• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1875میں صاحبزادہ عبدالرسول قصوری مجددی ولی کامل گزرے ہیں، حافظ میاں محمد نعمان نقشبندی مجددی کے دادا کے دادا حضرت میاں امام الدین ان سے بیعت ہوئے۔1880میں عبدالرسول قصوری مجددی نے پیرومرشد کے کہنے پر پنجاب کا پہلا مدرسہ جامعہ فتیحہ اچھرہ میں قائم کیا۔ قدیم ترین زمیندار خاندان ذیلداران کے نام سے ہی مشہور ہے۔ یہ خاندان ہمیشہ سے اپنی علمی، سماجی و سیاسی خدمات کے حوالہ سے معروف ہے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے اس خاندان میں دین اور دنیا دونوں کو یکجا فرما دیا اور ہمیشہ ملی و دینی کاموں میں برصغیر میں سر فہرست رکھا۔ حافظ میاں نعمان 1996میں مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے 1999میں مشرف دور کی سختیاں و پابندیاں برداشت کیں۔ نواز شریف وشہباز شریف کے ساتھ وفاداری اور ملکی مفاد میں اپنی جماعت کے لئے گلی گلی کام کیا ، آمریت کے دنوں میں دفتر کے لئے گلبرگ لاہور میں جگہ فراہم کی۔ مشرف ومسلم لیگ ق کے دور میں سیاسی منصب قبول نہیں کیا بلکہ مشکل اور شدید آزمائش کے دور میں بھی ن لیگ سے وفاداری دکھائی اور ن لیگ کا مقدمہ لڑا۔ 2008میں الیکشن لڑا، لاہور میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر منتخب ہوئے ن لیگ کی حکومت میں شہباز شریف ڈیلیورنگ پالیسی پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے دیانت داری اور قابلیت کے معیار پر میاں محمد نعمان کو پنجاب کی بہت ساری کمیٹیوں کا چیئرمین ،وائس چیئرمین بنایا۔ کئی بیرون ممالک کے سرکاری دورے اپنی جیب سےوزیراعلیٰ کے ساتھ کئے اور ملکی ترقی کے اہم منصوبوں پر کام کیا ،شہباز شریف ٹرانسپیرنسی اور عوامی مفاد کو اہمیت دیتے تھے خود بھی اور تمام عملہ جو بیرونی ممالک جاتا وہ اپنا خرچ خود برداشت کرتا۔ ترکی کے وزٹ سے خصوصاً میٹروبس منصوبہ، ویسٹ مینجمنٹ منصوبہ اور پارکنگ اسٹینڈ وغیرہ کے پروجیکٹس کو عملی جامہ پہنانےمیں میاں نعمان کا شہباز شریف کی قیادت میں اہم کردار ہے۔ میڑو بس کو پہلی بار استنبول میں طیب اردوان نےاس وقت متعارف کروایا جب وہ استنبول کے میئر تھے۔ لاہور پارکنگ کمپنی جس نے لاہور سے پارکنگ ٹھیکہ داروں کی اجارہ داری ختم کی، اس کا سہرا بھی حافظ محمد نعمان کے سر پر ہے کیونکہ LPCکے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین تھے، کوئی آفس، تنخواہ یا مراعات نہیں لیں۔ پھر ان تمام کمپنیوں کو زیر عتاب لایا گیا نیب کو کمپنیوں کے ریکارڈ چیک کرنے کا کہا گیا، نواز شریف اور شہباز شریف کا مقصد تھا کہ ترقی یافتہ ممالک کی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کو پاکستان لایا جائے،حافظ نعمان کو نیب نے تفتیش کے لئے بلوایا۔ 28نومبر 2018کو نیب کی عدالت سے گرفتار کر کے نیب حوالات ٹھوکر نیاز بیگ لے جایا گیا۔ وہاںان کو نیب کے 10x10کےسیل میں کئی دن تک رکھا گیا۔ یہاں شہباز شریف بھی نظر بند تھے یہ اُن کا وہ اِن کا اکثر حال پوچھنے آ جاتے، حوصلہ بڑھانے کے لئےسیاسی واقعات سناتے ،جرات وبہادری کے ساتھ، استقامت کے ساتھ اپنے موقف پرقائم رہنے کا کہتے کہ آپ بےقصور ہیں، صبر کریں یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ انہی دنوں نیب آفس ٹھوکر نیاز بیگ کئی سرکاری ملازمین جن میں نندی پور پروجیکٹ، صاف پانی پروجیکٹ اور ریلوےکے گھپلوں میں ملوث افراد موجود تھے جن کی تعداد 25کے قریب تھی وہ اتنے ڈرے اور سہمے ہوئے تھے، بتاتے ہیں کہ نیب کے دہشت زدہ ماحول میں لوگ خوف کے مارے رات 3بجے بھی روتے اور نماز تہجد میں رو رو کر دعا مانگتےجبکہ رونے کی آوازیں ایک کمرے سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کمرے تک صاف سنائی دیتی تھیں کہ اللّٰہ ہمیں جلد از جلد رہائی نصیب فرما۔ حافظ نعمان سے ڈی جی نیب شہزاد سلیم نے پوچھا میرے لئے کوئی خدمت تو کہا کہ ہمیں جیل میں باجماعت نماز پڑھنے کی سہولت دی جائے شہزاد سلیم نے کہا کہ آپ پہلے شخص ہیں جنہوں نے باجماعت نماز کا مطالبہ کیا ہے یوں ان کی امامت میں نیب حوالات میں پہلی دفعہ شہباز شریف سمیت سب ملزم باجماعت نماز ادا کرنے لگے اور وہ رو روکر دعا کرتے،ان کو نیب ملازمین نے گرفتاری کے دوران ہی بتا دیا تھا کہ ہمیں علم ہے آپ کے کیس میں کچھ نہیں لیکن ہم مجبور ہیں۔ وہ 10ماہ سنٹرل جیل کوٹ لکھپت میں قید رہےجہاں انہیں بیرک نمبر 5ملی۔ یہاں انہوں نے سخت صعوبتیں برداشت کیں۔ جیل میں خواجہ سعد رفیق، خواجہ سلمان رفیق، پیپلز پارٹی کے آصف ہاشمی، فواد حسن فواد اور احد چیمہ جیسے بیوروکریٹس بھی قید تھے۔ یہاں بھی باجماعت نماز کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایک دوسرے کو تسلیاں، حوصلے، امیدیں دلاتے ہوئے دلیر ہونے اور بہادر رہنے کی تلقین کرتے۔ فواد حسن فواد اور احد چیمہ نواز شریف اور شہباز شریف کی دیانت و امانت کے بارے کئی واقعات سناتے ایک دن فواد حسن فواد نے بتایا کہ نواز شریف ایماندار اور ملک دوست ہیں، نواز شریف نے اپنی تنخواہ ملک کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ان پر تمام الزامات بے بنیاد ہیں۔ حتیٰ کہ کرپٹ بزنس مینوں کے بارے کہا ہوا تھا کہ وہ پرائم منسٹر ہائوس کے اندر داخل نہ ہونے پائیں۔ کوٹ لکھپت جیل کا دور انتہائی سخت اور اذیت ناک تھا۔ خاندان سے ہفتہ میں ملاقات ایک مرتبہ ہوتی، باتیں کم ہوتی تھیں گھر والے ہمارے چہروں کو اور ہم ان کے چہروں کو دیکھتے ہوئے ایک دوسرے کی دلجوئی کرتے۔ جیل طلوع آفتاب کے وقت کھلتی اور غروب آفتاب کے ساتھ بند ہو جاتی، جیل میں روزانہ 4/5سپاروں کی تلاوت کرتے اور دینی کتب جن میں شاہ ولی اللّٰہ کی تصانیف پڑھتے۔ کہتے ہیں ہم سیاسی قیدی تھے ہمیں بے بنیاد الزامات کے تحت ذہنی کوفت اور ڈپریشن دیا گیا، قیادت ہمارے ساتھ کھڑی رہی جیل میں ہمیں ملنے کے لئے آتے رہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کے کرم سے باعزت بری ہوا اور 28ستمبر 2019کو شیر گھر آ گیا۔ شہباز شریف سمیت سارے رہنما مبارک باد دینے گھر تشریف لائے۔

نوٹ: مولانا خادم حسین رضوی پیر عبدالواحد نقشبندی کے مرید تھے، مجھے اپنے گزشتہ کالم میں شہید پاکستان مولانا ڈاکٹر مفتی محمد سرفراز نعیمی شہید لکھنا چاہئے تھا۔

تازہ ترین