• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بنو حارث جس علاقے میں آباد تھے وہ قدرتی طور پر ایک محفوظ علاقہ تھا اور ان کی تعداد بھی دوسرے قبائل سے بہت زیادہ تھی۔ فنون جنگ میں یہ کمال رکھتے تھے اور اطراف میں ان کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ بنو حارث بن کعب ان کا بڑا تھا۔ رسول اکرم نے خالد بن ولید کو جو جلیل القدر صحابی تھے اور زیرک و بہادر جرنیل تھے، ایک لشکر کے ساتھ بنو حارث کی طرف روانہ کیا اور خالد بن ولید کو یہ ہدایت کی کہ تین روز تک انہیں دعوت اسلام دینا۔ اگر وہ اللہ کی احدیت، میری رسالت اور آخرت پر راضی ہو جائیں تو ان کے ساتھ سختی نہ کرنا۔
اگر وہ دین اسلام کو تسلیم نہ کریں تو ان سے جنگ کرنا۔ خالد بن ولید تیزی سے روانہ ہوئے اور بنو حارث کے علاقے میں پہنچ گئے۔ ایک اونچی جگہ پر پڑاؤ ڈال دیا۔ بنو حارث کی بستیوں کی طرف مجاہدین کو بھیجا کہ وہ ان کے سرکردہ لوگوں کو بلا لائیں۔ جب انہیں خبر ہوئی کہ اہل ایمان کا لشکر تو سر پر آ پہنچا ہے تو ہر طرف کھلبلی مچ گئی۔ بنو حارث کے سرکردہ لوگ جمع ہو کر ہتھیار لگا کر حضرت خالد بن ولید کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت خالد بن ولید نے اپنی آمد کا مقصد بڑے دل آویز انداز میں بیان کیا اور انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔سارے عرب میں اور قرب و جوار میں اسلام کے غالب آنے کے چرچے تھے پھر حضرت خالد بن ولید جیسا مبلغ اور رشد ہدایت کا پیغام دینے والا بنو حارث دائرہٴ اسلام میں داخل ہو گئے۔ حضرت خالد بن ولید قرآن کریم کی روشنی اور اسوہٴ حسنہ کے اتباع میں ان کو اسلام کی حقیقت کے بارے میں بتاتے رہے۔اس بڑی کامیابی کے بعد حضرت خالد بن ولید نے نبی کریم کو خط کے ذریعے پیغام ارسال کیا۔
”اے رسول اللہ! آپ پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں، میں نے آپ کی ہدایت کے مطابق بنو حارث میں تبلیغ تین دن تک جاری رکھی، وہ اسلام میں داخل ہو گئے اور اب میں انہیں قرآن و سنت کی تعلیم دے رہا ہوں“۔
رسول اللہ نے حضرت خالد بن ولید کو جواباً لکھا ”تمہارا خط قاصد کے ذریعے میرے پاس پہنچا جس سے پتہ چلا کہ بنو حارث نے دین اسلام قبول کر لیا ہے۔ پس انہیں خوشخبری سناؤ اور آگاہ کرو انہیں برائیوں کے نتائج سے اور جب تم واپس آؤ تو ان کے سرکردہ کچھ لوگوں کا وفد بھی ساتھ لیتے آؤ۔جب بنو الحارث بن کعب کے لوگ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اللہ کے رسول نے ان سے دریافت کیا ”تم وہ لوگ ہو جنہیں جب للکارا جاتا تو پیش قدمی کر کے جرأت، ہمّت سے مقابلہ کرتے تھے“۔ رسول اللہ نے اس جملے کو تین بار دہرایا۔ بنو حارث خاموش رہے۔ جب آپ نے چوتھی مرتبہ جملہ دہرایا تو ان میں سے ایک نے جواب دیا ”جاہلیت کے دور میں جب کوئی ہم پر حملہ آور ہوتا تھا توہم تمام اختلافات بھلا کر متحد ہو جاتے تھے اور ہم میں تفرقہ بالکل نہ ہوتا تھا اور ہم ان پر اتحاد و اتفاق کی بہ دولت غلبہ حاصل کر لیتے تھے“۔
آپ نے ارشاد فرمایا ”تم نے بالکل سچ کہا“۔
پاکستان کو وجود میں آئے 66 سال ہونے کو آئے۔ کوئی ایسا حکمران نہیں گزرا جو اتحاد و اتفاق کی حکمت کو سمجھتا ہو۔ فیصلہ کرتے وقت اللہ سے ڈرتا ہو جبکہ وہ جانتا تھا کہ اللہ کی نصرت ان کے ساتھ ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور احسان کرتے ہیں۔ آج کی حالت پر غور کریں کہ وہ لوگ جو الیکشن میں کامیاب ہو کر آئے ہیں وہ کس طرح قوم کو انتشار اور افتراق میں مبتلا کئے ہوئے ہیں۔ وہ نفرتوں کے بیج بو رہے اور چاہتے یہ ہیں کہ محبتوں کی فصل کاٹیں اور ہم تو وہ لوگ ہیں جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں نفرتوں کی فصل کاٹ چکے ہیں، دشمنیوں کا، نفرتوں کا، حقوق ادا نہ کرنے کا وہی عمل اب بلوچستان میں، سندھ میں اور خیبرپختونخوا میں جاری ہے۔ بلوچستان میں فوج سے ایک کے بعد ایک آپریشن کرایا جاتا ہے لیکن یہ مسائل کا حل نہیں ہے۔ اب تو بلوچستان میں حکومت کی رٹ ہی باقی نہیں رہی۔ وہاں بعض علاقوں میں نہ پاکستان کا جھنڈا لہرایا جا سکتا ہے اور نہ اسکولوں میں پاکستان کا قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے۔
نفرتوں کا شاخسانہ یہ ہے کہ غصے میں، اشتعال میں زیارت ریذیڈنسی تباہ کر دی گئی جس سے بانیٴ پاکستان کی یادیں وابستہ تھیں۔ بلوچستان کے سرداروں کے بس کی بات نہیں رہی کہ وہ صورتحال کو تبدیل کریں۔ حکومت کوئی بھی ہو مذاکرات انہی سے کرنا ہوں گے جو مزاحمت کر رہے ہیں۔
پاکستان شروع سے افغانستان میں اپنی پوزیشن خراب کر رہا ہے، اسے اپنے آپ کو اس تنازع سے فوری طور پر الگ کر لینا چاہئے حالانکہ ایسا کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ امریکی ہدایتوں پر چلنا ہماری مجبوری ہے، طالبان کی مجبوری نہیں ہے اور نہ پاکستان طالبان پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ اگر پاکستان طالبان پر اثر انداز ہو سکتا تو وہ خود سوات میں اور فاٹا کے علاقوں میں ان سے برسر پیکار کیوں ہوتا؟ اب طالبان پورے پاکستان میں پھیل گئے ہیں۔ انہوں نے مختلف تنظیمیں بنا لی ہیں اور وہ اپنی کارروائیوں کو جہاد کہتے ہیں۔ اگر سوات میں ان سے جو معاہدہ کیا گیا تھا نہ توڑا جاتا تو آج پاکستان اتنے دباؤ میں نہ ہوتا۔ ابھی جو نئی سیاسی حکومت آئی ہے وہ صورتحال کو بالکل سمجھ نہیں رہی ہے۔ وہ کہہ رہی ہے کہ ہم افغانستان کے معاملے میں دخل نہیں دیں گے۔ افغانستان، امریکہ اور طالبان خود مذاکرات کریں۔ کرزئی حکومت کو اور افغانستان کے آئین کو طالبان نہیں مانتے۔ وہ ان سے مذاکرات کس طرح کریں گے؟ وہ امریکہ سے تو مذاکرات کر سکتے ہیں جن کو وہ حملہ آور سمجھتے ہیں۔
ان مذاکرات کا مرکزی نکتہ یہ ہو گا کہ امریکی اور نیٹو افواج کو محفوظ راستہ کس طرح فراہم کیا جائے؟ امریکہ اور نیٹو والے اپنا جنگی ساز و سامان واپس لے جانا چاہتے ہیں۔ ابھی مذاکرات کا ایجنڈا طے نہیں ہوا ہے۔ افغانستان میں طالبان کا جو جانی اور مالی نقصان ہوا ہے اس کا تاوان کون ادا کرے گا؟ کس طرح ادا ہو گا؟ امریکہ کے جانے کے بعد کرزئی حکومت کی حیثیت کیا ہو گی؟ کیا وہ اپنے آپ کو باقی رکھ سکے گی؟ وہاں جو اقتدار کے لئے افراتفری ہو گی، خانہ جنگی ہو گی اسے کون روکے گا؟ اس بات کو امریکہ کو سمجھ لینا چاہئے کہ مذاکرات کی ضرورت اسے ہے، طالبان کو نہیں ہے۔ وہ جو سیاسی ریاکاری کر رہا ہے یہ اسے بہت مہنگی پڑے گی۔ وہ جو بھارت کو افغانستان میں کردار دلانا چاہتا ہے وہ بھارت کی پیٹھ میں خنجر گھونپ رہا ہے۔ اس پالیسی سے پورا جنوبی ایشیاء عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔ بحرہند میں خطرات کے سائے منڈلانے لگیں گے۔ امریکہ کو پاکستان پر دباؤ نہیں ڈالنا چاہئے کہ وہ بھارت سے اپنے تعلقات بہتر بنائے۔ پاکستان کو پتہ ہے کہ اس کے تعلقات بھارت سے بہتر ہونے چاہئیں لیکن ہر قیمت پر تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے۔جو صورتحال پیدا ہو گئی ہے امریکہ کو ہر حال میں افغانستان سے جانا ہو گا۔ اگر طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات طول پکڑتے ہیں تو یہ امریکی حکمت عملی اور خارجہ پالیسی کی ناکامی ہو گی اور اسے ویتنام جیسے انخلاء کے لئے تیار رہنا چاہئے جبکہ پاکستان کو گروہی اور مسلسل دشمنی کی سیاست کو خیرباد کہہ کر اتحاد و اتفاق کا راستہ اپنانا چاہئے۔ یہی ایک صورت ہے کہ وہ افغانستان میں رونما ہونے والے غیر متوقع حالات سے اپنے آپ کو بچا سکتا ہے۔ حکمرانوں کو جو سطح پر نظر آ رہا ہے اور جو نظر نہیں آ رہا ہے اس کا ادراک ضروری ہے۔ اس کے لئے صوبوں کو ان کے حقوق دینا ہوں گے، انہیں مطمئن کرنا ہو گا۔
تازہ ترین