• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محترم شکیل عادل زادہ صاحب ازراہِ کرم کبھی کبھی فون پر یاد کرتے ہیں۔ حال ہی میں فون کیا تو کہا کہ کسی نے پوچھا ہے کہ تشت از بام کی ترکیب جو اردو میں فارسی سے آئی ہے اس کا مفہوم تو واضح ہے (یعنی کوئی بات ظاہر ہونا یامشہور ہونا، راز کھل جانا ، بدنام ہونا) لیکن اس کی وجہِ تسمیہ کیا ہے؟ یہ ترکیب کیسے بنی؟

شکیل بھائی سے عرض کیا کہ مجھے نہیں معلوم۔ کہیں کسی لغت میں دیکھنا پڑے گا۔ انھوں نے کہا کہ میں اردو کی تقریباً ساری بڑی لغات دیکھ چکا ہوں۔کسی میں وضاحت سے یہ نہیں لکھا کہ اس ترکیب کی اصل کیا ہے۔ عرض کی میں کسی اور لغت سے دیکھ کر بتاتا ہوں۔ خیر جناب ، اسٹین گاس کی مشہورفارسی بہ انگریزی لغت میں تشت کے ذیلی مرکبات میں’’ تشت از بام افگندن ‘‘کا اندراج ملا۔ 

اس فارسی محاورے کا اردو ترجمہ ہوگا: تشت (یعنی پرات ، بڑا سا برتن) بام (یعنی چھت یا کوٹھے )سے پھینکنا۔ اسٹین گاس نے اس کے معنی لکھے ہیں : (مجازاً) کوئی راز فاش کردینا، بے عزتی کرنا۔لغت نامۂ دہخدا نے فرہنگ ِ آنند راج کے حوالے سے لکھا ہے کہ تشت ازبام افگندن (بام سے تشت پھینکنا) سے مراد ہے رازفاش کرنا۔

اب ظاہر ہے کہ کوئی چھت سے بڑا سا دھاتی برتن گرائے گا تو اتنا شور ہوگا کہ سبھی متوجہ ہوجائیں گے۔ سب کو پتا چل جائے گا۔ اسی لیے جب کوئی بات سب کو معلوم ہوجائے تو کہتے ہیں یہ بات تشت از بام ہوگئی۔

یہاں ایک وضاحت تشت کے املے کے ضمن میں بھی لگے ہاتھوں کردی جائے۔ بعض لوگ تشت کو طوے (ط) سے یعنی طشت لکھتے ہیں ، لیکن تشت دراصل فارسی کا لفظ ہے اور طوے (ط) بالعموم عربی الفاظ کے لیے مخصوص ہے۔ اسٹین گاس نے طشت (ط) سے لکھا تو ہے لیکن کچھ ذیلی تراکیب کے بعد لکھا ہے کہ مزید تراکیب کے لیے تشت (ت سے ) سے رجوع کیجیے۔ فرہنگ ِ رشیدی کے مطابق اس کا املا تشت ہے اور طشت اس کی معر ّب صورت ہے۔گویا فارسی کے لحاظ سے درست املا تشت ہے نا کہ طشت۔اور یہ لفظ فارسی ہی کا ہے لہٰذا تشت لکھنا چاہیے۔

تازہ ترین