27 دسمبر2007ءکی خون آشام ساعتوں نے پاکستان کے سیا سی سورج کو اُس وقت غروب ہوتے دیکھا کہ جب دخترِ مشرق ، اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم، بھٹو کی ’’پِنکی‘‘،عوام کی’’بی بی‘‘، پیپلز پارٹی کی روحِ رواں چند سنسناتی ہوئی، بے رحم گولیوں اور سفّاک رویّوں کے ہاتھوں شہید ہو گئیں۔
یہ خبر اتنی ہول ناک اور روح فرسا تھی کہ اس سےنہ صرف پیپلز پارٹی کے کارکنان، بلکہ پورا پاکستان گہرے صدمہ میں ڈوب گیا۔ بی بی کے جانے کا دُکھ اس قدر شدید تھا کہ محترمہ کی زندگی میں لگنے والے نعرے ’’چاروں صوبوں کی زنجیر، بے نظیر بے نظیر‘‘کو،اُن کی موت نے حقیقی رُوپ دے دیاکہ ان کی موت کا دُکھ ہر صوبےکے عوام میں یک ساں طور پر محسوس کیا گیا۔ہر جگہ ایسا محسوس ہو رہا تھا ، جیسےلوگوں کی ہر دل عزیز شخصیت، ان کاکوئی اپنا، ان کے گھر کا فرد چلا گیا ہو۔
ہم ایک عورت اور ورکنگ وومن ہونے کے ناتے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ہمارے معاشرے میں عورت کی زندگی کس قدر مشکل، کٹھن، سخت حالات اوررکاوٹوں کی دَوڑ میں گزرتی ہے۔ یہاں قدم قدم پرروایات، تحفظّات،خو ف، عدم مساوات اور صنفی امتیاز کی زنجیریں خواتین کے پَیروں میں پڑی نظر آتی ہیں۔ ایسے حالات میں محترمہ بے نظیر بھٹوکا وزیر اعظم بننا، یقیناً اُن کی اَن تھک سیا سی جدّو جہد،بہادری اور عزم و حوصلے کی علامت تھا۔
بے نظیر کی آزمائشیں تو ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی ہی میں شروع ہو چُکی تھیں ، مگر مارشل لا کی سختیوں ،باپ کی اسیری اور پھانسی نے بھی محترمہ کو کم زور نہیں ہونے دیا، بلکہ مزید مضبوط ومستحکم کرنے کے ساتھ پختہ سیاسی شعور بھی عطا کیا۔بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد وہ اعصابی طوراس قدر مضبوط ہو کر سامنے آئیں کہ جس کا کوئی تصوّر بھی نہیں کر سکتا تھا۔
ہم بلا مبالغہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ باپ کی پھانسی کے بعد اس نہتّی لڑکی نے پاکستان کی سیاسی بساط پر انقلاب برپا کر دیا۔ اڈیالہ جیل میں قیدِ تنہائی کی سی زندگی،باپ کی ظالمانہ موت اور پارٹی کی قیادت کے جذبے نے بی بی کو وہ آہنی قوّت عطا کی،جس سے مخالفین اور باطل قوّتیں خوف کھا رہی تھیں۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب1986 ء میں وطن واپسی پر پاکستان کی بیٹی کاایسا عظیم الشّان استقبال کیا گیا کہ وہ بے نظیر بھٹو سے ’’دخترِ مشرق‘‘ بن گئیں۔ بعد ازاں، بے نظیر بھٹو کے سیاسی سفر کا وہ شان دار آغاز ہوا کہ وہ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم قرار پائیں۔ سبز رنگ کے لباس اور سفید دوپٹے میں ملبوس نوجوان بے نظیر بھٹوکی تقریبِ حلف برداری کا منظر بھلا کون بھول سکتا ہے۔
بے نظیر بھٹو نے خواتین کے حقوق کی فراہمی، صلاحیتوں کے استعمال اور اعلیٰ مقام تک رسائی کے لیے مخلصانہ عملی کردار ادا کیا۔ 1989ء میں قائم ہونے والا فرسٹ ویمن بینک، جو ان کے پہلے دَورِ حکومت میں قائم ہوااور دوسرے دَورمیں 1994ءمیں ویمن پولیس اسٹیشن کا قیام اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ جن سے پاکستانی عورت کے لیےجہاں روزگار کے مواقع میّسر آئے، وہیں بے نظیر بھٹو نے سیاست کے خارزار میں اس طرح پیش قدمی کی کہ اُن کے بعد پھر خواتین کی ایک کثیر تعداد سیاست میں آئی اور صرف مخصوص نشستوں پر نہیں، عام نشستوں پر بھی خواتین نے انتخابات میں حصّہ لیا ۔
ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ آج کی ہرخاتون سیاست دان کی، خواہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتی ہو ،رول ماڈل بے نظیر بھٹو ہی ہیں ۔بالعموم پاکستان کی ہر باشعور عورت چاہے وہ نظریاتی طور پر کسی بھی جماعت سے وابستہ ہو ، اعتراف کرتی ہے کہ محترمہ بے نظیربھٹو نے عالمی طور پر ’’پاکستانی عورت ‘‘ کا بلند کردار و تصوّر پیش کیا ۔
وہ بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر پاکستانی عورت کی ایک روشن تصویر کی علامت کےطور پر سامنے آئیں۔ اُن کا اخلاق، قابلیت و ذہانت، مضبوط کرداراور لب ولہجے کا ٹھہراؤ سننے والوں کو مسحور کر دیتا تھا۔پھر انگریزی زبان پر دسترس ، تلفّظ، پُر تاثیر ادائی بھی ان کی شخصیت کو چار چاند لگا تی۔ گوکہ اُن کی اردو اتنی اچھی نہیں تھی، لیکن عوامی جلسوں میں وہ زیادہ تراردو زبان ہی میں خطاب کرتی تھیں، حتیٰ کہ لیاقت باغ کا اُن کا آخری خطاب بھی اردو زبان میں اورجوش و جذبے سے بھر پور تھا۔
بے نظیر بھٹو اپنی ذات میں یکتا تھیں کہ وہ ایک ورکنگ وومن ہونےکے ساتھ ایک کام یاب ماں اور وفا دار شریکِ حیات بھی تھیں۔ انہوں نےایک ماں کی حیثیت سے اپنے بچّوں کو بڑا بھر پور وقت دیا اور وہ وقت بھی سب کو یقیناً یاد ہوگا، جب آصف علی زرداری جیل میں تھے اور بی بی ،بچّوں کی انگلیاں پکڑے یا انہیں گود میں اُٹھائے آصف علی زرداری سے ملنے جاتی تھیں۔ پھر دبئی میں قیام کے دوران بھی بچّوں کی تعلیم و تربیت میں مصروفِ عمل رہیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو عالمی سطح کی لیڈر اورسحر انگیز شخصیت کی مالک تھیں۔
سفید دوپٹے سے ڈھکا سر ،پُر وقارسادہ لباس ، آنکھوں میں کاجل، ہاتھ میں تسبیح ان کی شخصیت کو مزید جاذبِ نظر بنا تے تھے۔ وہ مشرق کی اُس عورت کی نمایندہ تھیں، جو ذہانت و قابلیت ، ہمّت و جرأت ، حیا، وفا اور ممتا کامجموعہ ہے۔ بی بی کی چمکتی مسکراتی آنکھوں میں اپنے بچّوں، پاکستانی عوام اور اس مُلک کے لیے بہت سے خواب تھے ۔ لیکن یہ سب خواب 27دسمبر کی سیاہ شام نے چھین لیے۔
محترمہ بے نظیربھٹو کی شہادت کی خبر، صرف خبر نہیں ،ایک الم ناک سانحہ تھی، جس نے پاکستان کا سیاسی ، سماجی اور اخلاقی منظر نامہ ہی بدل کے رکھ دیا۔ ہمارے پاس بے نظیر بھٹو جیسا بین الاقوامی سطح کا کوئی لیڈر نہیں رہا اور پھر سیاسی اتار چڑھاو ٔاور وقت نے ثابت کیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی موت سے پاکستان کو کس قدرنقصان پہنچا ۔ بی بی کے نامعلوم قاتلوں کو نہ جانے کیا کیا ملا ہوگا، لیکن پاکستان کے عوام سے بہت کچھ چِھن گیا۔بقول کیفی اعظمی؎ رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی …تم جیسے گئے، ایسے بھی جاتا نہیں کوئی۔