• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غرور کا سر کیسے نیچے ہوتا ہے، تکبر کرنے والے کس طرح عبرت کا نشان بنتے ہیں، یہ کوئی پاکستان کے ہاتھوں بھارت اور نیوزی لینڈ کی شکست سے سبق سیکھے۔ ٹی 20 ورلڈ کپ میں جہاں گرین شرٹس کی ابتدائی دو بڑی تاریخی فتوحات نے مہنگائی کے ہاتھوں مسائل کا شکار بائیس کروڑ عوام کے چہروں پر خوشیاں بکھیر کر پوری قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا تو وہاں عقل والوں کے لئے بھی بہت سی نشانیاں چھوڑیں کہ اگر سلیکٹرز غیر جانب دار ہوں ، میرٹ پہلی ترجیح ہو، ٹیم کی سلیکشن فیورٹ ازم سے بالاتر ہو تو پھر ٹیم کا مورال بھی ہائی ہوتا ہے، وہ قومی جذبے سے فتح حاصل کرنے کے لئے جان بھی لڑا دیتی ہے اور کچھ کر گزرنے کی لگن انہیں ہر قیمت پر ڈٹے رہنے پر مائل رکھتی ہے۔ کامیابی انہی کے قدم چومتی ہے جو خلوص نیت سے آخری گیند تک لڑتے ہیں۔ گرین شرٹس کی میدان میں باڈی لینگوئج سے صاف نظر آرہا تھا کہ وہ کسی سلیکٹر ز کی پیداوار ہیں نہ ہی ان پر کسی قسم کا دباؤ ہے۔ کپتان نے وہی کھلاڑی کھلائے جو باصلاحیت تھے، جن پر اسے پورا اعتماد تھا، میدان میں کسی کوچ کی پرچی آئی نہ ہی سلیکٹرز نے اپنے پسندیدہ کھلاڑی کو حتمی الیون میں شامل کرنے پر دباؤ ڈالا۔ ورلڈ کپ سے قبل بھارت نے ہمارے خلاف کیا کیا سازشیں نہ کیں، کھیل کے ہر میدان میں ہمارا راستہ روکا، مالی طور پر پی سی بی کو شدید نقصان پہنچایا، نیوزی لینڈ کو ایک سازش کے تحت میچ سے چند لمحے قبل پاکستان چھوڑ کر جانا پڑا لیکن دبئی اور شارجہ کے میدانوں میں دنیا نے ان تمام سازشوں کو ناکام ہوتے دیکھا۔ یہاں قومی ہیرو ، لیجنڈ، فاسٹ باؤلر شعیب اختر کا ہربھجن سنگھ کے ساتھ تاریخی مکالمے کا یہ فقرہ بھی اپنی جگہ ایک تاریخ بن گیا کہ ”آپ (بھارتی) پیسے کے زور پر یہاں تک پہنچے ہیں۔ ہم محنت کرکے یہاں آئے ہیں، فیصلہ میدان میں ہوگا۔“ یہی وہ شعیب اخترہے جس نے پاک بھارت معرکے کے بعد کہا ”بھارت کو ہمیشہ دو اعظم یاد رہیں گے۔ ایک قائداعظم، دوسرا بابر اعظم۔“ پھر ہم نے اس قومی ہیرو کے ساتھ کیا کیا؟ سرکاری ٹی وی پر ایک نام نہادا سپورٹس اینکرپرسن ڈاکٹر نعمان نیاز (جس کا پس منظر سب جانتے ہیں) نے بین الاقوامی شہرت یافتہ سرووین رچرڈ اور سرڈیوڈ گاور کے سامنے اس قومی ہیرو کی تذلیل کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ تم کون ہوتے ہو بھارتی ٹی وی چینل پر بیٹھ کر بھارت ہی کو لتاڑنے والے، یہی وہ انتقام تھا جو وجہ تنازعہ بنا،کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ ہمارے ہاں محب وطن لوگوں کی عزت ہو۔ انہیں قومی ہیروز کی عزت اچھال کر ہی سکون ملتا ہے۔ یہی ہماری سیاسی و سماجی تاریخ کا المیہ ہے کہ کسی کی شہرت اور کامیابی ہضم نہیں ہوتی۔ قومی ہیروز کی تذلیل کرنا ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔ کچھ خاص لوگ ان قومی ہیروز سے ایسے خوف زدہ ہو جاتے ہیں کہ جیسے ان کی دنیا ہی لٹ گئی ہو۔ پاکستان کی کرکٹ،سیاست اور جمہوریت میں سازشوں کی یہ کہانی بڑی طویل ہے اور ہم نے جو بویا تھاآج وہی کاٹ رہے ہیں۔ اپنی پیدائش سے اب تک ایک ہی ڈبہ فلم دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ہم پہلے بھی اسے فلاپ فلم کہتے تھے اور اب بھی اسی پر قائم ہیں۔ اس ملک میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے انوکھانہیں ہے۔ یہ مذہب کے نام پر تشدد کے مناظر، جلاؤ گھیراؤ، احتجاج دھرنے کی آڑ میں حکومتیں بنانے ، گرانے کا کھیل آخر کب تک کھیلتے رہیں گے۔ بیساکھیوں کے سہارے انوکھے لاڈلوں کو مسند اقتدار پر بٹھانے کی یہ روایت ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔ خان اعظم کے دور میں جنم لینے والے انصافیوں سے ہمدردی ہی کی جاسکتی ہے کہ وہ بھی ملکی صورت حال سے شدید پریشان ہیں، مہنگائی، بے روزگاری، بیڈ گورننس کے ہاتھوں بُری طرح متاثر ہونے کے باوجود محض اپنی فیس سیونگ کے لئے بدستور بے پرکی اڑانے سے باز نہیں آ رہے۔ انصافی بھائیو یہ پاکستان ہے، یہاں ہر کوئی بیساکھیوں کے سہارے ہی اقتدار میں آیا، ہاتھ پاؤں بندھی جمہوریت میں اپنا محدود کردار نبھانے کی کوشش میں سازشوں کے ذریعے کوئی پھانسی چڑھ گیا تو کوئی بم دھماکے میں شہید ہو گیا۔ یہ وہی ملک ہے جہاں شہید ملت خان لیاقت علی خان کو سرعام لیاقت باغ میں گولی مار دی گئی لیکن جمہوریت کے ان شہداءکا کوئی قاتل انجام کو نہیں پہنچا۔ نواز شریف ہو یا بینظیر جس کسی نے بھی اپنا جمہوری کردار نبھانے اور اختیاراستعمال کرنے کی کوشش کی سانپ سیڑھی کے کھیل میں 99 سے0 پر لاکھڑا کیا گیا۔ افسوس اس بات پر ہے کہ خان اعظم بھی تمام تر سہاروں کے باوجود ایک صفحے کی کہانی کو برقرار نہ رکھ پائے اور اب اس کہانی کا دوسرا صفحہ لکھا جارہا ہے کہ اپوزیشن آگ اور خون کے اس کھیل کا کسی صورت حصہ بننے کو تیار نہیں، حالات نے اپوزیشن کو اس طرف دھکیل دیا ہے کہ حکومت کی تبدیلی کے نکتے پر ایک بار پھر متحد ہو جائے۔ یہ خان اعظم کی بدقسمتی ہے کہ ان کے اقتدار کی کشتی اپنے ہی بوجھ سے ڈوبتی جارہی ہے اور یہ ہائبرڈ نظام اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے جس کا آغازبلوچستان میں جام کمال کی حکومت کی ”باعزت رخصتی“ سے شروع ہو چکا ہے۔ جہاں تک وفاق اور پنجاب کامعاملہ ہے تو بات صرف اس ایک نکتے پر رکی ہوئی ہے کہ اپوزیشن عبوری تبدیلی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ صرف ایک ہی شرط ہے، طاقت ور حلقوں کی مداخلت سے پاک، صاف، شفاف، غیر جانب دارانہ آزاد انہ انتخابات کی گارنٹی اور جس جماعت کی حکومت بھی بنے اسے اپنی ٹیم کے انتخاب اور اختیارات کے استعمال میں مکمل خود مختاری حاصل ہو۔ ویسے تو بات ایبسولوٹلی ناٹ سے وائے ناٹ تک پہنچ چکی ہے۔ اب دیکھتے ہیں حالات کااونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین