• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیاوالٹ ڈزنی کے سارے کریکٹر مسلمان دنیا کے حکمران بن چکے؟ عالمی شاطر سیاسی و جنگی شطرنج کی بساط بچھائے امت مسلمہ کو زچ کر رہا ہے۔استعماری سیاست کا طرہ ِامتیاز ڈھٹائی، بے شرمی اور بدمعاشی آج نقطہ عروج پر۔گوموضوعات کی بھرمار،مگر بھارت کی بڑھتی ہوئی ریشہ دوانیاں جو گھاؤ پر گھاؤ لگانے میں مستعد، اہم ترین۔کئی دہائیوں سے مسلمہ اصول کہ طاقتور کی حد کاتعین ممکن نہیں۔ موضوع پر طبع آزمائی سے پہلے جھوٹ کے بازار کااجمالی جائزہ ہو جائے۔
1۔ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو اسامہ بن لادن نے25 ہزار کلومیٹر دور” تورا بورا“ سے بذریعہ بوئنگ 747 تاک کر نشانہ بنایا ۔جواباً طویل تگ و دو، اسامہ بن لادن کو امریکہ نے ایک محیر العقول آپریشن کے بعد تلاش کرکے ”پاکستانی پولیس مقابلہ سٹائل“جان ہتھیلی پر رکھ کر پاکستانی فوج کی نرسری کے عین عقب میں سخت مقابلے کے بعد ہلاک کر دیاگیا۔2۔عراق کے پاس ایک عالم کو تباہ کرنے والے ہتھیاروں کا انبوہ جبکہ امریکہ نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا کردنیا کو محفوظ مقام بنا دیا گو مہلک ہتھیار غیرموجود۔ 3۔اقوام متحدہ کچھ کہتی رہے امریکہ کا فرمان کہ ایران ایک ایٹمی طاقت بننے کے دھانے پر۔ملک مسلمان سزا ضروری۔ 4 ۔لیبیا کے اندر جمہوریت کو خطرہ چنانچہ بے خطر کود پڑا تیل کے کنوؤں میں عشق ۔ جن لوگوں نے کرنل قذافی کو کیفرکردار تک پہنچانے میں ساتھ دیا۔امریکی سراغ رساں بھیڑئیے ان کو ڈھونڈڈھونڈ کر بھون رہے ہیں۔ مبارک سلامت کہ جمہوریت پروان چڑھ رہی ہے۔ 5 ۔چونکہ مرسی آئین کی دھجیاں بکھیرتا رہا چنانچہ تقدسِ آئینِ مصر صدرمرسی کی مُرمت لازم ۔تف کہ عرب ممالک اور استعمار مل کرمصر میں بحالی ِ آئین میں مصروف۔ عرب( ٹاؤٹ )لیگ آج مصر میں براجمان اپنی تشکیلِ بے غیرتی پر اترا رہی ہے۔ ہزاروں مصری جو گولیاں سہہ گئے نیم مردہ حالت میں زندہ کوئی پرسان ِ حال نہیں بقول ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی”مصر کی بچیو! کاش آپ ملالہ ہوتیں“ دوسری طرف امریکا کا فرمان کہ شام نے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے چنانچہ شام کے خلاف طبلِ جنگ انسانی فریضہ ٹھہرا جو کہ خاکسار کا چند ماہ پہلے کا انتباہ ہی تو تھا۔ ادھر اِن سیشن عرب لیگ فرما چکی کہ” اگر شام کے عوام نے موٴدبانہ گذارش کی تو عرب لیگ شام کے خلاف جنگ میں امریکہ کے شانہ بشانہ لڑے گی“۔ 6۔امریکہ اور بھارت کو شکایت کہ لشکرِ طیبہ انڈیا کو تگنی کا ناچ نچوا رہی ہے۔بھارت نے دہشت گردی کے خلاف مہم کی بہتی گنگا میں اشنان کی خاطرپاکستان میں درجنوں وارداتوں کا سہارا لیا تاکہ” وار آن ٹیرر“ کا سہار ا لے کر وطنِ عزیز کا ستیا ناس کیا جاسکے چنانچہ ان کے ہاں کی ہر واردات کا سہرا لشکر ِ طیبہ کے سر باندھنا ضرورت۔ صرف ممبئی اٹیک کو ہی لے لیں، ماسٹر مائنڈ ڈیوڈ ہیڈلے FBI اور CIA آپریٹررہا اپنے مالکوں کے قبضے میں۔ بھارت غراہٹ کے ساتھ مانگنے پر تیار نہ امریکہ مطالبہ کو درخوراعتناء سمجھنے پر۔ بالآخرپول کیا کھلا ”کہ پچھلے سالوں کی ساری وارداتیں RAW اور ہندو انتہا پسند وں کی ملی بھگت“۔ 7 ۔ باقاعدہ استغاثہ کہ35 کلووزنی عافیہ صدیقی نے درجنوں ”امریکی ڈشکروں“کا پہلے مار مار کر بھرکس نکالا اور پھر ان سے وزنی اسلحہ چھین کر ان پر فائرنگ کی گوکہ ”امریکی بچے“ بال بال بچ گئے۔ امریکی عدل جو ش میں آیا اور 86 سال قید بمعہ تشدد، ذہنی اذیت ، اخلاقی بے حرمتی کا مستحق ٹھہرایا۔ہمارے قائدین بے حس بھی بے بس بھی۔ نئی بے غیرتی کہ غدار ِ وطن شکیل آفریدی جو پھانسی کا مستحق عافیہ کے پردے میں امریکہ روانگی کے لیے رختِ سفر باندھ چکا ۔ عافیہ کاش آپ ملالہ ہوتیں۔ 8 ۔ بھارت غصے میں آگ پھنکار رہا ہے اور پاکستانی سرحدوں پر اشتعال انگیز کارروائیاں جاری وساری۔ پاکستان کو تہس نہس کرنے کے لیے کابل ، بلوچستان، کراچی ، فاٹا اور اندرونِ وطن دہشت کی مسلسل کارروائیوں کے بعد خیال کہ افواج ِ پاکستان کو مغربی سرحدوں ، کراچی، بلوچستان اور مشرقی سرحدوں پر ایک وقت میں ملوث کرکے پاکستان توڑنے کے ایجنڈے کو پایہٴ تکمیل تک پہنچایا جائے۔
محترم وزیراعظم صاحب کا انڈیپنڈنٹ کو انٹرویوکہ ”مجھے مینڈیٹ ہی بھارت سے دوستی کا ملا ہے“ ۔ چند سال پہلے جب میاں صاحب نے سیفما (SAFMA) میں ایسی کیفیت کا اظہار کیا تو کہرام مچ گیا۔محترم بھائی جان پرویز رشید کو توجیحات کا سہار الینا پڑا ۔” با بائے قوم کو جو 13 ماہ میسر آئے اہم معاملات کی نشاندہی تو کر ہی گئے”کشمیر ہماری شہ رگ ہے“۔آج شہ رگ بھارت کے تصرف میں۔ مسلمان اکثریتی علاقہ ہماری معیشت ،ہماری زندگی ، ہمارے مستقبل کا ضامن ۔ ہمارے بچے جب چند دہائیوں کے بعد میٹھے اور صاف پانی کو ترسیں گے تب قائد کامافی الضمیرسامنے آئے گا۔ سندھ طاس معاہدہ نے دو خوبصورت دریا ؤں بیاس اور ستلج سے محروم کیا ۔ جہلم ، چناب پر ڈاکہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں بدلے میں چند برساتی نالے ہمارا مقدرٹھہرے۔بھارت کو کریڈٹ کہ ہمارے سیاستدانوں کے ذریعے کالا باغ ڈیم کو ترک کروایا۔ ہندوستانی سائنس دان اور ماہرین ببانگ دہل لکھ رہے ہیں کہ چند سالوں بعد ہندوستان کو جنگ کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔ وطن ِ عزیز کو پانی، بجلی، گیس، تیل کی قلت ہی لاچار کر دے گی۔ سیاچن، کشن گنگاپاور پروجیکٹ، LOC پر خلاف ورزیاں ، پاکستان میں دھماکے، بلوچستان ، کراچی میں میں قتل و غارت ، طالبان کوجدید اسلحہ کی سپلائی یہ پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے پلان ہی تو ہیں۔ معلوم ہے کہ ”امن کے بیوپاری “ سیاستدانوں اور دانشوروں کے مزاج پر حمیت اور غیر ت کی باتیں گراں گزریں گی مجبوری کہ وطن کی بقا کا مسئلہ ہے ۔ استعماری طاقتیں بھارت کے شانہ بشانہ پاکستان کو بربادی کی طرف دھکیل رہی ہیں اورجلدی میں ہیں۔اس سے پہلے ایسی ریشہ دوانی ، سفاکی اور طاقت کا مظاہرہ1971 میں دیکھ چکے جب وطنِ عزیز دولخت ہوا۔مضمون طوالت ضرور پکڑے گا لیکن حالات کو واضح کرنے کیلئے بھارت کے ماضی کے مکروہ عزائم کو پرانی و نئی نسل کوذہن نشین بلکہ ازبر کرانا بہت ضروری خصوصاًآپریشن براس ٹیکس (Brasstacks) : 1987 میں جب بھارت نے پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی ٹھانی ۔برادرم بابر خان چند دن پہلے بھارت سے واپس آئے تو فرمایا ”حیران کن کہ پورا بھارت پاکستان فوبیا کا شکار“۔ بک شاپ، ٹی وی، اخبارات پاکستان Bashing سے بھرا پڑا ہے۔ امریکی اسکالراسٹیفن کوہن نے اپنے حالیہ انٹرویو میں فرمایا کہ ”بھارت پاکستان کے مدمقابل احساسِ کمتری کا شکار ہے وجہ سمجھ سے بالاتر“۔ ہمارے میڈیا کی امن کی آشا انڈین میڈیا میں ”نراشا“ بن چکی۔ انڈیا کے منہ 1971 میں خون لگ چکا وہ آج کے پاکستان کو بنگلہ دیش، نیپال ، بھوٹان، سکم اور مالدیپ میں بدل کر اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھ رہا ہے۔ہندوستان کے کمانڈرانچیف جنرل سندر جی نے پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے آپریشن براس ٹیکس ایسے حالات میں شروع کیا جب پاکستان اور بھارت میں حالات معمول سے بھی بہتر تھے ۔
ہم افغانستان میں روس کے ساتھ نبرد آزما علاوہ ازیں سانحہ مشرقی پاکستان کے زخم پوری طرح باندھ نہ پائے تھے ۔ بھارت سے جھگڑا تو کجا ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے میں بھی احتیاط۔ آپریشن براس ٹیکس ہندو عزائم کی عکاسی ہی تو تھی ۔آپریشن ملاحظہ فرمائیں 6 ماہ لگا کر بھارت نے ساڑھے چار لاکھ(تقریباًساری) فوج،سینکڑوں ایئر کرافٹس ،تمام بحری بیڑے بمعہ درجنوں سب میرینز سے وطن ِ عزیز کا گھیرا تنگ کردیا کہ پاکستان کے اوپر قیامت ڈھانی تھی۔تیاری مکمل صرف راجیو گاندھی کے اشارے کی منتظر۔GlobalSecurity.Org کے مطابق آپریشن براس ٹیکس دوسری جنگ عظیم کے بعد کرہ ارض پر سب سے بڑا فوجی آپریشن تھا۔ دنیا کے فوجی پالیسی ساز اداروں نے حملے کو Blitzkrieg-Like یعنی ماند بجلی کی کوند اور شدت میں طرزِ قیامت۔اس وقت کے انڈین کمانڈر( ویسٹرن کمانڈ )لیفٹیننٹ جنرل پی۔ این ۔ ہون نے 1999 میں اپنی کتاب اور اپنے انٹرویو میں برملا اعتراف کیا کہ” مقصود ایسا جامع حملہ جو پہلی ہلے میں کہوٹہ ایٹمی پلانٹ کو ملیا میٹ کردے اور فوراًبعدگنجان آباد علاقوں پر زمینی ، ہوائی اور سمندری یلغار کے ذریعے فتح حاصل کر کے پاکستان کے حصے بخرے کر دے “۔
آفرین اور فخر اس وقت کی قومی قیادت، افواجِ پاکستان، بیوروکریٹس اور سیاستدانوں پر کہ 24 گھنٹے کئی ہفتے سر جوڑ کر بیٹھ گئے ۔ سید مشاہد حسین ( مسلم اخبار) کے ذریعے کلدیپ نیئرکا ڈاکٹر قدیر سے انٹرویو کروایاپھر سرعام تشہیر کہ”پاکستان نے ایٹم بم بنا لیا ہے۔“خوش قسمتی سے پاکستانی کرکٹ ٹیم بھارت کے دورہ پر تھی اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فوجی صدر ضیاء الحق نے اپنے آپ کو چنائی میچ پر مدعو کیا راجیو گاندھی اور مصاحبین کی سوچ و بچار کہ ضیاء الحق کو کیسے روکا جائے عالمی میڈیا کی لعن طعن کا ڈر بھی جبکہ عالمی میڈیا اور رائے عامہ متوجہ ہوئی تو جنگی منصوبہ متزلزل ہونے کا امکان بھی ۔ طوعاًوکرہاً یہ طے ہو اکہ ضیاء الحق کو روکھے انداز میں رسیو کیا جائے اور جلدی جان چھڑوائی جائے۔
ضیاء الحق جب دلی پہنچے تو راجیو نے طے شدہ طریقے کے مطابق توہین آمیز انداز میں استقبال کیا اور کئی گز دور کھڑے رہے ۔ جنرل ضیاء الحق نے جو مشن پر تھے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ آگے کے سفر کی اجازت چاہی اور ایکدم بڑھ کر راجیو سے بغلگیرہو گئے اور کان میں لمبی سرگوشی کی کہ ”حضورمحاصرہ چند دنوں میں ختم کردیں ورنہ آگ کی بارش برسانے میں عار محسوس نہیں ہوگی۔ اگر آپ کی فوج، ائیرفورس یا بحریہ نے ایک انچ بھی پاکستانی حدودتجاوزکی تو جناب کو سارے بڑے شہروں سے محروم کر دیں گے جبکہ دنیا ہلاکو خان، چنگیز خان کو بھول جائے گی “ ضیاء الحق کے ساتھ بھارتی وزیر مہانداری براہمن جوراجیو گاندھی کے شانہ بشانہ تھے اس واقعے کو تفصیل سے قلم بند کر گئے کہ” کانا پھوسی سے راجیو گاندھی کا گندمی رنگ زرد پڑ گیا جیسے پاکستانی جنرل نے جسم سے خون نکال لیا ہو“۔
کڑا وقت پھر آگیاہے بلکہ کبھی ٹلا ہی نہ تھا۔ بھارت پاکستان کو ہضم کر نہیں سکتا اینٹ سے اینٹ بجانا اس کی ازلی خواہش۔ قائدین دشمن کی نشاندہی سے قاصر چنانچہ قوم کو بہرحال جاگنا ہو گا۔جو کچھ وطن ِ عزیز پر بیت رہی ہے یہ پچھلے60 سال کی کہانی کا تسلسل ہی تو ہے ۔یہ بات نقش کر لیں کہ 1987 میں ساڑھے چار لاکھ فوج، فائٹر جیٹ طیارے اور درجنوں سمندری بیڑے پاکستان کو گھیرے میں لے کر پل پڑنے پر تیارتھے ۔ آج اس سے کہیں زیادہ مہلک ہتھیاروں اور جنگی سازوسامان کے ساتھ گھیر اتنگ ہو چکا ۔ حکمرانوں پر کڑی نظر ضروری جبکہ اپنے ہی ہم وطن گمراہ ہو چکے ۔ مشرقی پاکستان کی طرح بدقسمتی سے مذہبی انتہا پسند ، فرقہ واریت ، لبرل فاشسٹ ، کئی سیاسی جماعتیں امریکہ بھارت گٹھ جوڑکا حصہ بن چکیں۔ بدامنی بہت بڑا مسئلہ اور اقتصادی ترقی میں رکاوٹ جبکہ اقتصادی خوشحالی واحد راہِ نجات۔ قائدین کے کاروبار آج بھی پنپ رہے ہیں،چمک رہے ہیں۔ غریب کا چولہا بجھ چکا۔ دشمن کامیابی کے قریب۔ ایک مرد مجاہد چاہیے ، دیدہ ور چاہیے۔ جھوٹا، دغاباز، فریبی نہیں فقط ایک دیدہ ور۔ یا اللہ کڑا وقت ۔ ایک دیدہ ور۔
تازہ ترین