• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیابھر میں کورونا وائرس کی 5ویں لہر کے وار جاری ہیں، خوف کی ایک فضا قائم ہے، لوگ پریشان ہیں۔بیروزگاری، نفسیاتی بیماریاں اور غربت بڑھ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے زندگی تھم سی گئی ہے لیکن دیکھا جائے تو معاملات اتنے بھی پیچیدہ نہیں ہوئے جتنا کہ دنیا بھر کا میڈیا پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ گزشتہ2 برس میں 34کروڑ افراد کورونا وائرس کا شکار ہوئے اور تقریباً 56لاکھ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یوں اموات کی شرح 1.8فیصد سے بھی کم ہے دنیا کی مجموعی آبادی کے مقابلے میں صرف 22ممالک میں جن میں یورپ،چین، روس اور ایران شامل ہیں مریضوں کی تعداد 22کروڑ اور مرنے والوں کی تعداد 39لاکھ ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں باقی تمام دنیا کے ممالک میں مریضوں کی تعداد 12کروڑ اورمرنے والوں کی تعداد 17لاکھ ہے۔ یہ 22ممالک جو کل آبادی کا 35 فیصد ہیں وہاں کورونا وائرس کاشکا ر ہونے والوں کی شرح65 فیصد اور اموات کی شرح70 فیصد ہے جبکہ اس کے مقابلے میں باقی تمام ممالک جو کل آبادی کا65 فیصد بنتے ہیں وہاں اس مرض کی شرح 35 فیصد اور اموات کی شرح 70فیصد ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ درجہ حرارت، حبس، دھوپ، ملیریا، ٹی بی اور قوتِ مدافعت میں کمی کا مریضوں کی تعداد اور اموات کی شرح میں اہم کردار ہے۔ کورونا وائرس روز بروز اپنی ہیت تبدیل کر رہا ہے۔ یہ نزلہ زکام کے وائرس کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔یہ کبھی ختم نہیں ہو گا لیکن روزبروز کمزور ہو کر عام فلو کی طرح کا ایک وائرس بن جائے گا۔ جب انفلوئنزا وائرس پہلی بار آیا تھاتو تقریباََ پانچ کروڑ افراد لقمہ اجل بنے تھے۔ SARS سے مرنے والوں کی شرح17فیصد اورMERS سے مرنے والوں کی شرح تقریباً 39فیصد تھی لیکن آج یہ تمام وائرس بھی کمزور ہو گئے ہیں اورنزلہ زکام کی طرح کے وائرس بن چکے ہیں۔پاکستان میں گزشتہ 2 سال میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد تقریباً ساڑھے 13لاکھ اور مرنے والوں کی تعداد تقریباً 29 ہزار رہی جویقیناً قابل افسوس ضرور ہے مگر 24کروڑ کی آبادی میں یہ اِس قدر تشویشناک شرح نہیں لیکن آج بھی لوگوں کو ڈرایا جا رہا ہے۔ لاک ڈائون کی باتیں ہو رہی ہیں۔اسکولوں اور کالجوں کو بند کیا جا رہا ہے۔لوگوں سے روز گار چھینا جا رہا ہے۔ شادی ہالز اور شاپنگ مالز بندکئے جارہے ہیں۔ مختلف قسم کی پابندیوں سے کاروبار تباہ کیے جارہے ہیں، مہنگائی کا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا، بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ عوام کیلئے نظام زندگی رواں دواں رکھنا دشوار سے دشوار ترہوچکا ہے۔ کورونا وائرس کے نام پرجاری پروپیگنڈےنے لوگوں کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔ نفسیاتی مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ہلاکتوں کی شرح میں تیزی کے ساتھ ساتھ چوری، ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ پاکستان کے مقابلے میں امریکہ، انگلینڈ، آئر لینڈاور دبئی جیسے ممالک کے حالا ت کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں روزانہ متاثر ہونے والے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہونے کے باوجود کوئی پریشانی اور خوف کی فضا نہیں۔ وہاں کے لوگوں نے کورونا وائرس سے گھبرانے کی بجائے اس کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔ یہ لوگ احتیاطی تدابیر کے ساتھ نارمل زندگی گزار رہے ہیں، وہاں کوئی اسکول، کالج، شاپنگ مال وغیرہ بند نہیں۔ بیماری میں ٹیسٹوں کو کم سے کم کیا جاتا ہے۔ انگلستان میں بیرونی ممالک سے آنے والوں کےلیے PCR ٹیسٹ کی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا بھر کی ائیرلائنز اور فارما سیوٹیکل کمپنیوں کا ایک بااثر مافیا جان بوجھ کر لوگوں میں خوف پیدا کرکے اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے ایجنڈے کو پروان چڑھا رہا ہے۔ اور کچھ طاقتور ممالک اس آڑ میں خوب کما رہے ہیں۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ آنے والا دور ’’بائیولوجیکل وار‘‘کا دور ہوگاجس میں زندہ رہنے کیلئے ہمیں ابھی سے تیاری کرنا ہو گی۔

پاکستان میں آج کل کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے،موسمی حالات کی وجہ سے سارے ملک میں نزلہ زکام کی صورت یہ وائرس پھیلا ہوا ہے، لوگ ٹیسٹ نہیں کروا رہے۔ اگر نزلہ زکام کا شکار افراد ٹیسٹ کروا بھی لیں تو کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی شرح زیادہ نہیں ہو گی۔ اس لیے ہمیں عالمی سازشوں کا حصہ نہیں بننا چاہئے۔ یہ نزلہ زکام کا وائرس بن چکا ہے۔ اس لیے اس سے گھبرانے کی بجائے زندگی کو معمول کی طرف لانا چاہئے۔ لاک ڈائون ختم اوراسکولوں، کالجوں اور شادی ہالوں کو کھول دینا چاہئے۔ لوگوں میںانتہائی قوت مدافعت پیدا ہونے دی جائے تاکہ وطنِ عزیز جو شدید ترین معاشی بدحالی کا شکا ر ہے ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔

تازہ ترین