• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس حقیقت سے کوئی باشعورانسان انکار نہیں کرسکتاکہ عزت نقالی سے نہیں ملتی۔ انگریزی زبان اور لباس کے استعمال کو پاکستان کا سوفٹ امیج ابھارنے کی تدبیر سمجھنے کو وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب نے درست طور پر بے بنیاد مفروضہ قرار دیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر ”زبان“ اپنے ساتھ اپنی تہذیب و ثقافت لے کر آتی ہے۔ آج آپ انگریزی سیکھنے کا ارادہ کرلیں۔ انگلش سیکھنے کے لئے لینگویج سینٹر جانے لگیں۔ ایک ماہ تک روزانہ جاتے رہیں۔ ٹھیک ایک مہینے بعد اپنا جائزہ لیں۔ آپ کے رویے، طرزِ گفتگو اوروضع قطع میں غیرمحسوس طریقے سے تبدیلی آچکی ہوگی۔ آپ کے لباس میں تبدیلی آنے لگےگی،اگر آپ شدید احساس کمتری میں مبتلا ہوگئےہیں تو آپ کے رویوں تبدیلی آجائے گی، آپ اپنے قومی لباس کو غیر ملکی لباس سے حقیر سمجھنے لگیں گےبلکہ بعض افراد تو اپنے ہموطنوں حتیٰ کے قریبی عزیزوں تک کو کمتر سمجھنے لگتے ہیں۔

اسی طرح اگر آپ ”عربی زبان“ سیکھنے کےلئے دو ماہ کسی سینٹر چلے جائیں۔ دو مہینے تک مسلسل عربی سیکھتے رہیں۔ ٹھیک دو مہینے بعد اپنا جائزہ لیں۔ آپ قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگیں گے۔ ہر ایک کو ”السلام علیکم“ کہنے لگیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھنے لگیں گے۔ مسجد جاکر نماز پڑھنے لگیں گے۔ دورانِ گفتگو موقع بہ موقع سبحان اللہ، ماشاءاللہ، الحمدللہ کہنے لگیں گے۔ غیرمحسوس طریقے سے مذہب اسلام کے طور طریقوں، رہن سہن اور بودوباش کو اپنانے لگیں گے۔بحراللہ ہزاروی نے لکھا ہے کہ جب سعودی عرب میں تیل کی تلاش کیلئے امریکی ماہرین آئے۔ آنے سے پہلے ان کو عربی زبان سکھائی گئی تھی، چنانچہ ان میں سے کئی امریکی مسلمان ہوگئے تھے۔ بعض قومیں بہت ہوشیار ہوتی ہیں۔ اس تجربے کے بعدانہوں نے کبھی اپنے ماہرین کو عربی نہیں سکھائی بلکہ اس نے اپنی زبان عربوں کو سکھائی۔ انگریز کا یہ طریقہ کار ہے کہ وہ جہاں بھی جاتا ہے، اپنی زبان وہاں کے مقامی لوگوں کو سکھاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہاں کے لوگوں میں انگریزوں سے محبت پیدا ہونے لگتی ہے یا کم از کم ان کے دلوں سے نفرت نکل جاتی ہے۔ انگریز جب برصغیر آیا تو اس نے یہاں بھی یہی کام کیا۔ مقامی زبان کو تبدیل کرکے اس کی جگہ جبراً انگریزی زبان رائج کروائی۔ نتیجے کے طور پر 99فیصد پڑھے لکھے جاہل قرار پائے اور انگریزی جاننے والا ایک فیصد طبقہ اعلیٰ تعلیم یافتہ کہلایا۔ آج بھی یہی ہورہا ہے۔ امریکہ نے پوری دنیا میں اپنی زبان انگریزی پھیلانے کا وسیع نیٹ ورک قائم کیا ہوا ہے۔ اور تو اور دینی مدارس جہاںساری دینی تعلیم ہی عربی زبان میں ہوتی ہے، قرآن سے حدیث تک، درجہ اوّل سے درجہ تخصص تک ساری کتابیں اور ساری تعلیم عربی میں ہی ہے، وہاں پر بھی انگریزی زبان مسلط کی جارہی ہے۔ ان کی مددسے مدارس میں سینٹر کھل رہے ہیں۔

آپ مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا یہی کام مسلمان کیا کرتے تھے۔ مسلمان جہاں بھی جاتے وہاں کے لوگوں کو عربی زبان سکھاتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ وہاں کے لوگ غیرمحسوس طریقے سے مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کو پسند کرنے لگتے۔ پھر کچھ ہی عرصے بعد وہ مسلمان ہوجاتے۔ مسلم فاتحین نے کبھی دوسروں کی زبانیں نہیں سیکھیں بلکہ ہمیشہ یہی کوشش کی کہ اپنی زبان دوسروں کو سکھائیں۔ دوسری زبانوں میں موجود علم و فن، علوم و معارف حاصل کرنے کےلئے ”دارالتراجم“ قائم کئے۔ ان علوم و فنون کو اپنی زبان عربی میں منتقل کرکے ان سے استفادہ کیا۔ صحیح طریقہ ہے بھی یہی کہ اپنی زبان اور تہذیب و ثقافت کو نہ چھوڑا جائے۔

ہمارے ملک پاکستان کی قومی زبان ”اُردو“ ہے۔ ”اردو“ رواداری، اپنائیت، محبت، ایثار، ہمدردی اور خلوص سے بھرپور ہے۔

اردو زبان نے کم وقت میں زیادہ ترقی کی ہے۔۔ زندہ دل قومیں اور ملک اپنی زبان اور تہذیب و ثقافت پر فخر کیا کرتےہیں۔ اس کی بقا اور سلامتی کیلئے کوششیں کی جاتی ہیں۔ اپنی قومی زبان کی ترویج اور اس کی بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات کئے جاتے ہیں۔ یہ کس قدر ناانصافی بلکہ ستم ظریفی کی بات ہے کہ ہماری قومی زبان تو ہے اردو، لیکن دفتری زبان انگریزی کو بنایا ہوا ہے۔ جب تک قومی زبان کو دفتری زبان قرار دیکر رائج نہ کیا جائے گا اس وقت تک اس کی بقا کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ ہم نے مرعوب ہوکر انگریزی کو دفتری زبان بنایا ہوا ہے۔ ہم خوامخواہ احساسِ کمتری کا شکار ہیں۔

تازہ ترین