• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پسماندگی کی کچھ وجوہات فطری اور تاریخی ہیں۔ رقبہ بہت زیادہ اور آبادی کم ہے۔ ایک شہر کی چند ہزار کی آبادی کو دوسرے شہر کی چند ہزار آبادی سے منسلک کرنے کے لیے اربوں روپے کی سڑک کی ضرورت ہوتی ہے۔

سرداری اور قبائلی نظام بذات خود ترقی کے دشمن ہیں اور بدقسمتی سے بلوچستان میں یہ عوامل بدرجہ اتم موجود ہیں لیکن اس مخصوص صورت حال کا حامل صوبہ (بلوچستان) صرف پاکستان میں نہیں۔ چین میں، مغربی چین کی بھی یہ صورت حال تھی۔

یعنی رقبہ بہت زیادہ اور آبادی کم لیکن باقی دنیا میں اس عدم توازن کو ختم کرنے کے لیے ملک کے ترقی یافتہ علاقوں سے وسائل، بلوچستان جیسے علاقوں کی طرف منتقل کئے جاتے ہیں۔ جیسا کہ چین نے مشرقی چین سے وسائل مغربی چین منتقل کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کر لیے لیکن ہم نے بلوچستان کے ساتھ ایسا کچھ نہیں کیا۔

دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سی پیک کی بہت زیادہ تشہیر کی گئی اور اس کے بارے میں ایسا تاثر دیا گیا کہ چین سے پچاس ساٹھ ارب روپے آکر پاکستان کے مختلف علاقوں میں بانٹے جارہے ہیں حالانکہ ایسا نہیں تھا بلکہ وہ پروجیکٹس تھے یاپھر سرمایہ کاری لیکن اس میں بھی ظلم یہ روا رکھا گیا کہ بلوچستان اور قبائلی اضلاع جیسے پسماندہ علاقوں کی بجائے ہم نے سی پیک کے اہم منصوبوں کا رخ پنجاب اور سندھ کی طرف موڑ دیا جس کی وجہ سے وہ تفریق مزید گہری ہوگئی۔

 ایک طرف سی پیک کی بنیاد گوادر (بلوچستان) ہے لیکن دوسری طرف وہاں کے لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ ہمیں کیا ملا ؟ سی پیک کے تحت بجلی کے اتنے منصوبے بن گئے کہ پاکستان میں بجلی سرپلس ہوگئی لیکن گوادر میں آج بھی بجلی ایران سے آتی ہے اور گھنٹوں گھنٹوں لوڈ شیڈنگ برداشت کرنی پڑتی ہے۔ گوادر کے لوگوں کو آج بھی پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔

بجائے اس کے کہ ہم وہاں کے ماہی گیروں کو جدید ٹیکنالوجی فراہم کرتے، الٹا ہم نے ان پر طرح طرح کی پابندیاں لگادیں اور باہر سے جدید ٹیکنالوجی کے ٹرالر مافیا کو وہاں شکار کی اجازت دی جو چند گھنٹوں میں ان کے علاقوں سے مچھلی کے ٹرالر بھر کر لے جاتے ہیں۔

بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور اس کا جب بھی حل نکلے گا تو وہ سیاسی طریقے سے ہی نکلے گا لیکن ہم اسے شاید صرف طاقت کے زور سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت بلوچستان میں جو سیاسی بساط ہے اس سے عملا بلوچستان کے اصل سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو باہر کر دیا گیا ہے۔

ہم ان سے اتفاق کریں یا اختلاف لیکن بلوچستان کے حقیقی لیڈرز سردار اختر مینگل، ڈاکٹر عبدالمالک، محمود خان اچکزئی، مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی، رئیسانی برادران، یار محمد رند اور اسی طرح کے لوگ ہیں۔ ہم نے ان سب کو باہر کرکے وہاں ایک مصنوعی اسمبلی اور مصنوعی حکومت قائم کردی ہے۔ مرکز میں بھی جو لوگ بلوچستان کے نمائندوں کے نام پر بیٹھے ہیں، ان میں بہت کم حقیقی معنوں میں بلوچستان کے نمائندے ہیں۔

اب تو ایک نیاخطرناک رجحان یہ سامنے آیا ہے کہ ماضی میں علیحدگی پسندوں کے مقابلے میں جن لوگوں نے ریاست کا ساتھ دیا، ریاست نےانہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور الٹا ان لوگوں کو نوازا جارہا ہے جو ماضی میں دوسری طرف کھڑے تھے۔ ریاست آج تک کوئی فیصلہ نہیں کرسکی کہ اس نے طاقت استعمال کرنی ہے یا پھر سیاست اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ پھر اگر سیاسی حل نکالنا ہے تو وہ کس طریقے سے نکالنا ہے اورکس طرح کے لوگوں کے ذریعے بات چیت کرنی ہے۔

ظاہر ہے سیاسی حل نکالنا ہوا تو پھر انہی لوگوں کے ذریعے بات کرنی ہوگی جن کی سیاسی حیثیت مسلمہ ہو۔ اب عمران خان نے یہ کام شاہ زین بگٹی کو وزیر بنا کر سونپ دیا لیکن وہ کبھی یہ کام نہیں کرسکتے۔ یہ بعینہ ایسا ہے کہ آپ ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نورولی کے کزن کو نہ صرف ان کے ساتھ ٹاسک دیں بلکہ اس مقصد کے لیے انہیں وزیر بھی بنا دیں۔

دوسری طرف حالت یہ ہو کہ خود مفتی نور ولی کے اس کزن کے ساتھ تعلقات بھی خراب ہوں۔تو وہ کیسے مذاکرات کروا سکے گا، حالانکہ یہاں تو اصل مسئلہ مکران میں ہے یا پھر مریوں کے ہاں ہے اور وہ لوگ کبھی شاہ زین بگٹی سے بات نہیں کریں گے۔

ایک اور حقیقت جو ہم نظرانداز کردیتے ہیں، یہ ہے کہ آج سے چند سال قبل بلوچستان میں صرف پاکستان کے دشمن یعنی انڈیا وغیرہ سرگرم عمل تھے لیکن اب سی پیک کی وجہ سے چین کی دشمن بڑی طاقتیں بھی بلوچستان میں سرگرم عمل ہیں۔ جب تک امریکی افواج افغانستان میں تھیں اور اس کا سپلائی روٹ بلوچستان تھا تو بلوچستان میں زیادہ انتشار مغربی طاقتوں کو قابل قبول نہیں تھا۔ افغانستان سے نکلنے کے بعد مغربی طاقتوں کی وہ محتاجی ختم ہوگئی ہے اور اب وہ پوری طاقت کے ساتھ بلوچستان میں انتشار پھیلانا چاہیں گی ۔

ہم انڈیا کا تو نام لیتے ہیں اور یقیناً انڈین را نے بلوچستان میں حالات خراب کرنے کے لیے پورا زور لگا رکھا ہے لیکن ایک اور پہلو جس کی طرف ہم دھیان نہیں دیتے، یہ ہے کہ بہت سارے بظاہر پاکستان کے دوست ممالک کو بھی گوادر بندرگار کی کامیابی گوارا نہیں کیونکہ اس کے فعال ہونے سے خلیجی ممالک کی بندرگاہوں کی اہمیت پر اثر پڑے گا۔

 ایران نے اس مقصد کے لیے چابہار بنائی اور اس لیے انڈیا اس کے ساتھ چابہار میں بھرپور تعاون کررہا تھا اور یہی وجہ تھی کہ کلبھوشن یادیو جیسے لوگ وہاں سے پاکستان کے خلاف سرگرم تھے۔ اب بھی گوادر کی کامیابی سے چابہار کی اہمیت کم ہوتی ہے اور ایران کبھی نہیں چاہے گا کہ گوادر کامیاب اور چین کے لیے بلوچستان ہی روٹ بنے۔

 اسی لیے طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان سے نکلنے والے بہت سارے بلوچ عسکریت پسند ایران منتقل ہوگئے ہیں لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ انڈیا اور افغانستان کی طرح ہم ایران کا نام نہیں لیتے۔ بلکہ یہاں پر ایران کا ان حوالوں سے ذکر شجرممنوعہ قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ اب وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کو پوری سنجیدگی اور قوت کے ساتھ ایرانی قیادت کے سامنے اٹھایا جائے۔ مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ان سے تعلقات خراب کرکے جنگی فضا بنائی جائے لیکن ان کے سامنے جرات کے ساتھ حقائق کی بنیاد پر بات کرنی چاہئے۔

تازہ ترین