• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو کمروں کے چھوٹے سے گھر میں مرکزی دروازے کی جگہ ایک میلا سا پردہ لٹکا تھا۔ کمرے کی ایک جانب بوسیدہ حال پلنگ پر بِچھی پھٹی چادر اور اس میں سے جھانکتا بوسیدہ سا گدّا صاف بتا رہا تھا کہ وہ کتنا ’’آرام دہ‘‘ ہے۔ ٹوٹی پھوٹی سی الماری اور زمین پر رکھے مٹّی میں اَٹے بستے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا ہر گز مشکل نہ تھا کہ انہیں کئی مہینوں سے کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا ہے۔گھر میں بچّے تو موجود تھے، لیکن چہچہاہٹ، چہروں پر شوخی اور آنکھوں میں چمک کی جگہ پژ مردگی، بد حالی نظر آرہی تھی۔غرض کہ اس گھر میں موجود ہر شئے وہاں کے مکینوں کے حالتِ زار کا پتا دیتی تھی۔

یہ حالاتِ زندگی کسی جھونپڑی یا کچّی آبادی میں قائم گھر کے نہیں، ایک متوسّط گھرانے کے ہیں، جس کا سربراہ کسی دُکان پر کام کرتا تھا، لیکن لاک ڈاؤن میں نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھااور جب لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد اس دُکان میں دوبارہ کام مانگنے گیا ،تو مالکان نے یہ کہہ کر رکھنے سے انکار کر دیا کہ ’’فی الحال ہمیں اسٹاف کی ضرورت نہیں۔ ‘‘مگر اس شخص نے ہار نہیں مانی اوربیوی بچّوں کا پیٹ پالنے کے لیے مزدوری شروع کردی، مگر منہگائی کے اس دَور میں محض چند سو روپوں کی دیہاڑی سے پیٹ بھرنا ممکن ہے، نہ بچّوں کو تعلیم دلوانا آسان۔ اسی لیے دونوں میاں بیوی کوشش کرتے ہیں کہ وہ نہ سہی، کم از کم ان کے تینوں بچّے تو دو وقت کا کھانا کھالیں، اسی کوشش میں کبھی شوہر ’’مَیں نے باہر کھانا کھا لیا تھا‘‘ کہہ کر اپنے نوالے بیوی ، بچّوں کو کھلا دیتا ہے، تو کبھی بیوی ’’مجھے بھوک نہیں ہے‘‘ کہہ کر دال بچالیتی ہے۔

کہنے کو یہ کوئی کہانی لگتی ہے، لیکن اگر آج کے اس منہگائی کے دَور میں اپنے گردو نواح کا جائزہ لیا جائے، تو اندازہ ہوگا کہ یہ غریب اور متوسّط گھرانوں سے تعلق رکھنے والے ہر دوسرے خاندان کی وہ حقیقت ہے، جس سے انکار ممکن نہیں۔ مانا کہ منہگائی ، بے روزگاری، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہمارے لیے نئی اصطلاحات نہیں اور نہ ہی موجودہ حکومت کی پیدا کردہ ہیں اور ان مسائل میں کہیں نہ کہیں کورونا وبا کا بھی ہاتھ ہے، لیکن اسی کے ساتھ اس بات میں بھی کوئی دورائے نہیں ہو سکتی کہ عام آدمی کی زندگی جس قدر اس حکومت میں اجیرن ہو ئی ہے، بد عنوان کہلائی جانے والی حکومتوں میں بھی نہیں ہوئی کہ کم از کم جان بچانے والی ادویہ ، آٹا، دالیں تو غریب کی قوّتِ خرید میں تھیں۔ 

پہلے کئی کئی ماہ بعد قیمتوں میں اضافہ ہوتا تھا، مگر اب بجلی ، آٹا، گھی، تیل، دالوں کی قیمتوں میں دِنوں میں اضافہ ہورہا ہے۔اس ہوش رُبا منہگائی نے ایسے طوفانِ بلا خیز کا رُوپ دھار لیا ہے کہ جس میں غریب اور متوسّط طبقہ ڈوبتا ہی جا رہا ہے اور بچنے کی کوئی اُمید نظر نہیں آرہی۔ نام نہاد یوٹیلیٹی اسٹورز پر مَن مانی قیمتوں پراشیا فروخت ہو رہی ہیں۔ پھر جب حکومت اور اس کی ناقص پالیسیز پر تنقید کی جائے ،تو کچھ لوگ اور وزرا یہ تاویلیں پیش کرتے ہیں کہ ’’منہگائی ، بے روزگاری تو ہر دَورمیں ہوتی ہے‘‘تو ناقدین جواب یہ دیتے ہیں کہ موجودہ حکومت عوام کو ریلیف ، کروڑوں نوکریوں سمیت بلند بانگ وعدوں کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے، تو جس قدر دعوے کیے گئے تھے، اسی حساب سے تنقید بھی کی جائے گی۔ پھر یہ ستم بھی دیکھیے کہ حکومت ہر ماہ عوام سے منہگائی پر قابو پانے کے اقدامات کا وعدہ کرتی ہے اور ریلیف دینا تو کجا،ہراگلے مہینے قیمتوں میں اضافہ کرکے پھر نئے وعدے شروع کر دیتی ہے۔ 

جس مُلک میں وزیر ِخزانہ کے عُہدے کی مدّت چھے مہینے سے زیادہ نہ ہو، پالیسی ساز عالمی مالیاتی اداروں کو خوش کرنے کے لیے کام کرتے ہوں، وہاںمعیشت کی بہتری کی اُمید کیسے رکھی جا سکتی ہے؟ حالت یہ ہے کہ جس دن وزیرِاعظم کاشت کاروں کو براہِ راست سبسڈی دینے کا اعلان کرتے ہیں، اُسی دن اُن کی کابینہ بجلی کی قیمت میں ایک روپیہ انتالیس پیسے فی یونٹ بڑھانے کا اعلان کردیتی ہےاور اسی دن اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا جاتا ہے۔

گوکہ ا دارۂ شماریات ،پاکستان کی نومبر کے آخری ہفتے میں جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیاتھا کہ مُلک میں ہفتہ وار منہگائی میں0.67 فی صد کمی واقع ہو ئی۔ اور ایک ہفتے میں 20 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا،تو 8 کی قیمتوں میں کمی بھی ہوئی۔ جیسے زندہ مرغی اوسط 17 روپے 91 پیسے فی کلو کمی کے بعد 252 روپے 72 پیسے فی کلو میں فروخت ، چینی اوسط ایک روپے 79 پیسے فی کلو سستی ہونے کے بعد اوسط 93 روپے 76 پیسے پر آگئی ، ٹماٹر 21 روپے 84 پیسے فی کلو سستے ہوئے، آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت میں 11 روپے 36 پیسے کمی آئی، جب کہ ایل پی جی کا گھریلو سلینڈر 18 روپے 11 پیسے سستا ہوا۔

لیکن ادارۂ شماریات کی یکم دسمبر کو جاری کردہ رپورٹ میں ہوش رُبا انکشافات کیے گئے ہیں کہ ’’مُلک میں منہگائی 21ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہےکہ مئی 2021 ء کے بعد پہلی بارمنہگائی ڈبل ڈِجٹس میں چلی گئی۔ ادویہ ، گھی، کوکنگ آئل، ٹماٹر، بجلی چارجز، موٹر فیول سمیت دیگر اشیائے ضروریہ منہگی ہوگئی ہیں۔ ادارہ شماریات نے منہگائی کے ماہانہ اعدادوشمار جاری کرتے ہوئے بتایا کہ نومبر میں منہگائی کی شرح میں 2.98 فی صد کا اضافہ ریکارڈ ہوا ، جس کے بعد شرحِ منہگائی 11.53 فی صد تک پہنچ گئی ۔

تاہم، جولائی سے نومبر میں منہگائی کی شرح 9.32فی صد رہی،جب کہ یہی شرح اکتوبر میں 9.2فی صد تھی۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ سال نومبر میں منہگائی کی شرح 8.3فی صد تھی۔ واضح رہے،شہروں میں منہگائی کی شرح 12 فی صد اور دیہات 10.9 فی صد رہی۔رپورٹ کے مطابق ایک سال میں گھی کی قیمت میں 58.29 فی صد،خوردنی تیل کی قیمت میں 53.59 فی صد،بجلی کی قیمت میں 47.87 فی صد، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 40.81فی صد،جب کہ ادویہ کی قیمتوں میں 11.76 فی صد کا اضافہ ہوا۔‘‘

بے روزگاری اور منہگائی کی بڑھتی لہرمُلک میں خودکُشیوں اور جرائم میں اضافے کا بنیادی سبب بن رہی ہے۔جیسے گزشتہ برس جنوری میں ایک کباڑ ی نےبچّوں کے لیے گرم کپڑے خریدنے کی سکت نہ ہونے پر خودکُشی کرلی تھی۔یاد رہے،سندھ میں خودکُشی کا یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں کہ یہاں خودکُشی کی شرح میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق سندھ میں گزشتہ پانچ برسوں میں 1,300 سے زائد افرادخودکشی کر چُکے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق صرف سندھ میں 2021 ءکے 7 ماہ کے دوران 442 خودکُشی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔2019ء میں تھر پارکر میں بے روزگاری سے تنگ آکر77 افراد نے خود کُشی کی تھی، جن کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ 

رواں سال کی بات کی جائے، تو مارچ میں را ول پنڈی کے رہائشی 40 سالہ محمد اعجاز ولد نفیس دین نے معاشی بدحالی اور بے روزگاری سے تنگ آکر گلے میں پھندا لگا لیا ۔اسی طرح گزشتہ ماہ میاں چنوں سے تعلق رکھنے والامعذور مزدور، عبد المجید غربت سے تنگ آکر اپنے تین کم سِن بچّے فروخت کرنے نکل پڑا۔ تفصیلات کے مطابق عبدالمجیدکے گھر میں دو دن سے فاقہ تھا،اس سے بچّوں کی بھوک برداشت نہیں ہو رہی تھی تو وہ انہیں ہی فروخت کرنے کو تیار ہوگیا۔یہی نہیں، نومبر ہی میں کراچی کے رہائشی، 6 بچّوں کے باپ، فہیم احمد نے بےروزگاری اور معاشی بد حالی کے سبب خودکُشی کرلی، واضح رہے، فہیم 2 سال سے بےروزگار تھا اور گزارے کے لیے رکشہ چلانے لگا تھا، لیکن اخراجات پورے نہیں ہو رہے تھے، 3 مہینے سے فلیٹ کا کرایہ بھی نہیں دیا تھا،جب کہ بینک کا ایک لاکھ روپے کا مقروض بھی تھا،جس کی قسطیں نہ ادا کر سکنے کے باعث پریشان تھا۔

کراچی ہی کے رہائشی، نوجوان ظہیر عاصم نے بے روزگاری کے سبب ایک شاپنگ سینٹر کی تیسری منزل سے چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔یاد رہے، ہم نے نمونے کے طور پر صرف چند واقعات کا ذکر کیا ہےکہ وگرنہ ہمارا مُلک بے بسی، بد حالی، مایوسی اور نااُمیدی کے ایسے ہزاروں، لاکھوں واقعات سے بھرا پڑا ہے، جن میںبد قسمتی سے وقت کے ساتھ اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے ۔

’’بڑھتی منہگائی کا عام آدمی کی نفسیات پر کیا اثرہوتاہےاور مُلک میں بڑھتے ہوئے خود کُشی کے واقعات پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟‘‘ ہم نے پوچھا تو ڈین فیکلٹی آف سائیکائٹری کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان، رُکن، مینٹل ہیلتھ ٹاسک فورس، حکومتِ پاکستان، پروفیسر ڈاکٹر اقبال آفریدی نے بتایا کہ ’’بات در اصل یہ ہے کہ ہم نے بطور مسلمان اللہ پر توکّل کرنا چھوڑ دیا ہے۔ یاد رکھیں، مایوسی اور نا اُمیدی کفر ہے۔ مانا کہ حالات مشکل ہیں، منہگائی ، بے روزگاری کا عفریت ہمیں جکڑے ہوئے ہے، پر کیا ہم بھول گئے ہیں یا ہم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے؟ 

پروفیسر ڈاکٹر اقبال آفریدی
پروفیسر ڈاکٹر اقبال آفریدی

مشکلات کس کی زندگی میں نہیں آتیں؟ دنیا تو ہے ہی کٹھنائیوں کا سفر، تو ہار مان جانا کہاں کی عقل مندی ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنا چھوڑ دیا ہے، ہمیں اپنے گناہ، کوتاہیاںیاد ہی نہیںکہ اگر یاد ہوں تو اللہ کی عطا کردہ نعمتیں زیادہ لگنے لگیں۔ ایک کاغذ لیں اور اس کی ایک جانب اپنی زندگی کی تمام نعمتوں، جیسے رشتےناتے، دوست احباب، صحت، تعلیم، اعضا وغیرہ کے بارے میں اور دوسری جانب کمیوں، پریشانیوں کے بارے میں لکھیں اور جائزہ لیں کہ نعمتیں زیادہ ہیں یا مشکلات۔ ذہنی امراض کی ایک وجہ نیند کی کمی، غیر معتدل ، غیر معیاری اشیاکا استعمال اور ورزش نہ کرنا ہے۔ 

کہنے کو تو آج کل بے حد منہگائی ہے ، لیکن اسمارٹ فون، انٹرنیٹ پیکیج وغیرہ ہر کسی کے پاس ہے، کیا اسمارٹ فون کا استعمال ضروری ہے؟ ہر گز نہیںکہ رابطہ تو سادہ سے موبائل سے بھی قائم رہ سکتا ہے۔ہم نے غیر ضروری اشیا کو اپنی زندگی میں شامل کرکے خود اپنی زندگیاں مشکل بنا لی ہیں اور پھر منہگائی کا رونا روکے اپنی ہی زندگیوں کے دشمن بن جاتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ ہمارے ایک غلط فیصلے سے آخرت تو برباد ہو گی ہی، لیکن ہمارے گھر والوں، والدین، بیوی، بچّوں کی زندگیاں بھی تباہ ہو جائیں گی۔ 

دوسری جانب حکومت کی بھی ذمّے داری ہے کہ زکوٰۃ کا نظام بہتر کرے کہ اگر ہر صاحبِ استطاعت صحیح طور پر زکوٰۃ نکالےاور وہ پیسا مستحقین تک پہنچ جائے تو غربت کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ نیز، عوام کو بھی سوچنا چاہیے کہ پیٹ صرف روٹی ، چٹخارے دار پکوان سے نہیں ، کسی بھی حلال چیز سے بَھرا جا سکتا ہے۔ جیسے اگر آٹا دسترس میں نہیں تو کھجور کھا لیں، اس سے غذائیت بھی ملے گی ، توانائی بھی اور شکم سیری بھی ہوجائے گی۔ کھجور نہ کھا سکیں تو کوئی پھل کھالیں۔ 

علاوہ ازیں،اپنے لائف اسٹائل کا بھی ضرور جائزہ لیں اور غیر ضروری اخراجات سے اجتناب برتیں کہ ہمیں اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی۔ یاد رکھیں! زندگی ایک نعمت ہے، اس کی قدر کریں کہ خود کُشی کرنا دلیروں کا نہیں، بزدلوں کا کام ہے اور ایک مسلمان کبھی بزدل نہیں ہو سکتا۔ ‘‘’’مُلک میں موجودہ منہگائی کی کیا وجوہ ہیں؟اس کا ذمّے دار کون ہے اور تدارک کیسے ممکن ہے؟‘‘ ان سوالات کا جواب جاننے کے لیے ہم نے ماہرِ معاشیات اور نجی یونی وَرسٹی میں درس وتدریس سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر اقدس افضل سے بات چیت کی ،تو وہ کچھ یوں گویا ہوئے کہ ’’موجودہ منہگائی کی تین بنیادی وجوہ ہیں۔ 

پروفیسر ڈاکٹر اقدس افضل
پروفیسر ڈاکٹر اقدس افضل

اوّل، حکومتی پالیسیز، موجودہ وزیر خزانہ ،شوکت ترین نے منصب سنبھالنے کے بعد یہ جائزہ لیا کہ ہماری معیشت جمود کا شکار ہے۔ ہم نے عالمی مالیاتی فنڈز کے کہنے پر اپنے اخراجات کنٹرول تو کر لیے، لیکن اس وجہ سے مُلک کو بے حد نقصان پہنچا، جس میں سب سے بڑا نقصان بے روزگاری کی صُورت سامنے آیا۔ تو حکومت نے سوچا کہ جب مُلک میں ملازمتیں ہی نہیں ہوں گی، تو پانچ سال بعد، دوبارہ انتخابات میں عوام کے پاس کیا منہ لے کر جائیں گے؟ لہٰذا حکومت نے اپنی حکمتِ عملی بدلی اور نئی حکمتِ عملی کے تحت اخراجات بڑھائے، جس سےمنہگائی میں بھی بے حد اضافہ ہوا۔

دوم، کووِڈ-19 کی وجہ سے نہ صرف پاکستانی معیشت، بلکہ پوری دنیا ہی کی معیشت کو بے تحاشا نقصان پہنچا اور دنیا کی معیشت جمود کا شکارہوگئی ۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگ باہر نکل سکے، نہ اخراجات کر سکے تو بچت بھی ہوئی اور یوں جب کاروبارِ زندگی بحال ہوا ،تو اشیا کی مانگ میں اضافے کے باعث قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا، کوموڈیٹی پرائسز آٹھ، نو سال کی بلند ترین شرح پر پہنچ گئیں،جن میں تیل سرِ فہرست ہے۔ اب چوں کہ پاکستان میں تیل کے ذخائر موجود ہی نہیں اور ہمیں وہ امپورٹ کرنا پڑتا ہے، اس لیے تیل کی قیمتوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 

نیز، ہمارے ہاں بجلی کی پیداوار میں بھی تیل اور گیس کا استعمال ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافے سے بجلی کے نرخ بھی بڑھے۔ اسی طرح منہگائی کی تیسری اور آخری وجہ روپے کی قدر میں کمی ہے۔ جو ڈالر 140، 150 روپے کا تھا اب، 180 روپے کا ہوگیا ہے۔ یہ تو ہوگئیں منہگائی کی وجوہ، اب اگر بات کی جائے حل کی، تو پوری دنیا میں ’’Hypothecated Tax‘‘ کی اصطلاح اور نظام عام ہے، جس پر ہمارے ہاں کوئی بات ہی نہیں کرتا۔ یہ ایک خاص قِسم کا ٹیکس ہے، جو کوئی ٹارگٹ اچیو کرنے کے لیے لگایا جاتا ہے۔ 

جیسے اگر حکومت چاہے تو لگژری گاڑیوں، لگژری آئٹمز، نئی گاڑیوں کی خریداری پر ایک یا دو ہزار روپے تک ٹیکس لگا دے کہ کوئی غریب تو ان حالات میں لگژری اشیا افورڈ نہیں کر سکتااور جو کر رہا ہے وہ غریب نہیں ہو سکتا۔ پھر اس ٹیکس کی رقم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام یا دیگر ریلیف پروگرامز میں ایلوکیٹ کرکے غربا میں تقسیم کرے۔ اس طرح جہاں ریلیف پیکجز میں غریبوں کو 2 ہزار روپے ملتے ہیں، وہاں 4 ہزار روپے ملنے لگیں گے اور ان کے مسائل حل ہو سکیں گے۔ایسا نہیں ہے کہ ہمارے مُلک کے ماہرینِ معاشیات ان اصطلاحات یا نظام سے نا بلد ہیں، بس فرق یہ ہے کہ غریبوںاور متوسّط طبقے کا دُکھ درد کوئی سمجھنے کو تیار نہیں۔ لہٰذا،حکومت کو چاہیے کہ اس ضمن میں جامع پالیسیز مرتّب دے، تاکہ مستقبل میں بہتری آسکے۔

تازہ ترین