• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر میں سیاحت ایک اہم صنعت ہے اور کئی ممالک کے معاشی استحکام کا دارومدار ہی سیاحت پر ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کی حکومت سیاحت کے فروغ کے لیے خصوصی اقدامات کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیرملکی سیاحوں کو راغب کرنے کے حوالے سے معروف ٹریول کمپنی ”وائلڈ فرنٹیئرز“ نے گزشتہ سال پاکستان کو سیاحت کیلئے نمبر ون ملک قرار دیا تھا۔ اِس طرح امریکا میں قائم لائف اسٹائل اینڈ لگژری پبلی کیشن نے بھی پاکستان کی 2020میں یکساں درجہ بندی کی تھی۔ اِس حوالے سے پاکستان ایک خوش قسمت ملک ہے کہ جہاں قدرتی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ مذہبی سیاحت کے بھی وسیع مواقع موجود ہیں۔ سکھ برادری کے پانچ اہم ترین مذہبی مقامات پاکستانی پنجاب میں واقع ہیں۔ سکھوں کے اِن مذہبی مقامات میں سے گوردوارہ دربار صاحب کرتارپور سکھوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اُن کے روحانی پیشواگرونانک دیو جی نے اپنی زندگی کے آخری 18برس یہیں گزارے تھے۔ اُن کی آخری آرام گاہ اور سمادھی بھی یہیں ہے۔ کرتارپور کاریڈور بننے سے قبل سکھ یاتری سرحد کے دوسری طرف سے دُور بینوں کے ذریعے گوردوارے کے درشن کیا کرتے تھے۔ اِس راہداری کے کھلنے سے اب وہ اِس مقام تک خود چل کر درشن کے لیے آ جا سکتے ہیں جس سے نہ صرف پاکستان میں مذہبی سیاحت کو فروغ مل رہا ہے بلکہ دونوں ملکوں خصوصاً سکھ برادری میں پاکستان کے حوالے سے مثبت تاثر قائم ہو رہا ہے۔ امریکن سکھ کاکس کمیٹی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور پاکستان کا دورہ کرنے والے سکھ وفد کے رہنما ہرپریت ایس سندھو نے گزشتہ دِنوں لاہور میں ہونے والی ایک ملاقات میں اِس بات کی نشاندہی کی کہ پاکستان سکھ اور بدھ مذہب کی سیاحت کے غیردریافت شدہ پوٹینشل سے بھرپور فائدہ اٹھا کر سالانہ اربوں ڈالر کا زرمبادلہ کما سکتا ہے۔ اِس شعبے سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لیے حکومت کو فوری طور پر یونیسکو کے مقرر کردہ بین الاقوامی معیارات کے مطابق انفراسٹرکچر کی ترقی اور اسے برقرار رکھنے کیلئے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

ہرپریت ایس سندھو کے مطابق بھارت کے 20ملین ہندوستانی سکھوں میں سے 79فیصد پاکستان کا دورہ کرنا چاہتے ہیں لیکن اُنہیں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں سہولیات، رہائش، سیکورٹی اور ہوٹل مینجمنٹ کے عملے کی مناسب تربیت کی کمی کے علاوہ کم معیاری خدمات شامل ہیں۔ اِسی طرح بیرونِ ملک مقیم 80لاکھ سکھوں میں سے 83فیصد اِسی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔

یہ امر ہمارے لیے قابلِ غور ہے کہ دنیا بھر میں مذہبی سیاحت پروان چڑھ رہی ہے لیکن پاکستان میں اِس صنعت کو وہ اہمیت نہیں مل سکی جو ملنی چاہیے تھی۔ حالانکہ پاکستان مختلف مذاہب کے تاریخی ورثے سے مالا مال ہے۔ اِس حوالے سے ٹیکسلا، ہری پور، مردان، سوات اور دیگر علاقے قدیم گندھارا ورثے کی وجہ سے غیرملکی سیاحوں کے لیے بہت زیادہ پُرکشش ہو سکتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق 58ملین بودھ زائرین پاکستان آنا چاہتے ہیں مگر سہولتوں کی کمی کی وجہ سے پاکستان اِن منافع بخش مواقع سے ابھی تک فائدہ نہیں اٹھا سکا۔ واضح رہے کہ پاکستان میں سکھوں کے ساتھ ساتھ بدھ مت، ہندو مت اور جین مت کے درجنوں اہم اور مقدس مقامات موجود ہیں۔ حکومت اگر اس حوالے سے کوئی منظم حکمتِ عملی تشکیل دے تو پاکستان کے لیے اربوں روپے کا زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ اُس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے شہریوں کی بھی ذہن سازی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ پاکستان کے مثبت امیج کو اجاگر کرنے اور معاشی استحکام میں مذہبی سیاحت کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ اِس سلسلے میں مذہبی سیاحت کے حوالے سے اہم مقامات اور علاقوں کی مقامی آبادیوں کو سیاحتی پالیسیوں میں شامل کرکے شعور اور آگاہی فراہم کرنی ہوگی تاکہ وہ اپنی لاعلمی سے اِن بیش بہا وسائل کو نقصان نہ پہنچائیں۔ علاوہ ازیں ملک میں امن و امان کی صورت حال اور سیاحتی سہولتوں کو بھی مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا بھر کے سیاح خاص طور پر مذہبی سیاحت کے لیے آنے والے افراد ہزاروں ڈالر خرچ کرکے غلیظ باتھ رومز، ہوٹلوں کے گندے اور سیلن زدہ کمروں میں رہنا پسند نہیں کریں گے۔ علاوہ ازیں ہمیں سیاحت کو باقاعدہ ایک انڈسٹری کا درجہ دیتے ہوئے اس شعبے سے وابستہ مقامی افراد کے رویوں کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ جو بھی غیرملکی پاکستان کے کسی ائیرپورٹ پر اترتا ہے، ہمارے اکثر ہم وطن اسے سونے کا انڈا دینے والی مرغی سمجھ لیتے ہیں۔ اِن منفی عوامل اور رویوں پر قابو پانے کے لیے حکومت کو سیاحت کے حوالے سے موثر قانون سازی کرنے اور قوانین مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں بیرون ملک خصوصاً کینیڈا، برطانیہ اور امریکہ کے سفارتخانوں میں سکھ افسروں کو تعینات کیا جا سکتا ہے جو مذہبی سیاحت کے لیے آنے والوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیں۔ اِس حوالے سے ویزوں کے اجراکا طریقہ کار بھی آسان اور تیز رفتار بنانے کی ضرورت ہے۔ اِس کے علاوہ اسلام آباد، کراچی اور لاہور کے ائیرپورٹس پر مذہبی سیاحت کے لیے آنے والوں کی رہنمائی کے لیے خصوصی کائونٹر بھی قائم کئے جا سکتے ہیں۔ پنجاب حکومت کو اس حوالے سے اپنے ٹورازم کے محکمے کو مزید متحرک بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ سکھوں کے زیادہ تر مقدس مقامات پنجاب میں ہی واقع ہیں۔ اس حوالے سے اگر ہم چین کی سیاحتی صنعت پر ہی فوکس کر لیں تو وہاں سے ہر سال لاکھوں سیاح پاکستان آ سکتے ہیں کیونکہ چین سے ہر سال تقریباً ڈھائی کروڑ سے زائد سیاح بیرونِ ملک سفر کرتے ہیں۔ اگر ہم ان کے لیے اپنے مذہبی اثاثوں کی بہتر انداز میں تشہیر کریں اور انہیں پاکستان آنے پر مائل کریں تو اس سے ملکی معیشت کو مستحکم کرنے میں نمایاں مدد ملی سکتی ہے۔ اسی طرح یورپ اور امریکہ سمیت ہمسایہ ملک انڈیا کے شہریوں کے لیے بھی پاکستان میں مذہبی و تاریخی مقامات کی سیاحت کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ پاکستان کو اس شعبے پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ ہمارے ہمسایہ ممالک ہندوستان، ایران اور سری لنکا پہلے ہی اس شعبے میں ہم سے کہیں آگے ہیں اور وہاں مذہبی و ثقافتی مقامات کی سیاحت کروڑوں ڈالرز کی صنعت بن چکی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین