• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ثبات ایک تغیّر کو ہے، زمانے میں‘‘ کے مصداق دنیا میں تبدیلی ہی وہ واحد عمل ہے جو مستقل ہے اور تبدیل نہیں ہوتا۔ یہ الگ بات کہ ہم جیسے پسماندہ ممالک میں تبدیلی کا راستہ روکنے اور اسے اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی سرتوڑ کوشش کی جاتی ہے اور یہی ہماری پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ پاکستان ایک عرصے سے تبدیلی کی زد میں ہے۔ خصوصاً موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت کا تو انتخابی نعرہ ہی تبدیلی تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ ’’ اسٹیٹس کو‘‘ کی قوتوں کے خلاف ایک پرامن انقلاب لائیں گے۔ کیونکہ ’’اسٹیٹس کو ‘‘ کی قوتیں حقیقی تبدیلی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہیں۔یہی وہ قوتیں ہیں جو سوسائٹی کے طاقتور طبقوں اور مذہبی اشرافیہ کے ساتھ مل کر حکومت کرتی ہیں۔ اپنے مفادات کی خاطر حب الوطنی اور کفر کے فتوے صادر کرتی ہیں۔

عدلیہ، بیورکریسی اور کاروباری اشرافیہ کو کنٹرول کرتی ہیں اور سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کی قسمتوں کے فیصلے کرتی ہیں۔ یہ طاقتیں ملک کے تمام وسائل پرقابض ہیں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے دِ ن کو رات اور رات کو دن ثابت کرنے کی حیران کن صلاحیت رکھتی ہیں۔ اپنی اس صلاحیت کو بروئے کار لائے ہوئے ان طاقتوں نے نوجوان نسل کو اپنی من گھڑت تاریخ کے ذریعے حقائق سے اس قدر دور کردیا ہے کہ پاکستان اس سیّارے کا ملک ہی نہیں لگتا۔

پی ٹی آئی حکومت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس کا تبدیلی کا نعرہ ایک چکمہ تھا اور یہ حقیقی تبدیلی کو روکنے کے لیے تبدیلی مخالف قوتوں کا ایک کھیل تھا۔ جو بہت جلد بے نقاب ہوگیا۔ نئے پاکستان میں نئے نئے زخم لگانے اور پرانے زخموں پر نمک پاشی کرنے کے علاوہ ابھی تک کچھ نہیں کیا گیا۔ یعنی معاشی اور سیاسی و آئینی حقوق کے بارے میں 18ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے جو تھوڑی بہت آزادیاں اور آسانیاں حاصل تھیں، وہ بھی چھین لی گئی ہیں۔ ہوشربا مہنگائی نے جینا دوبھر کر دیا ہے اور اس گھٹن زدہ ماحول میں جرائم اور دیگر قانون شکن وارداتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اس سب کے باوجود غیر محسوس طریقے سے قدرت کا اپنا نظام ان استحصالی قوتوں کے خلاف روبہ عمل دکھائی دیتا ہے۔ جسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ تبدیلی کو روکنے کی ارادی کوششوں کے باوجود حقیقی تبدیلی آہستہ آہستہ رونما ہورہی ہے کیونکہ دنیا کے حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔ ہمارے حوالے سے اس تبدیلی کے اہم جزو کے طور پر پاک امریکی تعلقات خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ کمیونسٹ سوویت یونین کے خلاف فرنٹ لائن ا سٹیٹ کے طور پر پاکستان کو کھلے دل سے فوجی اور معاشی امداد دی جاتی تھی۔ بلکہ اسے اپنے تابع فرمان رکھنے کےلیے ڈکٹیٹروں کو بھی جمہوری لیڈروں کے مقابلے میں سپورٹ کیا جاتا تھا۔ اب وہ امداد تقریباًبند ہو چکی ہے کیونکہ اب امریکہ اور مغربی اتحادیوں کا ہدف ابھرتی ہوئی عالمی طاقت چین ہے۔ جس کے خلاف اس کا نیا اتحادی بھارت ہے۔ اس نئی پیش رفت کی وجہ سے گزشتہ 14سال سے پاکستان میں براہِ راست آمریت کو مسلّط نہیں کیا جاسکا۔

اگر آپ پاکستان کی 75سالہ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں بمشکل جمہوری یا نیم جمہوری دور کا دورانیہ 10سا ل سے زیادہ نہیں ملتا۔آزادی کے بعد 9سال کے بعد پہلا مارشل لا نافذ ہوا۔ جو دوسرے مارشل لا کے ساتھ مل کر تقریباً 14سال جاری رہا۔ بھٹو شہید کی 6سالہ جمہوری حکومت کے بعد ضیا الحق نے 11سال حکومت کی اس کے بعد دس سال تک سازشوں سے بھر پور نیم جمہوری دور رہا جسے پرویز مشرف نے ختم کردیا۔ پرویز مشرف کے دور کے آخری حِصّے میں اپنے دیرینہ اہداف حاصل کرنے کے بعد امریکی پالیسیاں تبدیل ہو نے لگیں۔ اور پاکستان کے لیے امریکی امداد اور حمایت میں کمی آنے لگی جس کی وجہ سے یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ دو سویلین حکومتوں نے اپنی مدّت پوری کی اور تیسری حکومت ابھی تک برقرار ہے۔ یہ ادوار اگرچہ کسی لحاظ سے بھی حقیقی جمہوریت کی تعریف پر پورے نہیں اترتے لیکن گزشتہ دس برسوں میں میڈیا خصوصاًسوشل میڈیا نے سیاسی شعور اجاگر کرنےمیں جو حیرت ناک ترقی کی ہے، اس کے بعد یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اب حقیقی تبدیلی کے عمل کو نہیں روکا جا سکتا۔

غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت کی وجہ سے پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام نے امریکی امداد کی غیر موجودگی کی وجہ سے جو خوفناک معاشی بحران پیدا کردیا ہے اس نے حقیقی تبدیلی کے عمل کو تیز تر کر دیا ہے۔ اور وہ دن دور نہیں جب پاکستان دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح اپنا با وقار مقام حاصل کر لے گا۔

تازہ ترین