس کے برعکس ہم نے اپنے والدین کے ساتھ ایک بھرپور ، یادگار وقت گزارا۔ ہمیں گھر کے اندر ، باہر حتیٰ کہ زندگی کے ہر موڑ پر اُن کی رہنمائی و سرپرستی حاصل رہی۔ آج اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ سمیت دوسرے برقی آلات کے عادی بچّوں میں ایک عیب یہ بھی پیدا ہو گیا ہے کہ وہ انہیں سامنے رکھے بغیر کچھ کھاتے پیتے ہی نہیں ۔ ہر وقت ان میں مستغرق رہنے کی وجہ سے دیر سے بولنا سیکھ رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے اور ذرایع ابلاغ کو ٹیکنالوجی کے ان منفی پہلوئوں کو نمایاں کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ گرچہ عید دوسروں کی مسرّتوں میں شریک ہونے ، دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شامل کرنے کا نام ہے، لیکن اب یہ رونقیں ، رعنائیاں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ ہمارے بچپن میں رشتے داروں ، سہیلیوں کو عید سے قبل عید کارڈز بھیجنے کا رواج عام تھا اور اس سلسلے میں خصوصی اہتمام کیا جاتا۔ مَیں نے اب تک موصول ہونے والے سیکڑوں عید کارڈز سنبھال رکھے ہیں،تو ہمیں ان خُوب صُورت روایات کو اُجاگر اور بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ گرچہ لوگ آج سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی مدد سے پہلے سے زیادہ تعداد میں اور زیادہ دِیدہ زیب عید کارڈز آگے بڑھاتے ہیں، لیکن اس عمل سے اُن کی محبت و الفت کا اظہار نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی اگر مُجھے کسی فرد تک اپنی رائے پہنچانا مقصود ہو، تو مَیں اسے ایک کاغذ پر تحریر کر کے اُس کی تصویرشیئر کر تی ہوں، جس سے نہ صرف مجھے دِلی طمانیت ملتی ہے، بلکہ وصول کنندہ پر بھی خوش گوار اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ البتہ ٹیکنالوجی کی افادیت سے بھی انکار ممکن نہیں، کیوں کہ ان کی وجہ سے لوگوں کا حلقۂ احباب وسیع ہوا ہے۔ وہ ایک دوسرے سے مستقبل رابطے میں رہتے ہیں اور انہیں اِک دُوجے کے غم و خوشی کا بھی بروقت پتا چل جاتا ہے۔

مہناز رحمٰن، سماجی کارکن

ہمارے گرد و پیش کے تغیّرات ارتقاء کا حصّہ ہیں اور نِت نئی چیزیں سماجی رویّوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ تبدیلیاں ، تغیّرات دراصل ترقّی کا سفر ہیں ۔ اس دوران دھچکے بھی لگتے ہیں، کیوں کہ پُرانی روایات معدوم ہوتی چلی جاتی ہیں، لیکن یہ تبدیلی بھی زندگی ہی کا ایک حصّہ ہے اور ویسے بھی کہتے ہیں ناں کہ؎ ثبات اِک تغیّر کو ہے زمانے میں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے ثقافتی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں، لیکن ڈیجیٹل ڈیوائسز کا بے جا استعمال ہمارے معمولاتِ زندگی کو متاثر کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر اسمارٹ فون صارفین بالخصوص بچّے اور نوجوان سوشل میڈیا کی وجہ سے دُور دراز بسنے والے انسانوں سے تو جُڑ گئے ہیں، لیکن اپنوں سے دُور ہو گئے ہیں۔ یہ اپنا بیش تر وقت اسمارٹ فونز پر سَر جُھکائے گزارتے ہیں اور گرد و پیش سے بے خبر ہوتے ہیں، لیکن دوسری جانب اسی ٹیکنالوجی ہی کی بہ دولت میرا اور مجھ جیسی اَ ن گنت مائوں کا بیرونِ مُلک مقیم اپنے جگرگوشوں سے کسی بھی وقت رابطہ ممکن ہو گیا ہے، جنہیں دیکھ کر مائوں کے کلیجے میں ٹھنڈ سی پڑ جاتی ہے۔ وگرنہ پہلے تو ہفتوں بعد خطوط کے ذریعے ہی حال احوال پتا چلتا تھا۔ لہٰذا،اس اعتبار سے تو ٹیکنالوجی ہمارے لیے نعمت سے کم نہیں اور ہمیں اسے ایک دوسرے کو قریب لانے ہی کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔

یاسر پیرزادہ ، کالم نویس

ٹیکنالوجی کی وجہ سے جہاں مُجھے سہولت ملی ہے، وہیں اس سے ایک شکایت بھی ہے۔ سہولت اس اعتبار سے ہے کہ انٹرنیٹ کی بہ دولت ہم عید ین سمیت دیگر تہواروں کے مواقع پر سات سمندر پار موجود پیاروں سے رابطے کر لیتے ہیں ۔ ویڈیو کال کے ذریعے ہزاروں میل دُور بیٹھے اپنے رشتے داروں ، دوستوں سے بالکل اس طرح بات کرتے ہیں، جیسے وہ ہمارے رُو برو ہوں۔اسی طرح جب یہ ٹیکنالوجی نہیں تھی، تو لوگوں کو رقم بھجوانے میں بڑی دشواری ہوتی تھی، لیکن اب قریبی دُکان سے کسی بھی وقت رقم دُنیا کے کسی بھی کونے میں بھجوائی جا سکتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی سے مُجھے شکایت یہ ہے کہ اس کی وجہ سے لوگوں میں اُنس ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اب عیدین اور دوسرے تہواروں پر لوگ ایک دوسرے کو بنے بنائے پیغامات شیئر کر دیتے ہیں، جس میں وہ اپنا نام تک لکھنا گوارا نہیں کرتے۔ یعنی ان پیغامات میں کوئی اپنائیت نہیں ہوتی اور نہ ہی انسانی لمس محسوس ہوتا ہے، جب کہ ہم اپنے بچپن میں جب عید کارڈز تیار کیا کرتے تھے، تو اُن میں ہماری اُلفت و محبّت گندھی ہوتی تھی۔ پھر ہم انہیں بڑے اہتمام سے ڈاک خانے لے جا کر پوسٹ کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مُجھے ان ریڈی میڈ تہنیتی پیغامات سے کبھی خوشی و سرشاری محسوس نہیں ہوتی، لیکن ہمیں ٹیکنالوجی کو بُرا بھلا بھی نہیں کہنا چاہیے، کیوں کہ اگر ہم عید کارڈز بناتے وقت اُس دَور کی ٹیکنالوجی استعمال کیا کرتے تھے ،تو ممکن ہے کہ آج سے دس برس بعد ہم موجودہ ٹیکنالوجی کو اُس وقت کی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں بہتر قرار دے رہے ہوں۔

تازہ ترین