• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں مذہبی سیاحت کے فروغ کیلئے میں ایک طویل عرصے سے جدوجہد کررہا ہوں، تاہم سال ِ نو 2022ء کا آغاز میری مخلصانہ کوششوں کیلئے نہایت موثر ثابت ہوا جب یکم جنوری کو پاکستان ہندوکونسل کی دعوت پر بھارت اور خلیجی ممالک میں بسنے والے170ہندو یاتریوں کی پاکستان آمد ہوئی،یہ لوگ صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرک میں واقع شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی /ٹیری مندرکی یاتراکیلئے یہاں آئے ۔ ٹیری مندر میں عالمی یاتریوں کی آمد نے میرے ذہن میں گزشتہ پچیس سالوں کے واقعات کی یاد بھی تازہ کردی جب 1997ء میں سمادھی کو مسمار کرنے کی کوشش کی گئی، ہندو کمیونٹی کا یہاں داخلہ بند کرنے کیلئے راستوں پر قبضہ کرلیا گیا، مقدس مقام کا تقدس بحال کرنے کیلئے میں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا، سپریم کورٹ کے فوری ایکشن اور انتظامیہ کے متحرک ہونے کی بدولت مختصر وقت میں ٹیری میں سمادھی اور مندر کی بحالی ممکن بنالی گئی، بعد ازاں چیف جسٹس جناب گلزار احمد کی جانب سے ٹیری مندر میں دیوالی کی منعقدہ تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت نے مذہبی سیاحت کی راہ ہموار کردی، گزشتہ برس نومبر میں امریکہ، یورپ،بھارت، سنگاپور، کینیڈا، برطانیہ سمیت مختلف ممالک کے ہندو یاتریوں نے ٹیری مندر کی یاترا کی، وہ پاکستانی عوام کی بہترین مہمان نوازی سے اتنے زیادہ متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنے ممالک میں جاکر اس کا پرچار کیا پھر دنیا بھر سے ٹیری مندر کی یاترا کیلئے درخواستیں موصول ہونا شروع ہوگئیں۔ یکم جنوری 2022سے مذہبی سیاحت کا باقاعدہ آغاز کرنے کا فیصلہ کیا تو وزارت داخلہ، فارن آفس، سیکورٹی اداروں اور سب سے اہم ترین پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز سے معاہدہ طے پاجانے کے بعد بھارت میں مقیم یاتریوں کو لینے کےلئے قومی ایئرلائن کی ایک فلائٹ دہلی بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن بھارتی حکومت نے آخری لمحات میں پی آئی اے کو اجازت دینے سے انکار کردیا جس کے بعد یاتریوں کوبراستہ واہگہ بارڈر لانے کیلئے متبادل انتظامات کئے گئے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اب ماضی سے نکل کر ۔،امن و آشتی کا پیغام عام کرنا چاہئے، گزشتہ سات دہائیوں میں دونوں ممالک نے ہر محاذ پر ٹکراؤ اور تصادم کا راستہ اختیار کیا، جنگیں بھی لڑی گئیں ، ایک دوسرے پر الزام تراشی بھی کی گئی لیکن سرحدی کشیدگی کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔پاکستان اور بھارت کے مابین سرحد ایک حقیقت ہے ، تاہم یہ میری دِلی

خواہش ہے کہ امریکہ،کینیڈا یا پھر یورپی یونین کے ممبران ممالک کی مانند پاکستان اور بھارت کی سرحدسوفٹ ہونی چاہئے جہا ں ایک دوسرے کو جوتا نہ دکھایا جائے بلکہ پھول پیش کیے جائیں اور پیار بھرے ماحول میں اپنے ملک میں آنے والوں کا خیرمقدم کیا جائے۔میں پلوامہ حملے کے فوری بعد امن کاپیغام لے کر بھارت گیااور وہاںپردھان منتری نریندر مودی اور وزیر خارجہ سشما سوراج سمیت دیگر حکومتی شخصیات سے ملا، میں اس وقت بھی دونوں ممالک کو قریب لانے کیلئے پرعزم تھا اور آج بھی میں نے ہمت نہیں ہاری۔بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ بھارتی یاتریوں کو ایئرانڈیا کی فلائٹ سے لے کر جایا جائے،ہم نے خطے کے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایئرانڈیا سے بھی تعاون کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اب میں رواں ماہ28جنوری کو پاکستان سے خواجہ نظام الدین درگاہ دہلی اور حضرت معین الدین چشتی درگاہ اجمیر شریف کی تین روزہ زیارت کیلئے پی آئی اے کی پرواز سے170 زائرین کو لے کر جاؤں گا، اسی طرح فروری میں بھارت سے 170یاتریوں کا وفد ایئر انڈیا کی فلائٹ سے پاکستان پہنچے گا۔حالیہ یاترا کی کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان کو باقاعدہ درخواست پیش کردی ہے کہ دونوں ممالک میں واقع مقدس مقامات کی زیارت کیلئے ماہانہ پروازوں کا سلسلہ شروع کیا جائے، ہر ماہ پاکستان سے پی آئی اے کی ایک پروازبھارت جائے اور ایئرانڈیا کی فلائیٹ بھارت سے یاتریوں کو لے کرپشاور آئے، اگلے مرحلے میں خصوصی پروازیں دیگر عالمی شہروں سے بھی شروع کرنے کا منصوبہ زیرغور ہے۔میں بھارت سے آنے والے یاتریوں کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں جنہوں نے شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی کی یاترا کے دوران پارلیمنٹ ہاؤس، سپریم کورٹ، کٹاس راج مندر، گوردوارہ حسن ابدال، ننکانہ سمیت دیگر مقامات کا بھی دورہ کیا۔ بلوچستان میں واقع ہنگلاج ماتا مندر کا شمار ہندو دھرم کے مقدس ترین مقامات میں ہوتا ہے، میں چاہتا ہوں کہ وہاں کی یاترا کیلئے بھی پروازیں چلائی جائیں۔ ہرسال امریکہ سمیت عالمی ادارے پاکستان کو مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، تاہم انٹرنیشنل یاتریوں کی اتنی بڑی تعداد میں تاریخی آمد سے پاکستان کا امیج مثبت انداز میں بہترہوا ہے۔آج پاکستان قائداعظم کے وژن پر عمل پیراعلاقائی امن و استحکام کیلئے درست سمت کی جانب گامزن ہے لیکن سرحد پار کے امن پسند حلقوں کوبھی مہاتما گاندھی جی کے بھارت کے احیاء کیلئے کوششیں جاری رکھنی چاہئے، اس حوالے سے میری کوشش ہے کہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی جلدازجلد خیرسگالی ملاقات کرائی جائے۔مجھے یقین ہے کہ تاریخ میں دونوں ممالک کے عوام کو قریب لانے کیلئےکی گئی کاوشوں کو سنہری حروف سے لکھا جائے گا، میری طرف سے سالِ نو کا تحفہ قبول ہو۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین