• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پولیو، جسے ’’poliomyelitis‘‘ بھی کہا جاتا ہے، اعصاب کم زور کردینے والا لاعلاج، متعدّی مرض ہے۔اگر یہ وائرس دماغ اور ریڑھ کی ہڈی پر اثر انداز ہو تو فالج بھی ہوسکتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان کا شمار اُن مُمالک میں کیا جاتا ہے،جو ’’پولیو فِری زون‘‘ نہیں۔ حالاں کہ شعبۂ صحت ، مقامی اور بین الاقوامی ادارے مل کر کوشاں ہیں کہ کوئی بھی بچّہ پولیو سے بچاؤ کے حفاظتی قطرے پینے سے محروم نہ رہے،اس کے باوجود یہ وائرس پاکستان کے مختلف علاقوں میں موجود ہے،جس کی بنیادی وجہ بچّوں کو پولیو سے بچاؤ کی ویکسی نیشن نہ کروانا ہے۔ دوسری بڑی وجہ پولیو کے حفاظتی قطروں سے متعلق منفی پروپیگنڈا ہے۔بعض افراد کا خیال ہے کہ پولیو ویکسین مسلمانوں کی نسل کُشی کے طور پر استعمال کی جارہی ہے، تو کچھ کا کہنا ہے کہ اس ویکسین میں حرام اور مضرِ صحت اجزا پائے جاتے ہیں۔ یہ سوچ پاکستان کے سرحدی اور قبائلی علاقوں میں زیادہ عام ہے، مگر اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ تیسری وجہ انسداد ِپولیو مہم کو ناکام بنانےکے لیےمختلف ہتھکنڈوں کا استعمال ہے،جس کے نتیجے میں کئی ورکرز تک اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔واضح رہے کہ 1988ء میں پولیو وائرس دُنیا بَھر کے تمام ہی مُمالک میں پایا جاتا تھا، خصوصاً براعظم افریقا اس سے شدید متاثر تھا۔اسی برس عالمی سطح پر انسداد ِپولیو مہم کا آغاز ہوا اورا ب صرف پاکستان اور افغانستان میں یہ مرض باقی رہ گیا ہے۔

پولیو وائرس منہ کے ذریعےجسم میں داخل ہوتا ہے، جب کہ بعض کیسز میں چھینکنے یا کھانسنےکے ذریعے بھی پھیلنے کے شواہد ملے ہیں۔ اس کا وائرس گلے اور آنتوں میں رہ کر افزایش پاتا ہے۔اس کی علامات میںگلے کی سوزش، بخار، تھکاوٹ، متلی یا قے، سَر اور پیٹ میں درد وغیرہ شامل ہیں، جو عام طور پر 2 سے 5 دِن بعد خود بخود ختم بھی ہوجاتی ہیں۔ دماغ اور ریڑھ کی ہڈی متاثر ہونے کی صورت میں جو علامات ظاہر ہوتی ہیں، ان میں حرام مغز اور دماغ کی جھلّیوں کی سوزش، بازوؤں، ٹانگوں میں کم زوری اور پیروں میں سوئیاں چبھتی محسوس ہونا شامل ہیں، جب کہ فالج کا حملہ، مستقل معذوری یا پھر موت بھی واقع ہوسکتی ہے،کیوں کہ یہ وائرس صرف دو دِن کے اندر ہی سانس لینے میں سخت دشواری کا سبب بن جاتا ہے،نیز پٹّھے بھی متاثر ہوجاتے ہیں۔ یہ وائرس صرف انسانوں کو متاثر کرتا ہے اوربچّوں میں عام ہے، لیکن اس کے شکار بالغ افراد بھی ہوسکتے ہیں۔

پولیو کی پانچ اقسام ہیں۔ ایک قسم سائلنٹ پولیو (Silent polio) کہلاتی ہے، جو بچّوں میں عام ہے۔ اس کا وائرس غذا کی نالی میں افزایش پاتا ہے، لیکن نظامِ ہاضمہ پر حملہ آور ہوتا ہے، نہ ہی علامات ظاہر کرتا ہے۔ ابورٹیو پولیو(Abortive polio) کے وائرس کا حملہ شدید ہوتا ہے اور نظامِ اعصاب کے علاوہ دیگر جسمانی نقائص بھی ظاہر ہوجاتے ہیں۔اس کی شرح5 سال سے لے کر 50سال کی عُمر تک کے افراد خصوصاً خواتین میں زیادہ بُلند ہے۔نان پیرالیٹک پولیو(Non-Paralyti polio) میں اعصابی کم زوری بڑھ جاتی ہے۔ نظامِ اعصاب کو مستقل طور پر کوئی نقصان نہیں ہوتا، صرف سوزش ہوتی ہے، جو بعد میں ٹھیک بھی ہوجاتی ہے۔چوتھی قسم پیرالیٹک پولیو (Paralytic polio) ہے، جو اعصابی نظام پر اس شدّت سے اثرانداز ہوتی ہے کہ اعصاب مکمل طور پر کام کرنا بند کردیتے ہیں،جب کہ بل بو اسپائنل پولیو (Bulbo spinal polio)کا وائرس نظامِ تنفس کے عضلات مفلوج کردیتا ہے،نتیجتاً سانس لینے میں دشواری کے سبب موت واقع ہوجاتی ہے۔

پولیو سے بچاؤ کے لیےدو طرح کی ویکسینز استعمال کی جاتی ہیں۔ایک قسم"IPV:Inactivated Polio Vaccine" کہلاتی ہےیہ ایک انجیکشن ہے، جو مسلز میں لگایا جاتا ہے۔ دوسری قسم"OPV:Oral Polio Vaccine" ہے،جو قطروں کی صورت پلائی جاتی ہے۔واضح رہے کہ پولیو سے بچاؤ کا حفاظتی ٹیکا خون میں شامل ہو کر،جب کہ قطرے انتڑیوں کے ذریعے قوّتِ مدافعت میں اضافہ کرتے ہیں اور بچّہ پولیو سے محفوظ رہتا ہے۔دونوں اقسام کی ویکسین دورانِ حمل کسی قسم کےمضر اثرات کا باعث نہیں بنتیں اور ایڈز کے مریضوں میں بھی ان کا استعمال محفوظ ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے تمام بچّوں کی ویکسی نیشن لازمی قرار دی ہے۔ خاص طور پر پاکستان جیسے مُلک میں جہاں پولیووائرس موجود ہے،پولیو ویکسین کی پہلی خوراک پیدا ہونے کے فوراً بعد اور پھر ایک ایک ماہ کے وقفے سے مزید تین خوراکیںدینی کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔جہاں تک پولیو کے قطروں کا تعلق ہے، تو ایک چھوٹی سی بوتل میں دس تا بیس خوراکیں ہوتی ہیں، جب کہ ایک خوراک دو قطروں پر مشتمل ہے، جس میں پولیو کی تینوں اقسام سے تحفّظ پایا جاتا ہے۔

کئی ذہنوں میں ویکسین کے حوالے سے مختلف سوالات جنم لیتے ہیں، توجان لیں کہ ویکسین ایک ایسا حیاتیاتی مادّہ ہے، جو کسی مرض کے خلاف(چاہے وہ وائرس یا بیکٹیریا کی وجہ سے ہو) قوّتِ مدافعت میں اضافہ کرتی ہے۔ اصل میں جب کوئی جرثوما جسم میں داخل ہوتا ہے، تو قدرتی طور پرجسم کا مدافعتی نظام اس سے محفوظ رہنے کے لیے اینٹی باڈیز پیدا کرتا ہےاورکسی بھی فرد کا بیمار ہونا یا نہ ہونا اِسی مدافعتی ردِّعمل کی طاقت پر منحصر ہے۔جب کسی مرض سے تحفّظ کے لیے ویکسی نیشن کروائی جاتی ہے، تو اس کے ذریعے پیدا کی گئی بعض اینٹی باڈیز جسم میں ایک محافظ کے طور پر موجود رہتی ہیں اور اگر خدانخواستہ مستقبل میں جسم ان جراثیم سے متاثر ہوجائے، تویہ اینٹی باڈیزفوری طور پر اس کی شناخت کرکے اسے ختم کر دیتی ہیں۔ تمام ویکسینز اسی قوّتِ مدافعت میں اضافے ہی کا کام کرتی ہیں اور عموماً مختلف وائرسز، بیکٹریا یاکچھ دوسرے اجزاء سے تیار کی جاتی ہیں،جن کا استعمال کسی بیماری سے بچاؤ اورعلاج دونوں ہی صورتوں میں فائدہ مند ہے۔

یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا تمام ویکسینز سو فی صد مؤثر ہیں، تو ہر فرد کے جسم میں مختلف امراض سے محفوظ رہنے کے لیے قوتِ مدافعت توپائی جاتی ہے، لیکن بعض اوقات قوّتِ مدافعت مرض کےجراثیم کے خلاف ایک مناسب ردِّعمل ظاہر نہیں کرتی، لہٰذا عارضہ حملہ آور ہوجاتا ہے۔ایسے میں ویکسینز مرض کے خلاف ڈھال کا کام کرتی ہیں، جو زیادہ ترمؤثر ہی ہیں۔ویکسینز کے ضمنی اثرات عام طور پر معمولی نوعیت کے ہوتےہیں،جن میں انجیکشن کی جگہ پر درد، ورم یا سُرخی، معمولی بخار اور سر دروغیرہ شامل ہیں، جب کہ بہت ہی کم کیسز میں شدید اثرات مرتّب ہوتے ہیں،لیکن وہ بھی اس بیماری کےباعث ہونے والے نقصانات سے کہیں کم ہوتےہیں۔ 1935ء میں پہلی بار دو مختلف ٹیمز نے پولیو ویکسین تیار کی۔اگرچہ اس کے نتائج حوصلہ افزا تھے، مگر بدقسمتی سے اس کے استعمال سے کئی بچّے موت کا شکار ہوگئے،لہٰذا ویکسین پر پابندی عائد کردی گئی،جس کے بعد اگلے کئی برس تک پولیو ویکسین بنانے کی کوشش نہیں کی گئی،لیکن جب1948ء میں پولیو وائرس کی تین اقسام دریافت ہوئیں، توایک بار پھر تحقیق کا دَر کھلا، خاص طور پر1950ء-1955ء کے دوران جب امریکا میں ہزاروں بچّے اس عارضے کا شکار ہوئے اور سیکڑوں کی تعداد میں اموات ہوئیں،تو کام میںمزیدتیزی آگئی۔1950ء ہی میں پہلی بار پولیو کے قطرے استعمال کروائے گئے، جن سے خاصی حد تک تحفّظ حاصل ہوا۔بعد ازاں، مختلف ویکسینز متعارف کروانے کا سلسلہ جاری رہا اور بالآخر 1987ء میں ایک نئی پولیو ویکسین تیار کرلی گئی،جواس وقت سب سے زیادہ استعمال کی جارہی ہے۔اگر ہم نے اپنے مُلک کو’’ پولیو فِری زون‘‘ بنانا ہے، تو اس کے لیےصرف سرکاری سطح ہی پر نہیں، انفرادی طور پر بھی کوششیں کرنا ہوں گی اور یہ تب ہی ممکن ہے، جب غلط تصوّرات کی بیخ کنی کرتے ہوئے 5-6 سال سے کم عُمر ہر بچّے کی ویکسی نیشن کروائی جائے۔

تازہ ترین